فیچر اردو فلک
راوی ماہم عدیل
ساجدہ چوھدری
دوبئی کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین اور مہنگے ترین شہروں میں ہوتا ہے۔اسکے
حکمرانوں کے ذوق و شوق نے اسے بلندو بالا عمارتوں اور شاپنگ سنٹروں سے مزین
کر دیا ہے۔دوبئی جو چند صدیوں پہلے ایک لق دق صحراء تھا تیل کی دولت نے اسے
ایک نخلستان بنا دیا ہے۔دوبئی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے خصوصی کشش کا حامل
ہے۔ جدید دوبئی کی بنیاد انیس سو اکہتر 1971 میں رکھی گئی۔آج دوبئی ایک بین
الاقوامی شہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔اسکی آمدن کا انحصار پٹرولیم کے
علاوہ شعبہ سیاحت،اسٹیٹ کمپنیوں اور دوسرے مالیاتی اداروں پر بھی ہوتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں ہر دوسرا شخص دولت کمانے کی خاطر دوبئی آنا
چاہتا تھا تاکہ وہ وہاں سے دولت کے خزانے حاصل کر سکے۔اس چکر میں کئی لوگ
اپنی پونجی اور جان تک کو داﺅ پر لگا بیٹھے تھے۔ایجنٹ لوگوں کو دوبئی کے
سبز باغ دکھا کر انہیں کراچی کے جزیروں پر چھوڑ آتے تھے۔جو ناجائز طور پر
دوبئی پہنچ جاتے ان میں سے کچھ قانون کی گرفت میں آ کر جیلوں میں دھر لیے
جاتے۔ زبان اور قانون سے عدم واقفیت اور مقدمے کی پیروی نہ ہونے کی وجہ سے
کئی لوگ برسوں جیلوں میں محض دوبئی یاترا کے جرم میں سڑتے رہتے۔دوبئی
امراءکے لیے بنایا گیا ہے یہاں غریبوں کی کوئی خاص جگہ نہیں ۔تاہم کئی
پاکستانی آج دوبئی میں کاروبار کر رہے ہیں ۔ہر فرد کے پاس ایک کہانی اور
ایک داستان عبرت ہے۔ زندگی اسی جدوجہد کا نام ہے۔دوبئی شہر عرب امارات کا
حصہ ہے۔عرب عمارات علاقے کا دوسرا بڑا رقبہ رکھنے والی اسٹیٹ ہے۔ جب کہ
پہلے نمبر پر ابو ظہبی ہے۔دوبئی شہر عرب امارات کی شمالی پٹی کے قریب واقع
ہے۔تاریخی طور پر دوبئی سن سترہ سو ننانوے (1799)میں معرض وجود میں آیا ۔جب
کہ تیل کی دولت انیس سو چھیاسٹھ (1966) میں دریافت ہوئی۔
موسم گرماء میں اس شہر کا درجہ حرارت اسقدر زیادہ ہو جاتا ہے کہ باہر جانا
دو بھر ہو جاتا ہے۔موسم کی سختی سے بچنے کے لیے تمام شاپنگ پلازے ، ہوٹل
اور تمام عمارتیں سنٹرلی ائیر کنڈیشنڈ ہیں۔حال ہی میں تعمیر ہونے والی
عمارت برج خلیفہ کا شمار دنیا کی بڑی عمارت میں ہوتا ہے۔اسکی ایک سو ساٹھ
منزلیں ہیں۔سو منزلوں کے بعد سورج چند منٹوں کی تاخیر سے غروب ہوتا ہے۔بلند
منازل کے مکینوں کے لیے سورج تاخیر سے غروب ہونے کی وجہ سے وہ لوگ روزہ بھی
دیر سے کھولتے ہیں۔البتہ یہ جدید دور کا فتویٰ جاری کرنے والے عالموں نے یہ
نہیں بتایا یہ بلند عمارتوں کے مکین سحری بھی جلدی بند کیا کریں۔خیر دوبئی
کی بلند و بالا عمارتیں اور دیو ہیکل عمارتیں اورآراستہ و پیراستہ بازار
سیاحوں کو دعوت عام دیتے ہیں۔یہاںپر کھانا نسبتاً سستا پانی مہنگا اور
پٹرول سستا ملتاہے۔ ایک سیاح فیملی کے مطابق انہوں نے اپنی گاڑی کی ٹینکی
فل کروانے کے لیے دو سو ریال دیے۔ پٹرول ڈالنے والے لڑکے نے پوچھا کتنے
کاپٹرو ل ڈ النا ہے۔ اسے بتایا گیا کہ دو سو ریال کا ڈالنا ہے۔ یہ سن کر اس
لڑکے نے ایک قہقہ لگایا ۔پھر دوسری بار اس نے یہی سوال دہرایا گیا،کتنے کا
