سال 2011ءآخری ہچکیاں لے رہا تھا۔
دسمبر کی 30 تاریخ تھی۔ دن جمعہ المبارک کا تھا اور شام حسب معمول سرد تھی۔
اس دوران ایک مخلص کی جانب سے پیغام موصول ہوا۔ پہلے پہل تو اپنی آنکھوں پر
یقین نہ آیا۔ پھر غور کیا تو عبارت کچھ یوں تھی "بھائی! ڈاکٹر ساجد الرحمن
صدیقی صاحب حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں"۔ یہ مختصر
پیغام کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ تحقیق کرنے پر خبر کی تصدیق ہو گئی۔ پھر کیا
ہونا تھا۔ بس دل بیٹھ سا گیا اور اداسی نے سراپے کو گھیر لیا۔ میں یہ سوچنے
لگا کہ انسان بھی کیا چیز ہے، کسی لمحے تو وہ سینکڑوں حوالوں کے ساتھ سطح
ارض پر محوِکار ہوتا ہے تو اچانک اگلے لمحے منوں مٹی تلے اپنے تمام حوالوں
سمیت دفن ہو جاتا ہے۔ آہ! یہ زندگی کا دھاگہ بھی کتنا کچا ہے۔۔۔۔ شاعر نے
نہ جانے تخیل کی کونسی انتہاپر جا کر کہا تھا:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان ہے سو برس کا، پل بھر کی خبر نہیں
علم، ادب، تصنیف و تالیف، دعوت و تبلیغ، تحقیق و جستجو، غرض ڈاکٹر ساجد
الرحمن صدیقی ؒ کی شخصیت کے درجنوں حوالے ہیں۔ ہر حوالہ معتبر بھی ہے اور
غور و فکر کا مستقل باب بھی ہے۔ معاف کیجئے گا! ہم لوگ بدقسمتی سے "مردہ
پرست" واقع ہوئے ہیں۔ جب تک کوئی ماہر علم و فن ہمارے درمیان موجود ہوتا ہے
تو اس سے استفادہ تو درکنار بعض اوقات اسے تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں
ہوتے۔ ہمارا یہ طرز عمل علم و آگہی کے در و بام کی بندش کا باعث بنتا ہے
اور جب کوئی اہل علم اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے تو پھر ہم اس کی قدر
پہچاننے لگتے ہیں۔ یہ ہمارا بعض برصغیر کے لوگوں کا المیہ ہے۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی ہندوستان کے مردم خیز شہر کاندھلہ میں 5 دسمبر
1934 ءمیں پیدا ہوئے۔ آپ کاندھلہ کے مشہور دینی و علمی خانوادے کے چشم و
چراغ اور محدث کبیر مولانا اشفاق الرحمن کاندھلویؒ کے فرزندِ ارجمند اور
مولانا ادریس کاندھلویؒ کے بھانجے ہیں۔ گویا ددھیال اور ننھیال ہر دوجانب
علم و عمل کے سوتے بہتے تھے۔ ظاہر ہے ان علوم و فیوض کے چشموں سے ہر دم
سیراب ہونے والا شخص غیر معمولی تو ہو گا ہی۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی کی ساری زندگی جہد مسلسل اور سعی پیہم سے عبارت
ہے۔ ابتدائی اساتذہ میں مرحوم کے والد محترم،مولانا اشفاق الرحمن
کاندھلویؒ، مولانا عبدالمالک کاندھلویؒ اور مبلغ اسلام مولانا جمشید علی
نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے اپنی عمر کے 17ویں سال 1960ءمیں
دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈو الہٰیار سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ حدیث میں مولانا
ظفر احمد عثمانیؒاور مولانا یوسف بنوریؒ جیسے اساطین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔
1961ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے امتیازی درجے کے ساتھ فاضل عربی کے امتحان میں
کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد 1967ءمیں سندھ یونیورسٹی جام شورو سے ایم اے
