جمعیت علماءاسلام کا جلسہ یقیناً
غیر معمولی تھا۔ باغ قائد میں انسانوں کا ایک سمندر امڈ آیا تھا۔ وہاں
موجود لاکھوں چہروں میں سے کوئی بھی چہرہ ایسا نہ تھا جس پر خوف کی ہوائیاں
اڑ رہی ہوں۔ کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا گیا جسے بزور بازو گاڑی میں ٹھونس کر
جلسہ گاہ میں لایا گیا ہو۔ بلکہ شرکاءکے چہرے خوشی اور جوش سے تمتما رہے
تھے۔ ان کے انداز میں ایک والہانہ قسم کی ترنگ تھی۔ اس قدر رش کے باوجود
انتظامیہ کا کنٹرول اور نظم و نسق مثالی تھا۔ جلسے کی سیکورٹی اور ڈسپلن کی
نگرانی کی ذمہ داریاں پانچ ہزار، باوردی رضاکاروں نے سرانجام دیں۔ مجمعے نے
سیکورٹی اہلکاروں اور رضاکاروں سے بھرپور تعاون کیا۔ کراچی میںیہ اسلام
پسندوں کا تاریخ ساز اجتماع تھا۔
اسٹیج پر علمائے کرام اور جمعیت علماءاسلام کے سرکردہ راہنما انتہائی نظم
اور ضبط سے تشریف فرما تھے۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی گرجدار آواز سامعین
کے جوش و خروش کو سہ آتشہ کر رہی تھی۔ انہوں نے اپنے روایتی سیاسی حریفوں
کو بار بار للکارا اور خوب للکارا اور ملکی سلامتی کے حوالے سے درجن بھر
قراردادیں پیش کیں۔ لال مسجد کے نائب خطیب مولانا عامر صدیق نے حقائق سے
کافی حد تک گرد جھاڑنے کی سعی کی اور مولانا فضل الرحمن کے خلاف کئے جانے
والے بے بنیاد پروپیگنڈے کی پرزور الفاظ میں تردید کی۔ قاری محمد حنیف
جالندھری کا خطاب تاریخ ساز تھا۔ انہوں نے کہا کہ "اسلام زندہ باد کانفرنس"
کو پاکستان میں نفاذِ اسلام کی تحریک کی بنیاد اور ابتداءبنا کر جد و جہد
کا آغاز کیا جائے۔ اس کے علاوہ مفتی کفایت اللہ، لائق خان سواتی، اکرم خان
درانی نے بھی بہت وقیع خطاب کیے۔ آخر میں مولانا کا خطاب حسب توقع خوب تھا۔
مولانا نے اپنے خطاب میں واضح پروگرام قوم کے سامنے پیش کیا۔ مولانا کی
تقریر انتہائی سلیس اور جچے تلے الفاظ پر مشتمل تھی۔ مولانا نے خطاب کے
دوران، سامعین کا جوش و خروش یہ بتا رہا تھا کہ لوگ ابھی تک مذہبی قیادت سے
پُرامید ہیں۔
مولانا کے جلسے سے کچھ عرصہ قبل اسی باغ قائد میں عمران خان نے ایک
"سونامی" برپا کیا تھا۔ جس میں مرد و زن کا جمِ غفیر موجود تھا۔ عمران خان
اور ان کے "ریکروٹ" انتہائی پرجوش تھے۔ جلسے کی کامیابی کے بعد تو وہ زمین
پر ٹکتے نہ تھے۔ اس جلسے میں لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کیلئے "گویوں" اور
"طوائفوں" کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ کیف و مستی کے عالم میں کپتان نے
نظام خلافت کے قیام کی بات بھی کی جس پر کافی گفتگو ہو چکی۔ اگر اس جلسے
میں ہونے والی تقاریر اور اسٹیج پر ہونے والے "ناٹکوں" کا جائزہ لیا جائے
تو تضادات ہی تضادات نظر آئیں گے۔ اور لوگوں کی بڑی تعداد کی شرکت کے پیچھے
بعض لوگ "مخصوص تائیدی عوامل" کو بھی دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد مشرف نے بھی
درجن بھر لوگ جمع کر کے ایک ڈھونگ رچایا جسے "زلزلے" کا نام دیا گیا۔ خیر
اس پر بات کرنا محض وقت کا ضیاع ہے۔
بہر حال مولانا کے جلسے میں وہ کچھ نہیں تھا جو عمران خان کے سونامی میں
دیکھا گیا۔ روشن خیالی کے پھریرے لہرانے والے دنگ تھے کہ جے یو آئی بھی
