پیر محمدامیرسلطان قادری چشتی
قادری کی تالیف گلستان ِاولیاء حصہ دوم سے
آپ کا نام محمد اور جلال الدین آپ کا لقب ہے آپ کا مشہور ہونا لقب مولانائے
روم سے بھی ہے۔ آپ کا نسب حضرت خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے۔
مولانا کے شجرہ میں مولانا کے والد اور دادا کا نام بھی محمد ہے۔ مولانا کے
والد کا لقب بہاء الدین تھا۔ وہ ملک بلخ کے رہنے والے تھے متبحر عالم، صاحب
کرامات بزرگ تھے اور پورے خراساں میں آپ مرجع خلائق تھے۔ اور لوگ آپ سے دعا
کرواتے۔ سلطنت محمد خوارزم شاہ کا وقت تھا محمد خوارزم شاہ آپ کے حلقہ
بگوشوں میں سے تھا۔
یہ زمانہ امام فخر الدین رازی کا ہے اور وہ جید درباری علماء میں سے تھے۔
بادشاہ وقت کا آپ کے قریب ہوتا دیکھ کر امام رازی کو کچھ ناگوار گزرا۔ جب
حضرت بہاء الدین کو یہ محسوس ہوا تو ٦١٠ھ میں انہوں نے ہجرت کی اور نیشا
پور میں تشریف لے گئے یہاں حضرت خواجہ فرید الدین عطار اور کچھ اور بزرگ
ملاقات کو تشریف لائے اس وقت مولانا کی عمر ٦ برس تھی۔
خواجہ صاحب نے مولانا کو دیکھ کر کہا کہ یہ جوہر نادر ہے اس کی تریب میں
کمی نہ رکھیئے گا اور اپنی مثنوی مولانا کو پڑھنے کو دی۔ پھر آپ کے والد
بغداد پہنچ گئے اور کچھ دیر قیام کے بعد شام اور پھر زنجان اور پھر لارندہ
تشریف لے گئے مولانا کی عمر اس وقت ١٨ برس تھی اور وہاں آپ کی شادی کر دی
گئے اور آپ کے پہلے بیٹے سلطان پیدا ہوئے۔ بغداد میں مولانا کی شہرت علاؤ
الدین قیدباد رومی تک پہنچی تو انہوں نے مولانا کو قونیہ آنے کی دعوت دی۔
مولانا قونیہ تشریف لے گئے اور باقی زندگی قونیہ میں گزار دی۔
مولانا نے سلوک کے ابتدائی مراحل اپنے والد سے طے کئے۔ پھر حضرت سید برہان
الدین محقق جو مولانا کے والد کے مرید تھے ان کو مولانا کا اتالیق مقرر کر
دیا مولانا نے بیشتر علوم حضرت سید صاحب سے حاصل کئے۔ والد کے انتقال کے
بعد مولانا نے شام کا سفر کیا پھر حلب تشریف لے گئے۔ اپنے والد کے انتقال
کے بعد مولانا نے اپنا روحانی تعلقسید برہان الدین سے وابستہ کر لیا۔ اس
دور میں مولانا پر علوم ظاہری وعظ کا غلبہ تھا۔ نظارہ مشاہدہ پر غالب تھا۔
زبان دل پر حاوی تھی۔
اس کے بعد مولانا کی زندگی کا نیا دور شروع ہو گیا۔ جب فتوی نویسی ، تبحر
علمی جوبن پر تھا اس وقت شاہ شمس ببریز سے ملاقات ہوئی۔ جواہر مدیہ کے
مطابق مولانا اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے۔ اچانک شمس تبریزی واردی
ہوئے۔ آپ قلندرانہ حال میں تھے اور مولانا سے پوچھا کتابوں کی طرف اشارہ کر
کے یہ کیا ہے مولانا نے فرمایا جناب یہ وہ چیز ہے جس سے آپ واقف نہیں۔
مولانا کا یہ فرمانا تھا کہ اچانک کتابوں میں آگ لگ گئی۔ مولانا نے شاہ شمس
کو دیکھ کر کہا یہ کیا ہے تو حضرت شمس نے جواب دیا یہ وہ ہے جس سے تو واقف
نہیں۔ یہ کہہ کر آپ محفل سے روانہ ہو گئے۔ مولانا سب کچھ چھوڑ کر شاہ شمس
کی راہ میں سرگرداں ہو گئے مگر وہ کہیں نہ ملے۔ کہتے ہیں مولانا کی اس حالت
کو دیکھ کر کسی نہ شاہ شمس کو قتل کر دیا۔ بعض روایات میں ہے شمس الدین کے