عربی کیا اور گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے۔ 1970ءمیں کراچی یونیورسٹی سے
اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1987ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے
علم حدیث میں ڈاکٹریٹ کیا اور علوم حدیث کو اپنے اختصاصی موضوع کے طور پر
چنا۔ علوم حدیث میں مرحوم کی گہری بصیرت اور حیران کن دسترس کے پیچھے
درحقیقت محدث العصر مولانا مولانا محمد یوسف بنویؒ کا ہاتھ تھا۔ ڈاکٹر ساجد
الرحمن صدیقی نے درس نظامی کے بعد مولانا بنوری کی خصوصی شاگردی میں تخصص
فی الحدیث کیا۔
ویسے تو مولانا ساجدالرحمن صدیقی نے درس نظامی کی تکمیل کے بعد ہی سے عملی
زندگی میں قدم رکھ دیا تھا مگر باقاعدہ طور پر کام کا آغاز لاہور کی دیال
سنگھ لائبریری سے کیا۔ چنانچہ آپ نے وہاں بہت سے علمی و تحقیقی کتابیں،
مقالہ جات اور مضامین لکھے۔ آپ فراغت کے بعد سے 1971ءتک اسلامک ریسرچ
اکیڈمی کراچی میں اسکالر برائے تحقیقی امور کی حیثیت سے خدمات سر انجام
دیتے رہے۔ 1977ءسے 1981ءکے دورانیے میں گورنمنٹ کالج فتح جنگ (پنجاب) میں
عربی لیکچرار کی حیثیت سے فرائض ادا کیے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کی علمی
پختگی، وسعت مطالعہ اور انتہائی متین اسلوب بیان کے پیش نظر، انہیں فیڈرل
شریعت کورٹ میں ریسرچ ایڈوائزر (مشیر برائے تحقیقی امور) مقرر کیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب نے شریعت کورٹ میں 1982ءسے 1993ءتک انتہائی محنت اور تن دہی سے
خدمات سر انجام دیں۔ اس دوران آپ نے بہت سے اسلامی قوانین کے مسودات، متون
اور آئین کی شقوں کی تیاری میں حصہ لیا۔ اس اہم نوعیت کے کام کی حساسیت اور
نزاکت کو پوری طرح ملحوظ رکھ کر انتہائی ذمہ داری اور احتیاط سے کام کیا۔
1993ءمیں برونائی دارالسلام کی اسلامی یونیورسٹی کی درخواست پر برونائی
کیلئے عازمِ سفر ہوئے۔ وہاں سینئر آفیسر برائے مذہبی تعلیمی امور کی حیثیت
سے 1999ءتک منسلک رہے۔ 1999ءسے 2006ءتک برونائی اسلامی یونیورسٹی کے سینئر
لیکچرار برائے اصول دین ڈیپارٹمنٹ اور شعبہ علوم اسلامی کے نگران بھی رہے۔
2005ءمیں برونائی سے وطن واپس تشریف لائے اور پاکستان کی مشہور دینی درس
گاہ جامعہ دار العلوم کراچی میں شعبہ تخصص فی الدعوة و الارشاد (Faculty of
Da'awah wal Irshad) سے منسلک ہوئے اور تادمِ آخر مسول (Dean)کے عہدے پر
فائز رہے۔ آپ نے اس شعبہ کیلئے انتہائی محنت اور عرق ریزی سے دو سال پر
مشتمل تعلیمی نصاب ترتیب دیا۔ اس نصاب کی تیاری میں ان تمام باتوں اور
پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا جو دو سال کے دورانیے میں طالب علم کو مطلوبہ
صلاحیت کا حامل بنا سکیں۔جامعہ دار العلوم کراچی کے شعبہ تخصص فی الدعوة و
الارشاد کی ابتداءاور کامیابی کے بعد ملک کی دیگر مشہور درسگاہوں نے بھی
اپنے ہاں اس شعبہ کی بنیاد رکھی اور مرحوم کے ترتیب کردہ نصاب سے استفادہ
کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی ہمیشہ کے محنتی، وقت کے پابند اور نظم و ضبط کی
ایک منفرد مثال تھے۔ آپ نے دو درجن سے زائد تحقیقی کتابیں لکھیں۔ یہ تصانیف
عربی، انگریزی اور اردو میں ہیں۔ اس سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی علمی ہمہ جہتی