اتنا بڑا جلسہ کر سکتی ہے۔ لیکن حقائق حقائق ہوتے ہیں۔ یہ جلسہ ایک سمندر
تھا جو کئی سونامیوں کو اپنے فراخ سینے میں دفن کر سکتا تھا۔ لیکن "ملاؤں"
سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والے صریح لفظوں میں اس کا انکار تو نہ کر سکے،
بہرحال گونگے ضرور ہو گئے۔
دوسری جانب میڈیا کا کردار واضح طور پر معاندانہ اور یک طرفہ تھا۔ میڈیا کے
اداروں نے جلسے کی لائیو کوریج کے وعدے کا پاس نہ رکھا۔ بلکہ میڈیا کے طرز
عمل سے جانبدارانہ رجحان جھلکتا تھا۔ نیوز چینلز پر صرف نیوز بلیٹن میں
جلسے کی جھلکیاں دکھانے پر اکتفا کیا گیا۔ جبکہ عمران خان کے جلسے میں ناچ
گانے، بھنگڑے سب کچھ مسلسل دکھایا جاتا رہا۔ کچھ عرصہ قبل مولانا کے ایک
انٹرویو میں ملک کے ایک بڑے چینل کے صحافی نے مولانا سے وعدہ کیا تھا کہ
اگر آپ عمران خان سے بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ کو فل کوریج دی
جائے گی۔ لیکن وہ صاحب تاحال منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ گو کہ
میڈیا سے وابستہ بعض حقیقت پسند صحافیوں اور دانش وروں نے میڈیا کی اس
جانبدارانہ پالیسی پر کڑی تنقید بھی کی ہے لیکن عمومی صحافتی برادری
پراسرار طور پر خاموش ہے۔
جب اسٹیج پر سے میڈیا کے طرز عمل کی شکایت کی گئی تو میڈیا اسٹیج پر موجود
ایک صحافی کا کہنا تھا "جناب! ادھر کراچی ہی میں صدر زرداری نے ایک نجی
پروگرام سے خطاب شروع کر رکھا ہے اور ادھر سکھر میں متحدہ کا جلسہ بھی ہو
رہا ہے۔ اب اگر ہم صرف اسی پروگرام کو لائیو چلا دیں تو ہمارے کاروبار کا
کیا ہوگا۔ کیا حکومت ہمیں اشتہار دے گی؟"۔ خیر اس کے ساتھ کافی دیر گفتگو
رہی، اس کا ذکر بے فائدہ ہے۔ یہ تو الیکٹرانک میڈیا کی افسوسناک کارکردگی
تھی۔ اب اگر جلسے کے بعد اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملک
کے بڑے چھوٹے تمام اخبارات نے انتہائی فراخ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے دوسرے دن
جلسے کی خبریں اور رپورٹیں شائع کیں۔ اور یہ جے یو آئی کا استحقاق بھی تھا
لیکن پھر بھی بعض "مخصوص کیمپوں" کے ترجمان اخباروں نے عجیب و غریب سرخیاں
جمائیں۔ اور اپنی روایتی تنگ نظری اور عناد بھری پالیسی کا مظاہرہ کیا۔ ایک
مذہبی شناخت کے حامل اخبار نے مولانا کے خطاب کا اپنے لفظوں میں خلاصہ نکال
کر عوام میں ایک خاص تؤثر پیدا کرنے کی غرض سے سرخی جمادی اور پھر سامنے آج
سے کئی ماہ پرانی تصویر لگا کر اس کا کیپشن "اسلام زندباد" والا لکھ دیا۔
باخبر لوگ جانتے ہیں کہ "اسلام زندہ باد کانفرنس" میں سوائے جے یو آئی کے
پرچم کے کوئی پرچم نہ تھا، جبکہ وہ تصویر ایک مشترکہ جلسے کی تھی، اور
دوسری بات یہ کہ اس جلسے میں مائیک مولانا نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا جبکہ
حالیہ کانفرنس میں مائیک اسٹیج پر تھا۔ بتائیے یہ مضحکہ خیزی نہیں تو پھر
کیا ہے؟ کہاں گئی وہ سچی صحافت، اور صاف ستھری وقائع نگاری۔۔۔۔؟؟؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ اب کی بار روشن دماغوں کو یہ اعتراض کرنے کا موقع بھی
نہیں مل سکا کہ مذہبی جماعتوں نے اسلام کو "خطرے" میں ڈال کر یہ جلسہ
کامیاب کیا ہے۔ وجہ بالکل واضح ہے کہ اس کے لئے اس نوع کے کسی بھی سلوگن کو
