”اسلام زندہ باد“ کانفرنس کے
ذریعے جے یو آئی (ف) نے ایک طویل عرصے کے بعد کراچی میں اپنی بھر پور سیاسی
قوت کا مظاہرہ کیا۔ بلاشبہ جے یو آئی نے لاکھوں فرزندان اسلام کو اکھٹا
کرکے کراچی کا میلہ لوٹ لیا ہے۔ اس کانفرنس کی کامیابی میں جے یو آئی کے
کارکنوں کی شب و روز کی محنت کار فرما ہے۔ اس پر جے یو آئی کی قیادت اور
کارکن بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عمران خان کے ”سونامی“ نے بھی جے یو آئی میں جان
ڈال دی اور اس سونامی کا جواب دینے کے لیے ہی ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کے
انعقاد کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جے یو آئی نے تاریخی جلسہ کرکے عمران خان کے
”سونامی“ کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ نے نہ صرف یہ کہ
کراچی کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والی سیکولر قوتوں کا بھرم ختم کردیا ہے
بلکہ دنیا کو پاکستانی عوام کا حقیقی پیغام بھی دیا ہے کہ یہ دین اسلام سے
عقیدت رکھنے والوں کا شہر ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں اسٹیبلشمنٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ
بناتے ہوئے اسے واضح پیغام دے دیا کہ اب آپ مذہبی قوتوں کے اقتدار میں آنے
اور ان کا راستہ روکنے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر یہودی لابی
کو پروان چڑھانے کا الزام لگاکر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ تحریک انصاف کو
آپ کی سرپرستی حاصل ہے۔ یوں مولانا فضل الرحمن نے بھی چودھری شجاعت کے
راولپنڈی کے ڈرائی کلین سے گزار کر ساتھیوں کے پاک و صاف کیے جانے کے بیان
پر تصدیق کی مہرثبت کردی۔ مولانا فضل الرحمن نے اسٹیبلشمنٹ کے رویے سے واضح
طور پر بیزاری کا اظہار کیا۔ انہوں نے مقتدر اداروں کو اپنی ناکامی تسلیم
کرنے کا مشورہ دے کر انہیں ملک کی خارجہ پالیسیوں کی ناکامی کا ذمہ دار
ٹہرادیا۔ مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کو ملک کے اسلامی فلاحی ریاست بننے میں
رکاوٹ قرار دے کر اسے کھلا پیغام دے دیا ہے کہ مذہبی طبقے کو جنگ کی طرف
دھکیلا جارہا ہے، انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ”لوگوں کو باغی بناکر
کہاجاتا ہے کہ اب ان کا راستہ روکو، یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔“ گویا قائد
جمعیت نے اسٹیبلشمنٹ کو للکار کر اعلان جنگ کردیا کہ اگر اب بھی آپ نے
سیاست میں مداخلت جاری رکھی تو پھر حالات کی ذمہ داری آپ پر عاید ہوگی۔ یہ
بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتیں بنانے اور
انہیں اقتدار میں لانے کے لیے مداخلت کرتی رہی ہے، لیکن اب حقیقی عوامی
نمایندگی سامنے لانے اور اپنی ناکام پالیسیوں کا حشر دیکھنے کے بعد اسے اس
عمل سے باز آجانا چاہیے۔
بہر حال جے یو آئی کی قیادت نے ”اسلام زندہ باد کانفرنس“ میں شرکت کے لیے
تمام مذہبی جماعتوں سے رابطے کیے، یہ خوش آیند بات ہے کہ اب جے یو آئی دیگر
مذہبی حلقوں کی قیادت کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ اگر جے یو آئی ایک جلسے
کی کامیابی کے لیے اپنے تمام لوگوں کے پاس جاسکتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کا
مقابلہ کرنے، ملک میں نفاذ اسلام اور پاکستان کے لیے اپنے گروہی مفادات کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام مسلکی جماعتوں کو ایک ساتھ لے کر کیوں نہیں چل
سکتی؟ سیکولر قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر
جمع کیوں نہیں ہوسکتیں؟ یقیناً اس جلسے کے ملک کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب
ہوں گے اور اس سے دینی سیاست کو مہمیز مل جائے گی، لیکن حالات اور وقت کا
تقاضا ہے کہ تمام دینی و مذہبی جماعتیں تنہا پرواز کرنے کی بجائے ایک پلیٹ
فارم پر جمع ہوکر مشترکہ جدوجہد کریں۔ کیوں کہ اس وقت پاکستان کو جتنے
چیلنج در پیش ہیں، ملک بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، وطن عزیز کی سلامتی کو
سنگین خطرات لاحق ہیں، ان دگرگوں حالات میںکوئی بھی جماعت تن تنہا قوم
کوبحرانوں سے نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اگر ہماری مذہبی
جماعتیںآیندہ عام انتخابات میں اپنے اپنے طور پر الیکشن لڑیں تو انہیں اس
کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جے یو آئی کو کم از کم ہم مسلک جماعتوں کے ساتھ
اتحاد پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
”اسلام زندہ باد کانفرنس“ کے حوالے سے ایک نجی ٹی وی چینل نے خبر چلائی کہ
اس نے عمران کے جلسے کا ریکارڈ توڑ دیا ہے اس کے باوجود میڈیا نے اسے ویسی
کوریج نہیں دی جو سیکولر عناصر کے جلسوں کو دی جاتی ہے، تحریک انصاف کے
”سونامی“ کے لیے پورے الیکٹرونک میڈیا نے اپنے 7 گھنٹے قربان کردیے جب کہ
اس تاریخی جلسے کوجائز کوریج نہ دینا میڈیا کے کردار پر ایک سوالیہ نشان
ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے اکثر چینل اس سے لاتعلق نظر آئے اور یہ بڑے دکھ کی
بات ہے کہ جو میڈیا سیاسی قائدین کی حرکات و جنبش کو بھی بریکنگ نیوز
بنادے، جو اسپانسرڈ جلسوں سے پہلے ہی ان کی تشہیر کرے اور ان کے لیے فضا
ساز گار بناتے ہوئے ایسی مہم چلائے جیسے پاکستان کا اس سے بڑا کوئی اور
مسئلہ ہی نہ ہو۔ اس نے اسلام زندہ باد کانفرنس کو بھر پور کوریج نہیں دی۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی اور
متحدہ قومی موومنٹ کا میڈیا سیل مضبوط اور فعال ہے اس لیے ان کو کوریج ملتی
بھی ہے۔ اب جے یو آئی کو بھی اپنا میڈیا سیل فعال بنانے پر توجہ دینی
چاہیے۔ انہیں میڈیا سے اپنے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوں گے۔
جے یو آئی کی قیادت سے عرض ہے کہ وہ اسلامی صحافت کی قدر کرے اور اسلامی
نظریات کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں پروموٹ کرے۔ میڈیا
وار کے حوالے سے ہمیں اپنی کمزوریوں کو دور کرنے پر خصوصی توجہ دینے کی
ضرورت ہے۔ بہر حال اسلام زندہ باد کانفرنس نے ملکی سیاست میں ایک نئی تاریخ
رقم کردی اور میرا وجدان کہہ رہا ہے کہ گزشتہ دنوں ملک میں آنے والا سونامی
اب تھم گیاہے۔ |