کا پتہ چلتا ہے۔ بیس سے زائد عربی مراجع کا انتہائی سلیس اور عام فہم اسلوب
میں ترجمہ کیا۔ ان مراجع میں شاہ ولی اللہؒ کی مایہ ناز تصنیف "عقد الجید
فی احکام الاجتہاد و التقلید" کا ترجمہ سر فہرست ہے۔ اس کتاب کے شروع میں
مولانا بنوریؒ کے کلماتِ ستائش بھی رقم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مصر کے سید قطب
شہید کی 6 مایہ ناز عربی تصانیف کا سلیس اور رواں اردو میں ترجمہ کیا۔ اس
کے علاوہ علامہ جلال الدین سیوطی، عبد القادر عودة اور ابن رشد جیسے بلند
پایہ اہل علم کی بعض کتابوں کا ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے کیا۔ راقم السطور
بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم سے پہلا تعارف (جو غائبانہ تھا) سید قطب کی اسلام اور
مغربیت کے عنوان پر لکھی گئی کتاب کے اردو ترجمے سے ہوا۔ یہ کتاب ریگل چوک
صدر کراچی میں پرانی کتابوں کے بازار سے میرے ہاتھ لگی تھی۔ اس کے علاوہ
"کتابة الحدیث باقلام الصحابہؓ"، "نشاة علوم الحدیث و تطورھا"، "مناھج و
اسالیب دعوة الرسول ﷺ" اور اسلام کا نظام پولیس و احتساب، فقہ اسلامی کا
تاسیسی پس منظر (Studies in Islamic Jurisprudence)۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے معجز
رقم قلم سے نکلی ہوئی تصانیف میں سے چند کے نام ہیں۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی ان تمام مناصب اور کارناموں کے باوجود بھی سراپا
عجز و انکسار تھے۔ ان کی چال میں ایک قدرتی وقار اور فطری رعب تھا۔ اندازِ
گفتار اس قدر شیریں کہ جی چاہتا انہیں گھنٹوں سنتے چلے جائیں۔ اور جب کسی
خاص موضوع پر لیکچر دینے جاتے تو تفویض کردہ موضوع کے باریک سے باریک گوشوں
کا اس تکنیک اور مہارت سے احاطہ کرتے کہ ارباب علم و دانش حیرت زدہ رہ
جاتے۔ کسی بھی موقف یا اصول کی تردید و تائید میں صرف اصولی بات کر کہ کبھی
نہ گزرتے تھے بلکہ سامنے والوں کی تفہیم کی خاطر حسی مثالوں اور مستند
حوالوں کے انبار لگا دیتے۔ چنانچہ آپ کی اس صلاحیت کا اعتراف پاکستان کے
پیش تر قابل ذکر فورموں پر کیا گیا۔ آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی
اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی دعوت پر کئی ایک موضوعات پر لیکچرز دئے۔
اس کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے اداروں میں بھی اسلامی معیشت اور اس سے
متعلق دیگر موضوعات پر ہونے والے مباحثوں اور پروگراموں میں وقتاً فوقتاً
شرکت کرتے تھے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ دعوة اکیڈمی کی ایک
برانچ کراچی میں ہے، جو "ریجنل دعوة سنٹر (سندھ) کراچی" کے نام سے موسوم
ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید عزیزالرحمن ہیں۔ سیرت نگاری کے میدان میں
قدآور شخصیت تسلیم کیے جاتے ہیں۔ سیرت کے موضوع پر کئی ایک مقالات لکھ چکے
ہیں، جن میں سے بیش تر انعام کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ ماہنامہ "تعمیر افکار"
اور ششماہی "السیرة" کے مدیر ہیں۔ وہ عرصہ دراز سے دعوت دین اور بیداری
شعور کے حوالے سے انتہائی گراں قدر کام کر رہے تھے۔ دعوة سینٹر میں سال بھر
