شیخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت
میں تحریر کرتے ہیں کہ ملک عرب کا ایک بادشاہ اپنے دربار میں آیا اور اُس
نے اپنے ایک خدمت گار کے متعلق حکم دیا کہ یہ جتنی تنخواہ لیتا ہے آج سے اس
سے دوگنی تنخواہ دی جائے۔ کیونکہ ہم نے محسوس کیا ہے کہ یہ دلی شوق اور
پوری محنت سے ہماری خدمت کرتا ہے۔جبکہ اس کے ساتھیوں کا یہ حال ہے کہ وہ
کام سے جی چراتے ہیں اور سارا وقت کھیل کود میں برباد کر دیتے ہیں۔ جس وقت
بادشاہ نے یہ حکم دیا وہاں دربار میں ایک ایسا دانا شخص بھی موجود تھاجو ہر
بات کی اصلیت اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اُس نے بادشاہ کی زبان سے یہ بات سُنی
تو اُس پر بے خودی طاری ہو گئی اور اُس نے ایک نعرہ بلند کیا۔ لوگوں نے
پوچھا اے شخص تجھے کیا ہوا جو یوں بے خود ہو گیا۔ اُس شخص نے جواب دیا میری
یہ حالت یہ سوچ کر ہوئی کہ اللہ رب العزت بھی اپنے بندوں کے درجات اسی طرح
مقرر کرتا ہے جس طرح ہمارے بادشاہ نے اپنے خدمتگاروں کے درجات مقر ر کئے
ہیں۔ جو اپنے کام میں مستند تھا اُسے ترقی تھا۔ جو غافل اور قاہل تھے
اُنہیں نظر انداز کر دیا بس یوں ہی جو خدا کے عبادت گزار ہیں وہ انعام
پائیں گے اور جو غافل ہیں محروم رہیں گے۔ اس حکایت میں شیخ سعدی ؒ نے خدمت
خلق کی اہمیت واضح کر کے اطاعتِ خدا کی اہمیت واضح کی ہے اور مدلل انداز
میں بتایا ہے کہ جو لوگ دنیاوی زندگی میں اللہ کو راضی کرنے کے لیے مشقت
اُٹھائیں گے بادشاہ کے فرض شناس نوکر کی طرح انعام و ا کرام سے نوازیں
جائیں گے۔
قارئین! اک عجیب دور سے ہم گزر رہے ہیں۔ ملکی حالات اور ارد گرد پیش آنے
والے واقعات ایسی ایسی سنگینیاں رکھتے ہیں کہ اگر درست ادراک کے ساتھ ہم
گہرائی تک جانے کی کوشش کریں تو جسم کا انگ انگ خوف کے مارے تڑپنا شروع کر
دیتا ہے۔اذیتوں کے اس موسم میں بہار کا کوئی بھی لمحہ اگر آتاہے تو ارد گرد
موجود غموں کے سمندر میں غرق ہو کر اپنی تازگی کھو دیتا ہے۔ملک میں گزشتہ
دس سالوں کے دوران ایسی ایسی تبدیلیاں آئی ہیں کہ جن کی وجہ سے سوچوں کے
زاویے اور زندگیوں کے انداز بدل کر رہ گئے ہیں۔ ہم ایک ”اُلٹ پھیر“کے ماحول
میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک لطیفہ جو ایس ایم ایس کے ذریعے آج کل کافی
زیادہ گردش میں ہے کہ 1980ءکی دہائی میں بیٹی نے ما ں سے پوچھا اماں میں
جینز پہن لوں تو ماں نے جواب دیا ”ناں بیٹا ناں“لوگ کیا کہیں گے۔ اور
آج2012 میں بیٹی ماں سے پوچھتی ہے کہ ماں کیا میں جینز پہن لوں تو ماں صدقے
واری جاتی ہے اور جواب دیتی ہے”پہن بیٹی کچھ تو پہن لوگ کیا کہیں گے“ہماری
اس تحریر پر چاہے نکتہ چیں لوگ اخلاقیات کے کلمے پڑھتے ہوئے ہم پر لاکھوں
تنقیدیں کریں لیکن سچ آخر سچ ہے۔جنرل ضیاءالحق کے دور میں پاکستان ٹیلی وژن
پر ایک خاتون اناﺅنسر اور نیوز کاسٹر کا صرف دوپٹا سر سے سرک گیا تھا تو
پورا پاکستان سراپا احتجاج بن گیا تھا اور قیامت کی آمد ہونے کا اعلان تک
ہو گیا تھا۔ آج ایک سو سے زائد ٹیلی ویژن چینلز بشمول پی ٹی وی اور دیگر
پاکستانی نیٹ ورکس چوبیس گھنٹے مادر پدر آزاد اور اخلاق باختہ قسم کے
اشتہارات ، ڈرامے، گانے اور فلمیں چلا رہے ہیں اور پوری قوم کے کانوں پر
جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ اسی سے اندازہ لگا لیجئے کہ ہم کن اخلاقی پستیوں کی
طرف محوِ سفر ہیں۔
قارئین! اخلاقی حوالے سے یہ تمہید باندھنے کا مقصد آج کے انتہائی حساس
موضوع کی طرف آپ کی توجہ ایک لطیف انداز سے مبذول کروانا ہے۔ جب ہمارے
ہمسایہ ملک چین میں انقلاب آیا اور عوامی قیادت نے حکومت سنبھالی تو پالیسی
میکرز نے جائزہ لیا کہ ترقی کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات اُٹھانا ضروری ہیں
تو سب سے اہم نکتہ جو اُن کی پالیسی کا حصہ بنا وہ یہ تھا کہ پوری دنیا میں
آباد ڈاکٹرز ، انجینئرز اور سائنٹسٹس جو پروفیشنل کیٹیگری میں آتے ہیں
اُنہیں چین واپس بلوایا جائے تا کہ وہ اپنے دستِ ہُنر سے تباہ حال ملک
