مرکزی دارالحکومت میں ان دنوںملک
کا مستقبل سمجھے جانے والے بچوں کی صحت ان دنوں شدید بحران کی شکار ہے۔یہ
بچے مختلف قسم کے نہ صرف امراض میں مبتلا ہیں بلکہ مناسب علاج کے فقدان کی
وجہ سے ہلاکت کی جانب بڑھے چلے جارہے ہیں۔دہلی کے سرکاری اسکولوں کے 50
فیصد سے زائد بچے ’بیمار‘پائے گئے ہیں۔ انہیں کسی نہ کسی طرح کی چھوٹی موٹی
بیماری لاحق ہے۔ یہ تحقیقات ایک سرکاری منصوبہ کے تحت کی گئی۔ حکومت کا
ماننا ہے کہ اگر عمر کے ابتدائی دور میں ہی اسکول میں زیر تعلیم بچوں میں
بیماری گرفت میں آ جاتی ہے تو اس کا علاج کرنا آسان ہوتا ہے اور انہیں صحت
مند کیا جا سکتا ہے۔
دہلی کی حکومت نے دارالحکومت کے تمام اسکولی بچوں کی صحت کو دھیان میں
رکھتے ہوئے حال ہی میں چچا نہرو صحت اسکیم شروع کی ہے۔ اس کا مقصد ابتدائی
دور میں ہی بچوں میں بیماری کا پتہ لگا کر اس کا مناسب علاج کرنا ہے۔ اس
پروجیکٹ سے پرائیویٹ اسپتالوں کو بھی جوڑا گیا ہے اور ان کا باقاعدہ ڈاٹا
بنایا جا رہا ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر اے کے والیہ کے مطابق دو ماہ کے اندر اندر
سرکاری ا سکولوں کے قریب 26411طلباءکا ہیلتھ چیک اپ کیا گیا ہے۔
اس کے تحت بچوں کی صحت میں خامیوں ، بیماریوں اور جسمانی معذوری کی باریکی
سے جانچ کی گئی۔ ڈاکٹر والیہ کے مطابق تقریبا 12770 بچوں میں بیماری پائی
گئی جبکہ 5527 کو مزیدبچوں کو جانچ کیلئے بھیجا گیا۔ زیادہ تر ’بیمار‘ بچوں
میں کمی کے علاوہ دانت اور گلے میں پریشانی وغیرہ کی کمی کا پتہ چلا۔ انہوں
نے کہا کہ بچوں کی صحت میں اتنی زیادہ گڑبڑ پائے جانے کے باوجود حکومت فکر
مند نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہم مزید الرٹ ہو گئے ہیں اور وقت پر ہی
ان بچوں کا علاج کرکے انہیں صحت مند کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر بچوں میں بیماری
کی سطح تشویش ناک نہیں ہے لیکن حکومت ان کی صحت پر مکمل توجہ دے گی۔ انہوں
نے بتایا کہ جن بچوں کی جانچ کی گئی ، ان میں سے 1180 بچوں کے معاملے میں
مزید کارروائی بھی کی گئی۔
وزیر صحت کے مطابق اس پروجیکٹ میں 77 سرکاری اور 19 پرائیویٹ صحت ٹیموں نے
تعاون دیا۔ اب تک 20 اسکولوں میں یہ کام مکمل کر لیا گیا ہے اور 37 میں
جاری ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت دہلی ، دہلی میونسپل کارپوریشن ، دہلی
چھاؤنی کے اسکولوں کے طلباءسمیت سبلا پروگرام کے تحت لڑکیوں تحقیقات کی
جانی ہے۔ ان سب کی تعداد ملا کر 14.74 لاکھ ہے۔
دوسری جانب بچوں میں امراض قلب کا بھی خطرہ بڑھ گیاہے۔مثال کے طور پرننھا
نپن زندگی کی دس بہاریں بھی نہیں دیکھ سکا کہ اور اس کی زندگی پر بریک لگ
گیا۔ دل کی بیماری سے نو سال کے بچے کی موت دہلی-این سی آر میں ایک خوفناک
المیہ کو اجاگر کر رہی ہے۔ دل دہلا دینے والی خبر یہ ہے کہ دارالحکومت
اوراطراف کے شہری علاقوں میں ہر سال 25 ہزار سے زیادہ بچے مادرزاد ہی دل کے
مرض لے کر پیدا ہو رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ 98 فیصد
ایسے بچے علاج کے فقدان کی وجہ سے جی نہیں پا رہے ہیں۔
ایمس ، پی جی آئی جیسے کچھ اسپتالوں کا ذکر چھوڑ دیں تو حکومت آزادی کے بعد
چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود سرکاری ہسپتالوں میں دل کے علاج کا انتظام نہیں
کرسکی ہے۔ دل کی بیماری لے کر پیدا ہو رہے بچوں کی بدقسمتی ہے کہ غریب تو
غریب ، امیروں کے گھر میں بھی انہیں وقت پر علاج نہیں مل پا رہا ہے۔ اسی
وجہ سے ہزاروں بچے موت کے منہ میں سماتے چلے جا رہے ہیں۔ پیدائش کے وقت
بیماری کی تلاش ، علاج میں تاخیر اور پھر مہنگا علاج بیماری معصوم ننھے
منوں کی زندگی کے آڑے آ رہا ہے۔ یشودا اسپتال کے انٹرنیشنل کارڈیولجی کنسل
ٹینٹ ڈاکٹر است کھنہ بتاتے ہیں کہ سب سے بڑی دقت بچوں میں دل کے مرض کا دیر
سے پتہ لگنا ہے۔ ایک عمر گزرنے کے بعد نرض کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر
راہل گوئل کے مطابق گاؤں میں دل کا مرض پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ
ہے۔ ہارٹ سوسائٹی آف انڈیا کی رپورٹ کہتی ہے کہ محض دہلی- این سی آر میں ہی
ہر سال 25 ہزار سے زائد نومولود یہ بیماری لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ صرف دو
فیصد بچے ہی علاج کروا پا رہا ہے۔ یعنی 98 فیصد بیمار بچوں کو علاج کے
فقدان کی وجہ سے کسی نہ کسی وقت دنیا چھوڑنی پڑ رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق پیدائش سے دو سال تک دل کے مریض بچوں کی سرجری ہو جانی
چاہئے۔ دو سے تین بر کی عمر کے دوران ایسے بچوں کی سرجری تک کرنی پڑ سکتی
ہے جبکہ ایک سرجری کا خرچ کم سے کم تین لاکھ روپے آتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں
میں سرجری کے انتظام ہی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں غریب آدمی ہی کیا ، امیر
بھی بیمار بچوں کا علاج نہیں کروا پاتے۔ نپن کی موت کے پیچھے ہائپر ٹرافک
کارڈیو مایوپےتھی نام کی بیماری کار فرماہو سکتی ہے۔
بچوں کے عارضہ قلب کے ماہر ڈاکٹر دنیش یادو نے بتایا کہ جےنےٹک کی وجہ سے
بھی بچوں کے دل کی دھڑکن رک سکتی ہے۔شریانوں میں کولیسٹرول لے کر پیدا ہونا
اور پیدائش کے ساتھ ہی شریانوں میں بلاکیج دل کی دھڑکنوں کو بعد کے برسوں
کے معمول کو خراب کر دیتا ہے۔ 7 سے 18 سال تک کولیسٹرول بڑھنے کے ساتھ ہی
یہ دقتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ پیدائش کے وقت دل ٹھیک ہو اور کم عمر میں ہارٹ
اٹیک ہو جائے ، یہ دونوں باتیں ممکن نہیں ہیں۔
دل کے امراض کے ماہر ڈاکٹر دھیریندرسنگھانیہ بتاتے ہیں کہ بچوں میں فزیکل
ایکٹیوٹیز کی کمی ، کھانے پینے کی غلط عادتیں ایسی مہلک ہوتی ہیں جو
بیماریاں بڑھا رہی ہیں۔کولیسٹرول بڑھنے سے نو عمری میں دل کی بیماریوں کا
خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بچوں کا دھیان کھیل کود ، ایکسر سائز اور اچھی غذا دینے
کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کے سینے میں درد ، تیز دھڑکن ، تھکان ، کمزوری ،
سانس پھولنن جیسی دقتیں دیکھیں تو فوری طور پر ان کی جانچ کروانی
چاہئے۔بچوں کے امراض کے ماہرڈاکٹر پی گرگ کہتے ہیں کہ چھوٹی عمر کے بچوں
میں ہارٹ اٹیک کی وجہ طرز زندگی میں تبدیلی کے علاوہ پیدائشی نقص بھی ہے
جبکہ پیدائشی بیماریوں کابر وقت علاج ہونا ضروری ہوتا ہے۔
پیدائشی امراض یا نقائض میں چندکیفیتیں خصوصیت کی حامل ہیں۔مثال کے طور پر
دل کے والوںValves کاسکڑا ہوا ہونا‘نسوں کا الٹا جڑاہوا ہونا‘ دل کے اندر
سوراخ کا ہونا‘ پھیپھڑے اور دل کی شریانوں کا جڑاہوا ہونا‘ دل میں جانے
والا خون پھیپھڑے میں جانا‘ ہارٹ پمپ کا دل سے الٹا جڑاہوا ہونا۔اس کی
شناخت کیلئے چند باتوں کا دھیان رکھنا ہوگا۔ ان میں چند علامتیں قابل ذکر
ہیں۔ مثال کے طور پر تیزی سے سانس لینا‘ جسم کا نیلا پڑنا‘ بار بار نمونیہ
ہو جانا‘ ماں کا دودھ پیتے وقت بچے کو پسینہ آنا۔ اطبا ءکے مشورہ اس سلسلے
میں اہمیت کے حامل ہیں ۔خاص طور پر بچوں کا پیدل چلنا ضروری‘ جنک فوڈ سے
گریز ہی کریں‘ گھر سے باہربیرونی کھیلوں سے ضرور رابط و ضبط ہو‘ گھی ، مکھن
وغیرہ زیادہ نہ دیں۔علاج کے نقطہ نظر سے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل
سائنسےس ، دہلی‘ رام منوہر لوہیا اسپتال ، دہلی‘ جی بی پت اسپتال ، دہلی‘
ایس جی پی آئی مناسب خیال کئے جاتے ہیں۔
فلیٹ کلچر میں بچے باغ باغییچوں میں کھیلنے کودنے کی بجائے گھروں میں مقید
رہتے ہیں۔ اس سے ان کی جسمانی نشوونما رک رہی ہے اور بیماریوں کا خطرہ بڑھ
رہا ہے۔ تاہم ، حالات کی نزاکت کے تحت اسکولوں میں اب ضرور کھیل کوداور
جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ڈی ایل ایف پرنسپل سیما جیرتھ
بتاتی ہے کہ ہر بچے کا اسپورٹس ایکٹیوٹی میں حصہ لیناضروری سمجھا گیا ہے۔
مہاراجہ اگرسین پبلک اسکول کی پرنسپل ڈاکٹر کلپنا مہیشوری کا کہنا ہے کہ ہے
کہ بچوں کو کھیل کود سے وابستہ کروا رہے ہیں۔ |