طلبائ، فضلاءمدارس، ٹیچرز، صحافی، غرض زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ
لوگوں کے لئے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد ہوتا ہے۔ ان ورکشاپس میں اکثر ڈاکٹر
ساجد الرحمن صدیقیؒ کے لیکچرز ہوتے رہے ہیں، جن کو سامعین نے بہت مفید
پایا۔ دوران لیکچر ڈاکٹر صاحب کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی اہم نکتہ واضح
کرنا ہوتا، تو سامنے ڈائز رکھا ہوا چشمہ آنکھوں پر لگا لیتے اور آواز قدرے
بلند ہو جاتی اور انتہائی پرجوش طریقے سے علمی بحث کرتے۔ پچھلے دنوں
ہندوستان کے مشہور اسکالر ڈاکٹر سید سلمان ندوی پاکستان تشریف لائے تھے۔ یہ
مشہور عالم دین و سیرت نگار، ممتاز ادیب اور دانش ور علامہ سید سلیمان
ندویؒ کے صاحب زادے ہیں۔ڈاکٹر سلمان ندوی، ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی کے ہم
درس بھی ہیں اور مولانا کی زندگی کے آخری لیکچرز بھی انہی کی معیت میں
مختلف جگہوں پر ہوئے۔ ان میں سے ایک لیکچر دعوة سنٹر کراچی میں بھی ہوا۔ اس
کے علاوہ "مجلس صوت الاسلام "کلفٹن کراچی کے زیر اہتمام "تربیت علماءکورس"
کے شرکاءبھی ڈاکٹر صاحب کے عالمانہ اور محققانہ لیکچرز سے مستفید ہوتے تھے۔
یہاں آپ ہفتے میں دو دن شام کے اوقات میں "دعوت دین اور تقابل ادیان" سے
متعلق اسباق پڑھاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب عمر کے 79 ویں سال بھی تحقیق کے اسی ذوق کے حامل تھے جو جوانی
میں تھا۔ ان دنوں پروفیسر حسن عسکری کی معروف کتاب "جدیدیت" کی آسان شرح
تحریر کر رہے تھے۔ یہ کتاب اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔ اس کے
علاوہ مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ کے مشہور فتاوی "آپ کے مسائل اور ان کا
حل" کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کر رہے تھے۔ موطا امام مالک حدیث کی
مشہور اور بلند پایہ کتاب ہے۔ اس کی شرح پر ڈاکٹر صاحب کا کام جاری تھا۔ اس
تفصیل سے عمر رسیدہ ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی ذوق کی جوانی کا بخوبی اندازہ کیا
جا سکتا ہے۔ان کی ایک کاوش "اسلامی قانون میں تحدید مدت اور قبضہ کے
تصورات"کے پیش لفظ میں ڈاکٹر محمود احمد غازی رقمطراز ہیں:"کتاب کے مولف
جناب ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ کئی بلند پایہ
کتابوں کے مولف اور معاصر عربی کتب کے مترجم ہیں۔ملک کے قانونی حلقے استاذ
عبدالقادر عودةشہید کی مشہورِ زمانہ کتاب "التشریع الجنائی الاسلامی" کے
فاضلانہ اور رواں ارو ترجمے (اسلام کا فوجداری قانون ۳ حصے) سے بخوبی واقف
ہیں، جو ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی کے قلم سے نکلا ہے"۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی عربی تصنیف پر الدکتور عارف کرخی الوخضیری (چیئر
مین شعبہ عربی برونائی دار السلام) اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق
چیئرمین ڈاکٹر تنزیل الرحمن کے کلمات ستائش بھی مرقوم ہیں۔ اس کے علاوہ ان
کے ایک عربی رسالہ کے شروع میں مفتی محمد تقی عثمانی کے تعریفی کلمات بھی
درج ہیں۔