ولی نعمت حضرت پیر کمال الدین جندی نے کہا تھا کہ روم میں دل سوختہ
بیٹھاہے۔ اس کو جلا آؤ اس کے دل میں نور خدا روشن کر آؤ اس حکم کے بات آپ
قونیہ تشریف لے گئے اور شکر فروشو کے پاس سرائے میں مقیم ہوئے۔
شاہ شمس نے ایک دن مولانا کے راستے میں روک کر بتایا کہ مجاہدہ اور ریاضت
کیا ہے مولانا نے جواب دیا اس کا مقصد اتباع شریعت ہے۔ حضرت شمس نے فرمایا
یہ سب جانتے ہیں مگر میں پوچھتا ہوں وہ کیا چیز ہے جو انسان کو منزل تک
پہنچا دیتی ہے اس کے بعد حکیم صاحب کا ایک شعر پڑھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ
مولانا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اور اسی وقت بیعت کر لی۔
ابن بطوطہ نے ایک اور روایت لکھی ہے۔ مولانا کی بارگاہ میں حلوہ فروش آیا
تو مولانا نے اس سے ایک کاش حلوے کی کھائی تو مولانا کے حال بدل گئے سب کچھ
چھوڑ چھاڑ گئے عرصے بعد واپس آئے۔ خاموش اور وجد میں آکر بولتے تو مثنوی
کہتے۔ آپکا خادم سپہ سالا لکھتا جاتا۔ یہ تقریبا اسی برس مولانا کے ساتھ
رہا۔
مولانا کے ولی نعمت شمس الدین حضرت علاؤ الدین کے صاحبزادے تھے۔ وہ بزرگ
خاندان میں سے تھے۔ ان کے خاندان کے لوگ اسماعیلہ فرقہ سے تھے مگر شمس
الدین نے اسے ترک کر دیا آپ نے ساری زندگی تجارت کی آپ ایذار بند بناتھے
تھے۔ کہتے ہیں ایک دن انہوں نے دعا کی کہ خدایا ایسا شخص عطا کرو جو میری
صحبت کا متحمل ہو تو اشارہ مولانا رومی کی طرف ہوا۔
جب حضرت شمس الدین تبریزی کی ملاقات مولانا رومی سے ہوئی تو انہوں نے سوال
پوچھا۔
حضرت بایزید بسطامی نے ساری زندگی خربوزہ نہیں کھایا کیونکہ ان کو یہ روایت
نہ مل سکی کہ حضورۖ نے خربوزہ کیسے کھایا۔ دوسری طرف سبحانی ما اعظم شانی
حالانکہ سید عالم ۖ دن میں ستر دفعہ استغفار کرنا جبکہ آپۖ کا مرتبہ کتنا
بلند ہے۔ ان دونوں کی کیا مطابقت ہو گی۔
مولانا رومی نے جواب دیا کہ بایزید بسطامی ایک منزل پر رک گئے۔ جبکہ
حضورۖہر لمحہ منزل طے کرتے جاتے اور ہر منزل طے کرنے کے بعد استغفار کرتے ۔
یہ سن کر حضرت شمس الدین سمجھ گئے کہ مولانا ہی میری صحبت کے قابل اور
مولانا سمجھ گئے کہ یہ ہی اصل میں میرے ولی نعمت ہیں۔ اس کے بعد مولانا اور
شمس الدین صلاح الدین زرکوب کے ہجرے میں ٤٠ دن تک چلہ کش رہے۔ اس عرصے میں
نہ کچھ کھایا نہ پیا۔ اس کے بعد مولانا کے حالات بدل گئے۔ قوالی کے دلدادہ
ہو گئے۔
مسند تدریس فتوی نویسی و مولویت چھوڑ دی۔ اور ایک لمحے کیلئے شیخ سے الگ
نہیں ہوتے۔ شہر مخالف ہوا تو شیخ شمس شہر چھوڑ کر دمشق روانہ ہو گئے۔ ان کی
روانگی کے بعد مولانا بہت غمگین رہتے اور بے چین رہتے ہر وقت روتے رہتے۔
مولانا کی حالت دیکھ کر اہل قونیہ نے ایک طائفہ ان کے بیٹے سلطان کی قیادت
میں شیخ شمس الدین کی واپسی کے لئے دمشق روانہ ہوا۔ اور ان کو مولانا کو
غمگین بھرا خط دیا۔ جسے پڑھ کر شیخ شمس واپس قونیہ تشریف لے گئے اور پھر دو
سال تک قونیہ رہے اور اس کے بعد پتہ نہیں چل سکا کہ اس کے بعد شیخ شمس کہاں
تشریف لے گئے۔ |