حکومت پنجاب کے گوگل کے ساتھ
تازہ معاہدہ کے موقع پر مایوسی کی باتیں کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ، مگر
کیا کیجئے کہ کچھ عادتیں سر کے ساتھ ہی جاتی ہیں ،زمانے کی رفتار کے ساتھ
چلنے کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ، جس نے ایسا
سوچا وہ اس دوڑ میں نہ صرف پیچھے رہ جائے گا ، بلکہ اس کے کچلے جانے کا
امکان زیادہ ہے۔ ہمارے حکمران دعوے بھی بہت کرتے ہیں، اور اپنے سوچے اور
کئے پر مزید کچھ سننے اور اس میں تبدیلی کا حوصلہ بھی کم ہی رکھتے ہیں۔ اب
گوگل نے پنجاب کے تاریخی اور سیاحتی مقامات دنیا کے سامنے پیش کرنے کے
معاہدے پر دستخط کردیئے ہیں، دنیا دیکھ سکے گی کہ ماضی کے حکمرانوں نے اس
خطے میں طرز تعمیر کے کون کونسے شاہکار نمونے تیار کئے، جو صدیوں سے سیاحوں
کی تفریح طبع کا سامان کرنے کے لئے موجود ہیں۔
پنجاب حکومت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترویج اور ترقی کے لئے اٹھائے گئے
اقدامات کی تحسین نہ کرنا بخیلی کے زمرے میں آتا ہے، اچھا کام تعریف و
تقلید کا حقدار ہوتا ہے۔ حکومت اس ضمن میں اپنے خیال میں کارہائے نمایاں
سرانجام دے رہی ہے، سکولوں میں آئی ٹی لیبز دی گئیں، تعلیمی بورڈوں کے
امتحانی نظام کو کمپیوٹرائزڈ کیا گیا، سافٹ وئیر ٹیکنالوجی پارک کا نام
ارفع کریم کے نام کیا، اور اب ایک لاکھ پچیس ہزار لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا
کام شروع ہے۔ پنجاب حکومت کی یہ ساری کاوشیں آئی ٹی کے فروغ کے لیے ہیں۔
اسی سلسلہ کی ایک تازہ کڑی پنجاب حکومت اور گوگل کے درمیان انفارمیشن
ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک یاداشت پر دستخط کرنا ہے، اس معاہدے کی رو سے
گوگل کے ذریعے پنجاب کے سیاحتی اور تاریخی مقامات کو انٹر نیٹ پر رسائی دی
جائے گی، جس سے دنیا بھر کے کروڑوں افرادپنجاب کے قدیم اور جدید ورثے سے
آگاہی حاصل کرسکیں گے۔ بظاہر تو ذکر پورے پنجاب کا ہی ہے ، ہوسکتا ہے کہ
گوگل کا سارا زور لاہور پر ہی لگا رہے، ویسے لاہور جہاں پنجاب کے حکمرانوں
کا شہر ہے، وہاںتہذیب وثقافت میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں، لاہور روایات
کا امین بھی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ اتنے سارے تاج سر پر سجانے سے رویوں میں
کچھ تبدیلی تو آ ہی جاتی ہے۔
توقع کی گئی ہے کہ دنیا میں کروڑوں افراد گوگل کے ذریعے ایسے مقامات کو
دیکھ سکیں گے، لیکن کیا ان مقامات کی حالت زار ایسی ہے کہ ہم کسی کو اس کی
دعوت نظارہ دیں، کسی کو اس کی سیاحت کی طرف مائل کریں۔ پنجاب سیاحت کے
مقامات کے اعتبار سے خود کفیل خطہ ہے، اس کے چپے چپے پر تاریخ کے قدموں کے
نشانات ہیں، بہت سے تو معروف ہیں مگر بے شمار ایسے بھی ہیں جو ہماری
حکومتوں کی عدم دلچسپی کے باعث منظر عام پر نہیں آ سکے، یا ان مقامات تک
رسائی کے لئے مناسب سڑکیں بھی موجود نہیں۔ کوئی بہت باذوق یا جنونی ہی ایسے
علاقوں کی خاک چھانے ، ان مقامات کو ڈھونڈنکالے اور پھر وہاں پہنچ کر زمانے
اور حکمرانوں کی عدم توجہی پر ماتم کرے، ایسی جگہوں کو دیکھنا تو اپنے ماضی
کے جھروکوں میں جھانکنے کے مترادف ہے، مگر جب وہاں لاوارث کھنڈرات کے
سواکچھ نہیں ہوتا ،تو صدمے سے دل ڈوبنے لگتا ہے۔
ان مقامات کو گوگل پر دکھانا بھی ٹھیک ہے، مگر ان کی حالت پر توجہ دینا بھی
آخر حکومتوں کا ہی فرض ہے، ان کا محکمہ آثار قدیمہ اپنے ورثے کو محفوظ
رکھنے کی بجائے قدیم آثار کو مٹانے پر تلا ہوا ہے، ان خوبصورت سیاحتی ورثہ
جات کو ہم اپنے ہاتھوں ضائع کررہے ہیں۔ ہمارے حکمران یہ بھی بخوبی جانتے
ہیں کہ ترقی یافتہ قومیں ایسے مقامات کی حفاظت کر کے ان کی مدد سے بے حساب
زر مبادلہ کماتی ہیں، شاید ہمارے مقدر میں نوحہ گری اور ماتم ہی ہے کہ اپنی
پسند کے دیگر منصوبوں پر تو اربوں روپیہ جھونک دیتے ہیں، مگر ماضی کو دنیا
سے نابود ہونے سے بچانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کرتے۔ گوگل پر جانے کا
معاہدہ خوش آئند ، مگر زمینی حقائق سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ان مقامات کی
حالت ناقابل دید ہے۔ |