کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے
منظر سے ہٹ جانے سے واقعی ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جسے مدتوں تک پر نہیں
کیاجاسکتا۔ اس میں دورائے نہیں کہ ارشاد احمد حقانی مرحوم عہد ساز شخصیت
تھے۔ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے تو وہ ایک دانشور ہی تھے کہ زندگی کے
ابتدائی چند سال وہ گورنمنٹ کالج قصور میں علم کے موتی بکھیرتے رہے۔ شعبہ
تعلیم کو خیر باد کہنے کے بعد صحافت سے ناطہ جوڑ لیا اور یہ رشتہ اتنا
مضبوط ثابت ہوا کہ تاد م مرگ وہ اپنی اس منکوحہ کے ساتھ نتھی رہے۔ صحافت
میں انھوں نے پہلے اداریہ نویسی اور بعدمیں کالم نویسی کے شعبہ میں زیادہ
خامہ فرسائی کی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا کالم ” حرف تمنا“ علم و فکر
، عقل و دانش اور شعور آگہی کا بہترین مرقع ہوتا تھا۔ ان کے کالموں میں
معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ہدایت و رہنمائی پائی جاتی تھی۔سماجی انقلاب
اورعدل اجتماعی کی تصویر کشی ان کے کالموں کا خاصہ تھی۔ وہ ابتداءمیں جماعت
اسلامی سے و ابستہ رہے مگر وہ روایت پسند آدمی تھے اور نہ ہی اسلام کی
روایتی اور دقیانوسی خیالات پرمبنی تشریح کے قائل تھے۔ اسی لیے وہ 1956میں
گوٹھ ماچھی کے اجتماع میں مولانا مودودی کے ساتھ فکری اختلاف کے باعث
مولانا امین احسن اصلاحی کے گروپ میں چلے گئے بعدمیں جب جماعت اپنے متعین
خطوط سے انحراف کر گئی تو انہوں نے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرلی۔ ان کے
کالموں میں سلاست، تنوع، روانی اور فکر انگیزی کے اوصاف بدرجہ اتم پائے
جاتے تھے۔ ان کے کالم اکثر اوقات فلسفیانہ رنگ لیے ہوتے تھے۔عوامی مسائل پر
وہ بھرپورانداز میں نہ صرف رائے زنی کرتے تھے بلکہ ان کے حل کے لیے مناسب
تجاویز بھی دیا کرتے تھے۔ قومی معاملات پران کی رائے ہمیشہ متوازن ہوتی تھی۔
چند سال قبل کچھ مضامین کے بارے میں اپنے ممدوح جناب حنیف ر امے مرحوم کو
تبصرہ کرنے کو کہا تو جوابی خط میں انہوں نے لکھا آپ روزنامہ جنگ کے ادارتی
صفحات پر شائع ہونے والے ارشاد احمد حقانی کے کالم کا مطالعہ ضرور کیا کریں
وہ ہر موضوع پر جچی تلی رائے دیتے ہیں۔ وہ حکمران طبقات کی غلطیوں اور
کوتاہیوں پر نہ صرف سخت الفاظ میں گرفت کرتے تھے بلکہ بالمشافہ ملاقاتوں
میں انہیں مفید مشوروں سے بھی نوازتے تھے۔ حکمرانوں کے غلط اقدامات پر کڑی
تنقید کی وجہ سے کئی دفعہ انہیں سخت ردعمل کا بھی سامنا کرناپڑا۔ انہوں نے
اک دفعہ یہ بات اپنے کالم میں لکھی تھی کہ بے نظیر بھٹو کے بعض غلط اقدامات
کی سخت مخالفت کے باعث ان کے بھیجے ہوئے بندے مسلسل میرا پیچھا کر نے کے
باوجود قاتلانہ حملہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اسی طرح نواز شریف کے دوسرے
دور میں جب جنگ گروپ سے وابستہ صحافیوں نے ان کی غلطیوںپر کڑی تنقید کی تو
میاں صاحبان کی طرف سے” جنگ “ کے مالکان کو جن سترہ صحافیوں کو ملازمت سے
فارغ کرنے کی فہرست موصول ہوئی اس میں ہمارے مہربان دوست سہیل وڑائچ،کامران
خان، ناصر بیگ چغتائی ، صہیب مرغوب،جیو لاہور کے بیورو چیف خاور نعیم ہاشمی
اور دیگر صحافیوں کے علاوہ ارشاد احمد حقانی کا نام ابتدائی نمبروں پرتھا۔
یہ لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ انہوں نے نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر
ہمیشہ کلمہ حق بلند کیا اور ہر دور کے حاکم کے سامنے کھل کر اپنی مخلصانہ
سوچ کا اظہار کیا حالانکہ دوسرے قلمکاروں کی طرح ان کے سامنے مصلحت پسندی
اور مفاد پرستی کا ر ستہ کھلا تھا مگر ان کا قلم نہ کبھی خوف کے باعث
ڈگمگایا اور نہ ہی مالی مفادات حق بات کہنے میں ان کے لیے سد راہ ثابت ہوئے۔
مرحوم ارشاد احمد حقانی ہر موضوع پر اپنی بے باکانہ رائے دینے کی جو شہرت
رکھتے تھے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ کئی دفعہ ان کے بیان کردہ خیالات ملک کے
سنجیدہ اور باشعور حلقو ںمیں زیر بحث آتے رہے۔ ان کی رائے عموما دوسرے
لوگوں کی رائے سے منفرد ہوتی۔ پاکستانی صحافت کو اگر نظریاتی لحاظ سے دو
گروپوں میں تقسیم کیا جائے تو یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ انکاشمار
نسبتا معتدل اور لبرل صحافتی طبقہ فکر کے سرخیل کے طور پر ہوتا تھا جبکہ
دوسرے گروپ کے روح رواں جناب مجید نظامی ہیں۔ افغان جہاد کا ایشو ہو یا
کشمیر جہاد،نظریہ پاکستان کی بحث ہو یا پاکستان کے سیکولر اور مذہبی ریاست
ہونے کی بحث انہوں نے ہمیشہ لبرل نقطہ نظر کی ترجمانی کی۔اسی طرح اسلامی
دنیا کے وا حد انقلاب ایران اور نظریہ ولایت فقیہہ کے حوالے سے ناقدانہ
رائے کا اظہار کرنے سے بھی کبھی گریز نہیں کیا حالانکہ پاکستان میں دائیں
بازو سے تعلق رکھنے والے انگنت افراد انقلاب ایران پر مخصوص مسلکی سوچ کا
عکاس ہونے کا الزام عائد کرتے رہے مگر حقانی صاحب نے انقلاب ا یران کو کلی
طور پر قابل اعتراض نہ گردانا۔ وہ دائیں بازو کی سوچ کو ترک کرکے لبرل ازم
کو جاتے ہوئے نہ تو اتنا آگے چلے گئے کہ الحاد کی وادیوں کی طرف نکل جاتے
اور نہ ہی دائیں بازو سے وابستگی کے دور میں مذہبی شدت پسندی کی حدود میں
داخل ہوئے انہوں نے ہمیشہ درمیانی راہ کا انتخاب کیا۔ میرے لیے یہ بات فخر
کا باعث ہے کہ دیگر کئی لکھاریوں کی طرح میں نے بھی کالم لکھنے کا طریقہ
براہ ر است حقانی صاحب کے کالموں سے ہی سیکھا۔ گیارہ سالہ قلمی سفر میں ان
کے کالموں سے جو راہنمائی ملی وہ تادیران کی حکیمانہ باتوں کارس کانوں میں
گھولتی رہے گی۔ |