ان کی رہائش گاہ نارتھ کراچی میں تھی۔ تدریس کیلئے باقاعدگی سے دار العلوم
کورنگی اور کلفٹن جانا یقینا مشقت سے خالی نہ تھا۔ لیکن 79 سال کا یہ دھان
پان سا غیر معمولی شخص کشادہ پیشانی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتا رہا۔
دار العلوم کراچی کے شعبہ تخصص فی الدعوة و الارشاد کے علاوہ درس نظامی کے
انتہائی درجہ دورہ حدیث میں اصول حدیث کا سبق بھی ان کے ذمے تھا۔ ہفتے میں
تین لیکچرز ہوا کرتے تھے۔ انتظامی وجوہات کی بناءپر لیکچر کا دورانیہ کم
ہوتا تھا لیکن اس کم وقت میں بھی انتہائی جامع گفتگو کرتے تھے۔ حدیث اور
اصول حدیث چونکہ ان کا اختصاصی موضوع تھا اور احادیث و سیرت کے مراجع پر ان
کی نظر انتہائی عمیق تھی۔ اس لئے ان کی ہر بات دسیوں دلائل اور حوالوں کے
ساتھ مزین ہوتی تھی۔ ان کی گفتگو سے ان کے وسیع المطالعہ ہونے کا پتہ چلتا
تھا۔ آپ مطالعے کے بہت رسیا تھے۔ "المعجم المفہرس" ایک جرمن مصنف کی مشہور
کتاب ہے، ڈاکٹر صاحب نے صرف اس کتاب کے مطالعے کی خاطر جرمن لینگویج کورس
کیا۔ یہ ان کے ذوق مطالعہ کی واضح دلیل ہے۔ دورو حدیث کی درس گاہ میں آخری
لیکچر کے بعد انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ طویل دعا فرمائی اور پھر
دورہ حدیث کے طلباءکو "شعبہ تخصص فی الدعوة و الارشاد" کے قیام کے مقاصد،
کارکردگی کے حوالے سے آگاہی فراہم کر کے فراغت کے بعد اس جانب متوجہ ہونے
کی ترغیب دی، اور نشست سے اٹھتے ہوئے کہا "بشرطِ زندگی تخصص فی الدعوة کے
حوالے سے بات کرنے کیلئے میں آپ حضرات کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوں گا"۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی اپنے ہر درس اور لیکچر کے بعد ایک جملہ کہتے تھے
"و باللہ التوفیق و الھدایة"۔ ان کا یہ انداز طلباءبہت پسند کرتے تھے۔
عرصہ دراز سے عارضہ قلب میں مبتلا رہنے والا یہ عظیم شخص آخر دم تک تشنگان
علم و آگہی کو اپنے علم کے چشمہ صافی سے سیراب کرتا رہا۔ حالات اور صحت کی
عدم موافقت کبھی ان کے مقاصد و غرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔
آپ اپنے طلباءکو بہت بلند مقام پر دیکھنے کے خواہاں رہتے تھے۔ انہیں علمی و
فکری گمراہیوں کے اس دور میں دین کی دعوت کا علم بردار دیکھنا چاہتے تھے۔
چنانچہ ان کے لیکچرز اور گفتگوں میں دور دور تک کہیں بھی مایوسی و بے بسی
کا ادنی سا پہلو بھی نہ جھلکتا دکھائی دیتا تھا۔ وہ امیدوں کے مشعل بردار
تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا سانحہ ارتحال ان کے اعزاءو اقارب کے ساتھ ساتھ اہل علم
اور میدان تحقیق کے شہسواروں کے لئے بھی ایک عظیم حادثے سے کم نہیں۔ ایسی
شخصیات برسوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔ بہر کیف! ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی اس
عارضی دنیا کے جھمیلوں سے گلو خلاصی کر کے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ مگر
پیچھے والوں کیلئے گراں قدر علمی و تحقیقی سرمایہ چھوڑ کر گئے۔ اب یہ ہماری
ذمہ داری ہے کہ مرحوم کے مقصد و مشن کو نہ صرف یہ کہ اپنائیں بلکہ اسے آگے
بڑھانے
میں اپنا کردار ادا کریں۔
اختتام انہی کے مخصوص انداز میں "و باللہ التوفیق و الھدایة"۔ |