پٹرول ؟ جواب ملا دو سو ریال کا، لڑکے نے پہلے سے بلند قہقہ لگایا ۔ سب
حیران کہ کیا ہم نے لطیفہ سنا دیا ہے جو یہ یوں ہنس رہا ہے۔ اسکی اس
پراسرار ہنسی کا راز جلد ہی کھل گیا جب اس نے اس لڑکے نے تیس ریال کاپٹرول
ڈال کر باقی ایک سو ستر ریال واپس کیے اتنا سستا پٹرول دیکھ کر سب حیران رہ
گئے یہ صرف چار سو نارویجن کراﺅن تھے جن میں گاڑی کی ٹینکی فل ہو گئی
تھی۔یہاں عام طور سے لوگ انگلش بولتے ہیں مگر اردو بولنے والے انڈین اور
پاکستانی بھی بہت مل جائیں گے۔پاکستانیوں کی نسبت انڈین دوبئی کی مارکیٹوں
میں زیادہ مستحکم پوزیشن میں ہیں۔ دوبئی میں پچاس فیصد آبادی انڈین کی
ہے۔عینی شاہدوں کے مطابق ائیر پورٹ پر موجود عربی اہلکار خواتین مسافروں سے
بالکل بات نہیں کرتے خواہ انہیں کسی رہنمائی کی ہی ضرورت کیوں نہ پڑے۔ اگر
کوئی مسافر خاتون ان سے کسی قسم کی رہنمائی لینے کی کوشش کرے تو وہ چیختے
ہوئے کہتے ہیں جاﺅ جاﺅ۔ جبکہ عربی خواتین کا عملہ غیر ملکی مسافروں اور مرد
حضرات سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے۔یہ تضاد عجیب لگا۔دوبئی دیکھنے میں
جس قدر رنگین ہے متوسط طبقے کے حالات اسی قدر سنگین ہیں۔امراءاور غرباءکا
فرق واضع نظر آتا ہے۔ شہر دوبئی بھی دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ڈیرہ دوبئی
پرانا شہر ہے جبکہ نیا شہر متمول لوگوں کا مسکن ہے۔ یہاں پر ہی زیادہ تر
نئی اور جدید بلڈنگیں اور شاپنگ سنٹرز واقع ہیں۔ایک سیاح لڑکی کے مطابق عرب
لڑکیاں حجاب تو استعمال کرتی ہیں مگر انکا مخصوص اسٹائل انکی دولت و عمارت
کا مظہر بھی ہے۔نوجوان عربی لڑکیاں اور خواتین اونچی ایڑی کے جوتوں کے ساتھ
جینز کے اوپر عباءمیں نظر آتی ہیں جبکہ انکی عباءکے چاک میں سے انکی چست
جینز جھانکتی نظر آتی ہے۔رئیس خواتین باقائدگی سے بیوٹی پارلر سے میک اپ
کرواتی ہیں ۔انکا مخصوص اسٹائل گہرا آئی میک اپ اور سرخ لپ اسٹک ہے جو
عباءکے ساتھ بہت دلکش معلوم ہوتی ہے۔ عرب لڑکے اور لڑکیاں بہت باذوق ار
نفیس و اعلیٰ ذوق کے مالک ہیں۔ ہمیشہ اعلیٰ درجے کا موبائیل ہاتھ میں ہو
گا۔مرد حضرات اپنے مخصوس عربی سفید عباءمیں سر کے رومال کے ساتھ بہت بھلے
معلوم ہوتے ہیں۔اکثر رئیس عربی حضرات اپنی پر حجاب بیگمات کے ساتھ شاپنگ
کرتے نظر آتے ہیں۔نئے سال کی رات میں بازاروں اور شاپنگ سنٹرز میں کوئی ہلڑ
بازی دیکھنے میں نہیں آئی۔گو کہ آتش بازی وغیرہ سب کچھ ہوا مگر بہت مہذب
طریقے سے۔دوبئی کی پچاس فیصد آبادی انڈین تارکین وطن پر مشتمل ہے۔
دوبئی کے قابل ذکر مقامات میں مساجد سفاری پارک،مصنوعی برف کے میدان وغیرہ
شامل ہیں۔برج خلیفہ دوبئی کی بلند ترین عمارت ہے۔اسکا افتتاح جنوری دوہزار
دس میں ہوا تھا۔اس عمارت میں شاپنگ سنٹرز، کاروباری دفاتر،ہوٹلز،اور
پرائیویٹ پر تعیش رہائشیں موجود ہیں۔اسکی تعمیر پر آٹھ بلین ڈالرز کے
اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔دوبئی میں ہر ساحل پر الگ قسم کی ریت تھی۔
کہیں ریت کا رنگ سوجی جیسا تھا تو کہیں براﺅن۔سفاری پارک میں اونٹ کی سیر
کا مزہ صحراءکی سیر جیسا لگا۔
بہر حال اگر آپ کو بھی موقعہ ملے تو دوبئی کی سیر ضرور کریں یہ سیر یادگار
رہے گی۔ |