تعمیر کریں۔چنانچہ چینی قیادت نے پوری دنیا میں آباد ان چینی پروفیشنلز سے
اپیل کی کہ وہ وطن واپس آئیں۔ ان چینی پروفیشنلز کو انقلاب کے بعد آنے والی
قیادت کی نیت پر اس حد تک اعتماد تھا کہ 90فیصد سے زائد تارکینِ وطن چینی
پروفیشنلز دنیا جہان کی مراعات کو ٹھکرا کر چین واپس آگئے اور دو عشروں کے
اندر چین کی حالت بدل کر رکھ دی اور آج چین دنیا کا تیز ترین ترقی کرنے
والا ملک بن چکا ہے۔ دوسری جانب آئیے آج ہم پاکستان اور آزاد کشمیر پر ہلکی
سی نظر دوڑاتے ہیں۔آج آزادکشمیر میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ہڑتال کر چکی
ہے۔ پاکستان اور آزادکشمیر کے پندرہ ہزار سے زائد ڈاکٹرز گزشتہ سال ملک
چھوڑ کر عرب ممالک جا چکے ہیں۔ پاکستان کے پروفیشنلز ،ڈاکٹرز، انجینئرز،
ماہرینِ زراعت کی ایک بہت بڑی تعداد ہر سال ملک چھوڑ کر پوری دنیا کا رُخ
اختیار کر رہی ہے اور ہماری سیاسی حکومتیں صرف اور صرف نعروں اور تقریروں
سے کام لے رہی ہیں۔آزادکشمیر میں حالات اس حد تک نازک ہو چکے ہیں کہ اگر
جلد از جلد ینگ ڈاکٹرز ایسوی ایشن کے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو پورے
آزادکشمیر میں انسانی جانوں کا بڑے پیمانے پر ضیاع ہو سکتاہے۔ینگ ڈاکٹر
ایسوسی ایشن آزادکشمیر صرف یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ اُن کی تنخواہیں اور
مراعات پنجاب کے ڈاکٹرز کے مساوی کی جائیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہماری حکومتیں
اُس وقت تک کا انتظار کیوں کرتی ہیں کہ جب جائز مطالبات تسلیم نہ کیئے جانے
کی وجہ سے ہڑتالیں کی جاتی ہیں اور اُن ہڑتالوں کی وجہ سے انسانی جانیں
ضائع ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ پنجاب میں بھی ببر شیر مارکہ شہباز شریف حکومت
نے یہی بیوقوفی کی تھی اور نوجوان ڈاکٹروں کو اس حد تک مجبور کیا تھا کہ
اُنہوں نے پورے پنجاب کا نظامِ صحت مفلوج کر دیا تھا اور ایک سو سے زائد
مریض علاج معالجہ کی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے تھے۔ آج
آزادکشمیرمیں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا کی جارہی ہے۔ وزیر اعظم
آزادکشمیر چوہدری عبد المجید صحت اور تعلیم کے ساتھ اپنی دلچسپی کے حوالے
سے اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ وہ ینگ ڈاکٹرز ایسوی ایشن کی
آواز سنیں گے اور اُن کے مطالبے تسلیم کریں گے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا
دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ اُنہیں ”ہیلتھ پروفیشنل الاﺅنس“دیا جائے۔ یہ مطالبہ
بھی جائز اور تسلیم شدہ ہے۔خدا جانے کیوں اس پر عمل نہیں کیا جارہا۔ بقول
غالب
کہوں جو حال تو کہتے ہو مدعا کہیئے
تمہیں کہو کہ جو تم یُوں کہو تو کیا کہیے
کبھی شکایتِ رنجِ گراں نشیں کیجئے
کہیں حکایتِ صبرِ گریز پا کہیے
رہے نہ جان تو قاتل کو خوں بہا دیجیے
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے
قارئین! ہمیں اُمید ہے کہ آزادکشمیر حکومت نوجوان ڈاکٹروں کے مسائل حل کرے
گی اور ایسی روشن مثال قائم کرے گی کہ جس سے برین ڈرین کا راستہ رُکے
گا۔ہمارے ”ازلی دوست“بھارت نے یہ کام بہت پہلے شروع کر دیا تھا۔ آج انڈیا
میں ایک نوجوان ڈاکٹر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے زائد ہے اور یورپ اور
برطانیہ سے بھارتی ڈاکٹرز انڈیا واپس چلے گئے ہیں۔کسی اور سے کچھ نہیں
سیکھنا تو بھارت سے ہی کچھ سیکھ لیجئے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
بیوی نے شوہر سے کہا میں بازار جا رہی ہوں 10ہزار روپے دے دیں۔
شوہر نے غصے سے کہا تمہیں روپوں کی نہیں عقل کی ضرورت ہے۔
بیوی نے جواب دیا۔”میں آپ سے وہی چیز مانگ رہی ہوں جو آپ کے پاس موجو دہے۔“
قارئین جو نالائق مشیر ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے خلاف مشورے دے رہے ہیں وہ
بصیرت سے خالی ہیں ہماری چوہدری عبد المجید وزیر اعظم آزادکشمیر سے اپیل ہے
کہ نوجوان ڈاکٹروں کی درد کی آواز سنی جائے اور اُن کے مسائل حل کیے جائیں۔ |