بنیاد نہیں بنایا گیا۔ جے یو آئی کراچی کی کاکردگی لائق تحسین ہے۔ جے یو
آئی کراچی سٹی کے صدر قاری عثمان نے جلسے سے قبل زندگی کے تمام شعبوں سے
وابستہ افراد سے ملاقاتیں اور پے در پے ریلیاں منعقد کر کے رائے عامہ کو
کانفرنس میں شرکت کی جانب مسلسل متوجہ رکھا۔ ویسے عمومی طور پر مذہبی
جماعتوں کا "عوامی رابطے" والا پہلو ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ اس جانب تمام
جماعتوں کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بعض اخبارات کی جانب سے مذکورہ
کانفرنس کے ساتھ ناانصافی والے طرز عمل کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی
جاسکتی ہے لیکن اس کے لئے عوام میں اپنی جڑوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اور
یہ عوامی رابطہ مہم کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حالیہ تاریخ ساز
اجتماع سے عمران خان کے سونامی کا جواب دینا مقصود تھا لیکن یہ ضروری بھی
تھا تاکہ رائے عامہ کسی "نئی روشنی" کی چمک سے دھوکا نہ کھا جائے۔ جواب دیا
گیا اور خوب دیا گیا۔ ابھی تک عمران خان کے کیمپ سے کوئی خاص بیان سامنے
نہیں آیا۔ متحدہ کے قائد الطاف حسین، مسلم لیگ "ق" کے چوہدری شجاعت وغیرہ
نے انتہائی فراخ دلی سے مولانا کو کامیاب جلسے پر مبارکباد پیش کی لیکن
مذہبی شناخت کے حامل لوگ تاحال بالکل توقف کےے بیٹھے ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم
نہ ہوسکا کہ وہ اپنے کو لیے دیے ہوئے کیوں محسوس ہو رہے ہیں؟ ان کے اس طرز
عمل پر سوالیہ نشان برقرار ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں مولانا کے جلسے، میڈیا کے سوتیلوں والے روےے اور بعض
لوگوں کی پراسرار "چپ" کے تذکرے کے بعد مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
جے یو آئی سرزمین کراچی پر اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرنے میں توقع سے
بڑھ کر کامیاب رہی۔ الیکٹرانک میڈیا کی صریح زیادتی کے باوجود اس کی قوت
اور طاقت کو سنجیدہ حلقوں نے تسلیم کیا ہے۔ اس کی تصدیق گذشتہ پورے ہفتے
میں سامنے آنے والے تجزیوں سے ہوتی ہے۔ دوسری جانب جے یو آئی قیادت نے سال
2012 کے دوران انتخابات کے برپا ہونے کا عندیہ دے کر کارکنوں کو تیاری کا
بھر پور ٹاسک بھی دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے
رائے عامہ کس حد تک مذہبی جماعتوں کی حمایت کیلئے تیار ہوتی ہے؟۔ جے یو آئی
کے پالیسی سازوں اور کارپردازوں کو فرصت نکال کر مذکورہ جلسے کے شرکاءمیں
ووٹرز اور سپوٹرز کے تناسب کا جائزہ لے کر آئندہ انتخابات کے لئے میدان میں
اترنا ہوگا۔ اس حوالے سے انہیں اپنے میڈیا ونگ کے ساتھ ساتھ عوامی رابطہ کی
مہم پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ باقی ملک کے طول و عرض میں دفاع پاکستان
کونسل کے تحت بڑے بڑے اجتماعات جاری ہیں۔ گو کہ ان کے اسٹیج پر موجود بعض
لوگوں پر حرف اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے لیکن ان جلسوں کی کامیابی بھی ممکنہ
طور پر آئندہ انتخابات کے حوالے سے منظر نامے پر کافی مثبت اثرات ڈالے گی۔
اس حوالے سے گفتگو آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔ |