شہید جمہوریت کی پہلی برسی کے
موقع پر عمران چنگیزی کی فکر انگیز تحریر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کا
پاکستان ، صدر زرداری اور بلاول بھٹو زرداری
عوام کے لئے اور عوام کے درمیان مرنے کی خواہش رکھنے والی نے عوام کے درمیان
جان دیدی
آصفہ ‘ بلاول اور بختاور کا دکھ ‘ کیا وہ اپنے ماں کے قاتلوں کو معاف کرسکیں گے؟
ایک ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے قاتل کی کہانی جس نے کچھ معصوم بچوں سے ان کی
ماں کو چھین لیا
بچوں سے ماں ‘ عوام سے رہنما اور ملت سے پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کو
چھیننے والوں کا احتساب کرے گا؟
پاکستان میں خودکش حملوں کی روایات ‘ محرکات ‘ اسباب اور ان کے پیچھے چھپے پردہ
پوش عناصر
خود کش حملے کے ذریعے معصوم انسانوں کی زندگیاں چھیننے والے کے لواحقین کی
سماجی و معاشی حیثیت کیا رہ جاتی ہوگی ؟
محترمہ کے قتل کی آڑ میں پاکستان کے ٹکڑے کرنے والوں کی سازش کو ناکام بنانے
والے آصف زرداری
شہید جمہوریت کے بعد کا پاکستان اور محترمہ کی شہادت کے بعد گزرا ایک سال ‘
جذبات ‘ احساسات‘ کامیابیوں ‘ ناکامیوں قربتوں و کدورتوں کی کہانی
افہام و تفہیم ‘ اشتراک و اتحاد اور جمہوری روایات کی پاسداری کے ذریعے وطن
عزیز کو شاہراہ ترقی پر گامزن رکھنے کےلئے کوشاں صدر زرداری کی ترجیحات کا تعین
شہیدوں کی روایت کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی ماں اور نانا کے نقش قدم پر چلنے
والاپیپلز پارٹی کا نوجوان چیئرمین بلاول زرداری
بلاشبہ دنیا میں ”ماں “ سے زیادہ میٹھا لفظ اور سَچا و سُچا رشتہ کوئی اور نہیں
”ماں “ کہنے کو لب سے لب مَس ہوئے نہیں کہ چاروں اور روشنی کا ہالہ سا تن گیا
یوں گمان ہوتا ہے ‘ جیسے تپتی دھوپ میں یکدم بادل کے کسی ٹکڑے نے سایہ سا کردیا
ہو
جیسے حبس آلود شام سے سُبک ‘ سجل‘ خوش لمس ہوا کا کوئی جھونکا ٹکرا گیا ہو
جیسے سلگتی ریگ صحرا پہ پہلے پہلے ساون کی بوندیں پڑنے لگی ہوں
جیسے بے خواب آنکھوں میں ست رنگے سپنے لہرا جائیں
جیسے بنجر کھیتی میں دورویہ گلابوں کے تختے بچھے جاتے ہوں
جیسے دل کی ویران بستی میں من رسیا کے قدموں کی چاپ سنائی دینے لگے
جیسے زندان کے گھپ اندھیروں میں ایک روزن سا کھل جائے
جیسے بیمار وقت آخر کو بے وجہ قرار آجائے
جیسے جنموں کے بچھڑے ‘ برسوں کے روٹھے پھر سے آن ملیں
جیسے صدیوں کی مسافت کے بعد کسی بے گھر ‘ بے در کو ماں کی نرم آغوش میں پناہ مل
جائے
ہاں.... ماں کا تو تصور ہی بس ”ماں“ ہی ہوتا ہے ۔
”ماں“ کا رشتہ کیسا رشتہ ہے ۔
شاید دنیا کا کوئی بھی لفظ ‘ جملہ ‘ عبارت یا مضمون اس کا حق ادا نہ کرسکے اور
دنیا کی کوئی دولت ‘ شہرت ‘ حیثیت ‘ جنسیت ‘ محبت اور رشتہ ” ماں “ کا نعم
البدل ثابت نہیں ہوسکے ۔
تو ان بچوں کا کیا قصور ہے ....؟
جن سے ان کی ”ماں “ کو جدا کردیا گیا
’ ’ اللہ “ کے نام پر جہاد کی آڑ میں خودکش حملوں کو جائز قراردے کر انسانی لہو
سے اپنی حیوانیت کی پیاس بجھا کر تسکین اِبلیس کا سبب بننے والے اس بات کا کیا
جواب دیں گے ؟
آصفہ ‘ بختاور اور بلاول کا ”مجرم “ کون ہے ؟
جس نے انہیں سب سے قیمتی رشتے ‘ سب سے عزیز ہستی ‘ سب سے بہترین دوست اور سب سے
انمول شے سے محروم کردیا ہے ۔
دختر مشرق‘ مجاہدہ جمہوریت ‘ رہنمائے عوام ‘ سابق وزیراعظم پاکستان بنت
ذوالفقار علی بھٹو گزشتہ برس 27 دسمبر کو شہید کردی گئیں
اِنا لِلہ وَ اِنا اِلَیہ راجِعُون َ
آہ .... بلاول ‘ بختاور اور آصفہ جےسے معصوم بچوں سے ان کی ”ماں “ چھین لی گئی
ساکت ہیں میرے ہونٹ کہوں تو کیا کہوں
جامد ہیں میرے ہاتھ لکھوں تو کیا لکھوں
اے خدائے رب ذولجلال
کیا کریں گے کہ اب وہ
جن سے ان کی ماں جدا ہوگئی
کیا ہوگا ؟....ان نوجوانوں کا جن سے ان کی بڑی بہن جدا کردی گئی
کیا ہوگا ؟ ....ان بزرگوں کا جن سے ان کی بیٹی کو چھین لیا گیا
کیا ہوگا ؟ ....ان طلبا کا جو اپنی رہنما سے محروم کردیئے گئے
کیا ہوگا؟....ان سیاسی کارکنان کا جو اپنی لیڈر سے محروم ہوگئے
کیا ہوگا؟ ....ان جمہوریت پسندوں کا
جن کی قائد جمہوریت ‘ انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئی
کیا ہوگا ؟....اب عوام کا
جن کی بہن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کردی گئیں
27دسمبر کا دن عالم اقوام کی تاریخ میں پاکستان کے سیاہ باب کے طور ہمیشہ یاد
رکھا جائے گا کہ اس دن پاکستان کی قومی سیاست سے بھٹو خاندان کا نام و نشان
مٹانے کے لئے ‘ جمہوریت کی راہ میں تین افراد کی قربانیاں دینے والے پاکستان کے
واحد سیاسی و جمہوری خاندان کے جمہوری کردار کو ختم کر کے پاکستان کی روشن خیال
‘ جمہوریت پسند ‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پاکستان کو دنیائے اسلام کی پہلی خاتون
وزیراعظم کے حامل جمہوری و اسلامی مملکت کے اعزاز سے سرفراز کرنے والی قائد
جمہوریت کو قومی سیاست میں سندھ کے سیاسی کردار کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے
”گریٹرپنجاب“ کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے داعیان نے اہل سندھ سے
دنیائے سیاست کی معزز و معتبر ‘ دانا و مدبر ‘ نرم خو و معتدل ‘ محب وطن و عوام
دوست سیاسی و سماجی رہنما اور ہردل عزیزعوامی شخصیت اور ان کی مضبوط سیاسی قوت
”دختر بھٹو “کو بنیاد پرستوں کا سہارا لے کر خود کش حملے کے ذریعے چھین لےا۔
وطن عزیز میں دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے وطن عزیز کو ترقی
دینے اور عوام کو خوشحال بنانے کی سعی و جدوجہد کی پاداش میں دونوں مرتبہ وزارت
عظمٰی سے محروم کردی جانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی تاحیات چیئر پرسن محترمہ
بے نظیر بھٹو 27دسمبر2007 ءبروز جمعرات کی شام راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک
بڑے جلسہ عام سے خطاب کے بعد اپنی رہائشگاہ واپس جاتے ہوئے خودکش حملے کا نشانہ
بنائے جانے سے تو محفوظ رہیں مگر گھات لگائے ہوئے سنگ دل دہشت گرد کی فائرنگ کے
نتیجے میں شہید ہوگئیں‘ یوںشہید باپ کی بیٹی کی جذبہ شہادت کے حصول کی تمنا بھی
پوری ہوئی اور قول بھی کہ ” میں عوام کی خاطر جیوں گی ‘ عوام کی خاطر ‘ لڑوں گی
‘ عوام کی خاطر مروں گی اور جب بھی مروں گی تو اپنی عوام کے درمیان مروں گی “ ۔
28دسمبر شام5بجکر10منٹ پر اپنے خالق حقیقی کے حضورعوام و جمہوریت کی خاطر اپنی
جان کا نذرانہ پیش کرنے والی بے نظیر بھٹو کو 29دسمبر2007 کی شام 5بجکر10منٹ پر
گڑھی خدا بخش (لاڑکانہ ) میں ذوالفقار علی بھٹو کے مزار میں پہلوئے پِدر میں
سپرد خاک کردیا گیا ۔
اس بات سے قطع نظر کے بے نظیر بھٹو کی شہادت سے سیاست میں کسے اور کیا فائدہ
ہوا اور ان کی شہادت کے پس پردہ کون سے عوامل ‘محرکات اور ہاتھ پوشیدہ ہیں ‘ یہ
بات ایک حقیقت ہے کہ ان کی شہادت ملک و قوم کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیائے اسلام
کے لئے بھی ایک اندوہناک حادثے کے ساتھ ساتھ ناقابل تلافی نقصان بھی ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وہ واحد عوامی و سیاسی رہنما تھیں جن کی شخصیت
بنیاد پرستی سے مکمل طور پر مبرا تھی ‘ پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر موجود
تمام سیاسی شخصیات پر اگر نظر ڈالی جائے اور بنظر غائر ان کا جائزہ لیا جائے تو
یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں حقیقتاً بنیاد پرستی کا
شکار ہونے کے ساتھ ساتھ درپردہ طور پر لسانی جماعتوں کی حیثیت رکھتی ہیں
ماسوائے پیپلز پارٹی کے جو بنیاد پرستی کے جراثیم سے مکمل طور پر محفوظ ایک
ایسی قومی جماعت ہے جس نے ہمیشہ فرقہ پرستی ‘ لسانیت اور تعصب کی مخالفت کرتے
ہوئے قومی حمیت کے فروغ اور جمہوریت کے قیام کےلئے جدوجہد کی ہے ۔ بے نظیر بھٹو
کی شہادت جہاں ایک قومی المیہ اور عوام کے لئے صدمہ جانگداز ہے وہیں ان کی موت
سے جمہوری جدوجہد میں ایک ایسا خلا بھی پیدا ہوگیا ہے جسے کبھی پر نہیں کیا
جاسکے گا ۔
بے نظیر بھٹو کے انتقال کے بعد پیپلز پارٹی کی قیاد ت کے مسئلے کو خود بے نظیر
بھٹو نے اپنی زندگی میں ہی اپنی وصیت کے ذریعے جس طرح حل کردیا اس سے یہ بات
واضح ہوتی ہے کہ وہ اس بات سے مکمل طور پر واقف تھیں کہ وطن واپسی کے بعد وہ
انہی جمہوریت ‘عوام اور وفاق کے دشمنوں کا نشانہ بن سکتی ہیں جنہوں نے ان کے
والد اور دونوں بھائیوں کو ان سے جدا کیا مگر پھر بھی انہوں نے اپنی زندگی خطرے
میں ڈالتے ہوئے وطن واپس آکر ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی کہ پاکستان کی سیاسی
تاریخ میں بھٹو خاندان وہ واحد رہنما خاندان ہے جو اپنی عوام کے لئے جان دینے
کا حوصلہ ہی نہیں رکھتا ہے بلکہ جان دے کر جمہوریت کو ہمیشہ جلا بخشتا رہا ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے افسوسناک قتل کے بعد مشکل ترین حالات میں آصف علی
زرداری نے جس دانائی ‘ بردباری اور متحمل مزاجی سے پارٹی کی کمان سنبھالتے ہوئے
جذبات سے مغلوب غیض وغضب میں بھری ہوئی عوام کو کنٹرول کر کے پاکستان کو ٹوٹنے
‘ بکھرنے اور شکست و ریخت سے دوچار ہونے کے عمل سے بچایا‘ اس سے یہ بات ایک بار
پھر ثابت ہوئی کہ پیپلز پارٹی ہی پاکستان کی وہ واحد جماعت ہے جس نے ہمیشہ
قربانیوں کی لازوال و بے مثال داستانیں رقم کرتے ہوئے اس ملک کی عزت و حرمت اور
سالمیت کو برقراررکھا ہے اور ہمیشہ اپنے جذبات و احساسات کو پاکستان کی فلاح و
بقا کے لئے قربان کیا ہے گو کہ دشمنان پاکستان و عوام اور بے نظیر کے قاتل
منافقت کا لبادہ اوڑھے آنکھوں میں مصنوعی آنسو اور دل میں فتح کی خوشی بسائے‘
آصف علی زرداری کو پُرسہ دیتے رہے مگر سلام ہے زرداری کی عظمت پر جس نے دشمنوں
کو بھی گلے لگایا اور وطن عزیز کی سالمیت کے لئے ان سے بھی ہاتھ ملایا جن کا
گلا دبانا چاہئے تھا
18فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میںشہید جمہوریت محترمہ بھٹو کے لہو کے
صدقے عوام پاکستان نے جو مینڈیٹ پیپلز پارٹی کو دیا آصف علی زرداری نے اس
مینڈیٹ کی لاج رکھتے ہوئے قومی مفاہمت کے تصور کو حقیقی روپ دیکر حریفوں کو
حلیف اور رقیبوں کو رفیق بناکر اقتدار کا ہُما پیپلز پارٹی کے سر پر بٹھانے کے
ساتھ ساتھ صدر مشرف کو گھر بھجواکر منصب صدارت کا تاج جس کمال مہارت سے اپنے سر
سجایا ہے اس نے ثابت کردیا ہے کہ بے نظیر بھٹو ایک کہنہ مشق سیاستدان ہی نہیں
بلکہ ایک بہترین اتالیق بھی تھیں جنہوں نے آصف زرداری کو میدان سیاست کا ایک
ایسا شہ سوار بنادیا جس کی رفتار کو نہ تو آمریت کی قوتیں روک سکیں ‘ نہ
اسٹیبلشمنٹ کی طاقت‘نہ سیاسی مکاروں کی مکاریاں ‘ چالبازیاں اور دغابازیاں ‘ نہ
حلیفو کی جفا‘ نہ رقیبوں کی اَدا اور نہ ہی میڈیا کا جانبدارانہ کردار بلکہ وہ
ایک ہی جست میں تمام صف بندیوں کو توڑتے ہوئے جس تیزرفتاری سے نشان فتح تک پہنچ
کر سب کو شکست دے کر جشن فتح مناچکے ہیں ۔اس نے ثابت کیا ہے کہ ان میں وہ سیاسی
اہلیت و قابلیت یقینا موجود ہے جو ایک کہنہ مشق وکامیاب سیاستدان کا خاصا ہوتی
ہے ۔بے نظیر بھٹو کی اچانک و المناک شہادت نے پیپلز پارٹی سمیت وطن عزیز کو جس
بحران اور امتحان سے دوچار کردیا تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ آصف زرداری نے اپنی
فہم و فراست ‘ حوصلے وہمت کے ساتھ مستحکم و مفاہمانہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے
نہ صرف وطن عزیز کو اس بحرانی کیفیت سے نکالا بلکہ پیپلز پارٹی کو بھی شکست
وریخت سے محفوظ رکھتے ہوئے مضبوط و مستحکم سیاسی قوت کے طور پر نہ صرف اس کے
تشخص کو برقرا رکھا بلکہ اسے حکمران جماعت ہونے کا اعزاز بھی دلایا اور آج وہ
صدر پاکستان کی حیثیت سے منتخب ہونے کے بعد شہید بی بی کے خواہشات کے بموجب
ایوان صدر میں بھٹو کے نعرے لگوانے کے لئے بااختیار ہوکر بی بی شہید کی روح کے
سامنے سرخرو ہوتے دکھائی دیتے ہیں
یہ آصف علی زرداری کی بُردباری ‘ متحمل مزاجی ‘ بصیرت ‘ دانائی ‘ دوراندیشی اور
پاکستان سے محبت و وطن پرستی کا مظہر ہے کہ انہوں نے قومی سیاست سے سندھ کے
کردار کو ختم کرنے کی سازش کے تحت بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سندھ کے عوام میں
پیدا ہونے والے احساس محرومی کے نتیجے میں ہونے والی بغاوت کو روکنے کےلئے
”پاکستان کھپے “ کا نعرہ لگایا اور نہ صرف وطن عزیز کی سالمیت کو برقرار رکھا
بلکہ پاکستان میں قومی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناکر بحالی جمہوریت کا
کارنامہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ آمر وقت کو پُراَمن طریقے سے گھر بھجوانے کا
بھی اہتمام کیا اور اب پوری دیانتداری سے آمریت کے بوئے ہوئے کانٹوں کو صاف
کرکے گلشن پاکستان کو محبتوں کے گلابوں سے سجانے کی جدوجہد کررہے ہیں گوکہ
آستین کے سانپ اور دوست نما دشمن اب بھی جمہوریت ‘ حکومت اور وطن عزیز کے خلاف
سازشوں میں مصروف ہیں مگر سلام ہے اس مردِ آہن کو جو 12 برس جیل میں کاٹی ہر شب
کے دکھ اور ہر دن کی تکلیف ‘ مشقت اور صعوبت کو بھلا کر ”انتقام “ کی جگہ
”اشتراک “ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے وطن و جمہوریت اور عوام کے خوشحال مستقبل
کی خاطر ہر سازش کا مردانہ وار مقابلہ خندہ پیشانی اور دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ
کررہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر دشمنان وطن اس مردِ آہن کو نقصان پہنچانے
میں کامیاب نہیں ہوئے تو عوام و پاکستان کا مستقبل انتہائی خوش آئند اور تابناک
ہے ۔
اس بات کا احساس و ادراک آصف علی زرداری کو بھی ہے کہ بھٹو خاندان کے دشمن جو
حقیقت میں عوام اور پاکستان کے دشمن ہیں اسے بھی نہیں بخشیں گے مگر وہ پھر بھی
وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر
بھٹو کے ” خوشحال عوام ‘ مستحکم پاکستان “ کے مشن کو آگے بڑھاکر اس بات کو ثابت
کررہا ہے کہ صرف بھٹو ہی عوام کےلئے جان دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے وہ بھی اس
عزم و حوصلے سے سرشار ہوجاتے ہیں جو بھٹو کے نزدیک ہوتے ہیں ‘ جیسے ” پارس “
لوہے کو بھی سونا بنادیتا ہے ۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت پیپلز پارٹی کی جمہوری جدوجہد میں کچھ وقت کےلئے جمود ‘
تعطل اور خلا تو ضرور پیدا ہوا مگر بے نظیر بھٹو کا عزم ‘ ولولہ ‘ جوش ‘ ہمت ‘
جرات ‘ عوام سے ان کی محبت اور ان کا جمہوری کردار ان ہی کی طرح ہمیشہ عوام کے
دلوں میں اَمر ہوچکا ہے جس نے کارکنان میں ایسا جوش و ولولہ پھونکا کہ قیادت کا
مرحلہ طے ہوتے ہی پیپلز پارٹی پاکستان نے قومی انتخابات میں ایک بار پھر ثابت
کردیا کہ وہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہی نہیں بلکہ عوام کی باعتماد
ایک ایسی جماعت بھی ہے جس کے قائدین کی کمی کو ہمیشہ عوام محسوس کرتے تو رہیں
گے مگر ان کی یاد سے اپنے حوصلوں کو بڑھاکر اپنے قائدین کی جمہوری جدوجہد کا
سفر جاری رکھیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ بے نظیر کی شہادت پاکستان پیپلز پارٹی چاروں
صوبوں کی واحد نمائندہ جماعت کے طور پر سامنے آئی مگراتنی بھاری اکثریت سے
منتخب ہونے کے باوجود بھی پیپلز پارٹی کے قائدین نے دیگر سیاسی جماعتوں کے
قائدین کی طرح طاقت کے نشے میں بد مست ہوکر اپنے حریفوں کچلنے اور محروم و
محقور ثابت کرنے کی بجائے ” افہام و تفہیم “ کی سیاست کی داغ بیل دال کر پنجاب
میں مسلم لیگ ( ن ) اور سرحد میں اے این پی کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کرنے
کے ساتھ ساتھ وفاق میں مسلم لیگ (ن) اور سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ کو جس طرح
اپنے برابر بٹھایا اور شریک اقتدار بنایا اس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ پیپلز
پارٹی ہی پاکستان کی وہ واحد جماعت ہے جو جمہوریت کا جمہوریت کا راگ ہی نہیں
الاپتی بلکہ حقیقی معنوں میں جمہوریت کے حصول کےلئے جدوجہد کرتی اور قیام
جمہوریت کے بعد بھی جمہوری رویوں کا اظہار کرتی ہے تاکہ جمہوری شعور عام اور
جمہوریت مضبوط و مستحکم ہو جو یقینا پاکستان و عوام کے بہترین مفاد میں ہے ۔
گو کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے اپنی بہترین قائدانہ
صلاحیتوں کے بل پر خود کو پیپلز پارٹی کا موزوں رہنما ثابت کرتے ہوئے وطن عزیز
کو آنے والے بحرانوں سے محفوظ کرلیا ہے مگر پھر بھی دنیائے سیاست میں بے نظیر
بھٹو کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی اور ان کی کمی سے پیدا ہونے والا سیاسی
خلا کبھی پُر نہیں کیا جاسکے گا مگر وقت کا سفر جاری رہے گا سفر زندگانی میں
ایک کی جگہ دوسرا لیتا ہے یہ ایک مسلم اصول ہے اور اسی مسلم اصول کے تحت قوم نے
بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کا نیا چیئرمین اور اپنا رہنما و قائد صدق دل
سے تسلیم کرلیا ہے اور وہ خلوص نیت سے اس راہ پر چلنے کےلئے تیار ہے جس پر چلتے
ہوئے اس کے نانا اور ماں نے عوام کے حقوق اور جمہوریت کی خاطر اپنی زندگیوں کو
قربان کردیا گو کہ وہ اس بات سے واقف ہے کہ یہ راہ کٹھن ہی نہیں بلکہ خطرناک
بھی ہے مگر اس کی رگوں میں ایک بلند حوصلہ ماں اور مستقل مزاج باپ کا لہو دوڑ
رہا ہے اس لئے وہ اپنی راہ میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لاتے
ہوئے جمہوریت کی اس جدوجہد کو جاری و ساری تو ضرور رکھے گا مگر اس پرخار راہوں
پر سفر کرتے ہوئے اسے ہر لحظہ اپنی ماں کی نرم گرم آغوش کی کمی و ضرورت تو ضرور
محسوس ہوگی
تو اس وقت ان بچوں کا حال کیا ہوگا جب زندگی کی کٹھنائیوں سے نجات کےلئے انہیں
اپنی ماں کے آنچل میں منہ چھپانے کی خواہش ہوگی ؟
آصفہ کا کیا ہوگا ؟
بلاول کا کیا ہوگا ؟
بختاور کا کیا ہوگا ؟
جو اپنی ماں کی شفیق گود کو ‘ حسیں لمس کو اور مامتا کی ٹھنڈی چھاؤں کو ہمیشہ
کےلئے ترستے رہیں گے
کیا ماں کا کوئی نعم البدل ہے
کیا وہ کبھی بے نظیر کو بھلا پائیں گے ؟
کیا انہیں ماں کا ‘ اپنی ماں کا ‘ بے نظیر بھٹو کا کئی نعم البدل مل سکتا ہے ؟
فرزندان ابلیس
خود کش حملوں کے ذریعے حرام موت مرنے والے
ماؤں سے ان کی جوان اولادیں
معصوم بچوں سے ان کی مائیں
بہنوں سے بھائی
باپ سے بڑھاپے کے سہارے
اور گھروں سے کفیل چھین کر
بندگی اِبلیس کا حق ادا کرتے ہوئے خودکش حملوں کے ذریعے رب کی مخلوق کو ایذا و
تکلیف پہنچا کر اسے ”جہاد “ اور اس کارِشیطانی کو ”حلال“ قرار دینے والے کیا
کبھی محسوس کرسکتے ہیں کہ اپنوں سے جدائی کی تکلیف کیا ہوتی ہے ‘ان سے بچھڑنے ‘
ان کے بے موت مرنے کا غم کیا ہوتا ہے ؟
خود کش حملہ آور وں کے بھی تو گھر ہوتے ہوں گے ‘ گھر والے ہوتے ہوں گے ‘ احباب
ہوتے ہوں گے ‘ رشتہ دار ہوں گے ‘ بیوی ہوگی اور بچے ہوں گے
کیا کبھی انہوں نے سوچا ہے کہ ان کے خود کش حملے کے شیطانی ملبوس میں لپٹی ان
کی حرام موت سے ان کے گھر والوں کو کیا تکلیف ہوتی ہوگی ؟
ان کی معاشرتی حیثیت کیا رہ جاتی ہوگی ؟
دنیا میں انہیں کن معاشی تکالیف کا سامنا ہوتا ہوگا ؟
اور ان کی روح و ضمیر کس طرح لمحہ لمحہ گھائل ہوتا ہوگا ؟
اس ماں کی کیا حالت ہوتی ہوگی جس کے بطن سے جنم لینے والے اس کے جگر گوشے نے
شیطانوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایمان کی حرارت سے اپنے دل کو خالی کرکے
اپنے لہو کے ہر قطرے سے انسانیت کو نچوڑ کر بہادیا ہو اور ابلیس پرستوں کی
امامت میں خود کش حملے میں خود اپنی ہی جان اِبلیس کے حضور پیش کرنے کے بعد
تذلیل انسانیت کا ہی نہیں بلکہ اپنی ماں کی کوکھ اور بطن کی تذلیل کا بھی سبب
بنا ہوگا
کیا خود کش حملہ آوروں کی مائیں اپنی کوکھ کو کوستی نہ ہوں گی ؟
کیا ان کی بیویاں اپنے شوہر کی کمی اور معاشی بدحالی سے دوچار نہ ہوتی ہوں گی ؟
کیا ان کے بچے معاشرے میں اپنا منہ چھپا کر اور سر جھکا کر نہ چلتے ہوں گے ؟
مگر کیا کہیے ان تاجران شیطانیت کا ‘ جو بدیسی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے ‘
اپنے نورانی چہروں اور محراب دار پیشانیوں سے نونہالان ملت کو دھوکا دے کر ‘
اسلام کے نام پر شیطان کا آلہ کار بنارہے ہیں اور تعلیم کی آڑ میں دہشت گردی کی
تربیت دے کر خود کش بمبار پیدا کر کے خود تو اپنی اولادوں کو بیرونی
یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم دلاکر انہیں اسمبلیوں تک پہنچارہے ہیں اور عزت ‘
دولت ‘ شہرت ‘ اختیار و اقتدار کے حصول کو یقینی بنارہے ہیں جبکہ دوسروں کی
اولادوں کو خود کش بمبار بناکر حرام موت مروا کر انہیں جہنم میں پہنچا رہے ہیں
جبکہ ان کے اہل خانہ اور خاندان کے لئے دنیا کو جہنم بنانے کا سبب بن رہے ہیں ۔
بے نظیر بھٹو بھی ایسی ہی کسی محرابی پیشانی اور نورانی چہرے والے فرزند اِبلیس
کے تربیت یافتہ کسی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے کسی ایسے خود کش بمبار کا
نشانہ بن گئی ہیں جو اسلام کے بارے میں اتنا بھی نہ جانتا ہوگا جتنا کہ اسلام
کے نام (ا-س-ل-ا-م) میں چھپا ہے اسی لئے اپنی کم علمی اور غربت کے باعث وہ
شیطان پرست حلقوں کا نشانہ بن کر قوم کو عظیم المیے سے دوچار کرنے کا باعث بنا
۔
اس سے یہ بات بڑی واضع ہوجاتی ہے کہ وطن عزیز میں موروثی سیاست ‘ دہشت گردی ‘
بدامنی ‘ خود کش حملوں اور جرائم کی بنیادی وجہ جہالت اور غربت ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر مؤثر اقدامات کرتے ہوئے ملت کے ہر فرد
کو خواندہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کےلئے اقدامات کرتے ہوئے ایسی تعلیمی
پالیسی ترتیب دے جس میں طبقاتی نظام تعلیم سے پاک ایسی تعلیم و تربیت پاکستان
کے ہر فرد کو مفت فراہم کی جائے جس میں مذہبی تربیت اور جدید دنیاوی ضرورت
دونوں کو سمو دیا گیا ہو تب ہی ہم معاشرے سے مدارس کلچر کا خاتمہ کرنے میں
کامیاب ہوں گے جس سے خود کش حملہ آوروں کی تربیت کا راستہ روک کر ایسے حملوں سے
نجات حاصل کی جاسکے گی جبکہ بہترین تعلیم و تربیت کی فراہمی کے ساتھ روزگار کی
سہولت کی فراہمی کے ذریعے ہر قسم کی دہشت گردی اور جرائم کا خاتمہ کرکے معاشرے
کو محفوظ و پر امن بنایا جاسکتا ہے ۔
گو کہ پیپلز پارٹی کی حکومت مکمل طور پر پاکستان کو ایک ایسی فلاحی مملکت بنانے
کےلئے کوشاں ہے جس کے ہر فرد کو روٹی ‘ کپڑا اور مکان کے حصول کے ساتھ تعلیم ‘
صحت اور روزگار کے یکساں مواقع بھی حاصل ہوں تاکہ مساوات کا اصول احساس محرومی
کا خاتمہ کردے اور پھر کوئی معصوم نوجوان ابلیس پرستوں کی سازش کا کار ہوکر خود
کش بمبار بنے نہ پھر کوئی اور بےنظیر اس کے کئے گئے دھماکے میں اپنی جان گنوائے
مگر دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی اور صدر آصف زرداری کو جو
پاکستان ملا ہے وہ مسائل ‘ مصائب تکالیف ‘ پریشانیوں‘ عدم برداشت اور جارحانہ
رویوں کے ساتھ ساتھ منافقوں اور مفاد پرستوں سے بھی اٹا ہوا ہے اور یہی پیپلز
پارٹی کا اصل امتحان ہے کہ اسے پاکستان کو تلخ ماضی اور مضطرب حال سے نکال کر
محفوظ مستقبل تک لے جانا ہے جس کےلئے صدر زرداری قومی مفاہمت کے عمل کو جاری
رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر تو یقینا چل رہے ہیں مگر اس کے
لئے انہیں حلیفوں کے مفادات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ حریفوں اور رقیبوں کے تحفظات
کو دور کرنا بھی ضروری ہوگا کیونکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ
لائن اسٹیٹ کے طور پر اپنی سلامتی کی جو جنگ لڑرہا ہے اس جنگ میں اسے نہ تو
عوام کی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی سیاسی و جمہوری جماعتوں کی اور نہ میڈیا کی
اسلئے اس جنگ کو جاری رکھنے کےلئے امریکی اعتماد پر پورا اُترنا نئے صدر کے لئے
آسان نہیں ہے ایک جانب جہاں انہیں قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گردوں اور
جنگجو حملہ آوروں کا خاتمہ کرکے پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہگاہ بننے سے
محفوظ رکھنا ہے تو وہیں اس بات کو بھی یقینی بنانا پڑرہا ہے کہ دہشتگردی کے
خلاف جاری اس جنگ میں عام پاکستانی اور ان کے مفادات محفوظ رہیں ‘دوسری جانب
روایتی سیاست کا خاتمہ کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جس روایت
کا آغاز کرتے ہوئے محاذ آرائی کی سیاست کا خاتمہ اوران کی صدارت کے حصول میں
معاون و ممدو کا کردار ادا کرنے والی اتحادی جماعتوں کے ساتھ انصاف و احسان
کرتے ہوئے قومی سیاست میں ان کے تشخص کا دفاع کرنا ان بھی اب ان کی ذمہ داریوں
میں شامل ہوچکا ہے جبکہ وطن عزیز میں سنگین صورتحال اختیار کرنے والے توانائی
کے بحران ‘ غربت ‘ مہنگائی ‘ بیروزگاری کے خاتمے اور معیشت کو تیزرفتار ترقی
دینے کےلئے ترجیحی اقدامات کرنے کے علاوہ انہیں ان آمرانہ حلقوں کی طالع آزمائی
سے بھی وطن عزیز کو محفوظ رکھنا ہوگا جو ابھی بھی جمہوریت کو قبول کرنے کی
بجائے اس راہ میں مختلف حیلے بہانوں اور ذرائع سے مشکلات کھڑی کرنے میں مصروف
عمل ہیں ‘ موجودہ صدارتی انتخاب میں جہاں تین صوبوں نے آصف علی زرداری پر
بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں انہیں وہ
پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جس کا حقدار بھٹو خاندان کا لہو تھا اسلئے جہاں تین
چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بڑے صوبے کی
جمہوری قوتوں ‘سیاستدانوں اور عوام کو بھی اعتماد میں لے کر پنجاب میں پیپلز
پارٹی کی قوت کو بڑھانا ہوگا تاکہ وطن عزیز میں جمہوریت مستحکم سے مستحکم ترین
ہو اور کوئی اس کی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرسکے ۔ اسکے علاوہ آصف
علی زرداری کو عدلیہ کی آزادی اور اختیارات میں توازن قائم کرکے پارلیمنٹ کو
بالادست بنانے کے ساتھ ساتھ اداروں کو مضبوط بنانے کے اپنے عہدو پیمان کی تکمیل
بھی کرنی ہوگی تب ہی عوام میں ان کی وہ ساکھ اور اعتماد قائم رہے گا جس کی
بنیاد پر انہوں نے پیپلز پارٹی کو اقتدار اور صدارت کے تاج سے نوازا ہے ۔آصف
زرداری کا سب سے بڑا امتحان پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے حوالے سے
ہے کیونکہ ایک جانب جہاں نیٹو اور امریکی ڈرون طیارے پاکستانی فضائی سرحدوں کی
خلاف ورزیاں کررہے ہیں وہیں دوسری جانب بھارت کے جنگی عزائم بھی پاکستان کےلئے
خطرات اور خدشات پیدا کررہے ہیں اسلئے دنیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی ‘ سیاسی ‘
اقتصادی ‘ تجارتی اور دفاعی حالات میں ضرورت اس اَمر کی ہے کہ روایتی دفاع سے
ہٹ کر پاکستان کو جدیددفاعی ٹیکنالوجی کا حامل اور افواج پاکستان کی صلاحیتوں
کے ساتھ ان کے سامان حرب میں بھی اضافہ کیا جائے جو یقینا صدر زرداری کی
قائدانہ صلاحیتوں کا حقیقی امتحان ہے کیونکہ استعماری اور سامراجی قوتیں اس
اَمر کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے
اپنی سیاسی بصیرت افروزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس کامیابی سے پاکستان میں سیاسی
کامیابیاں حاصل کی ہیں کیا وہ ان کا تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو
ان کی اب تک کی سیاسی کامیابیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یقینی دکھائی دیتا ہے کہ
وہ اس امتحان بھی سرخرو ہوکر ارواح شہداﺀ کو مسرت و انبساط سے ہمکنار کریں گے ۔ |