بچھڑا کچھ اس انداز سے کہ رُت ہی
بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا
”جناب حافظ مظفر محسن صاحب کے لئے“جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ شعر جناب
خالد شریف صاحب کا ہے اور عموماََ یہ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی دنیا
سے روٹھ جاتا ہے کسی کا پیارا اسے داغ مفارقت دے جاتا ہے ۔
جب محترم جناب خالد شریف صاحب نے اپنی کتاب حافظ مظفر محسن صاحب کو پیش کی
تو کتاب دیتے وقت یہ شعر لکھا حالانکہ راقم کو بھی اور ساتھ سید بدر سعید
صاحب کو بھی کتاب کے اوپر یہی شعر لکھ کر پیش کیں ،لیکن ان کی عبارت میں
کچھ فرق تھا بدر سعید نے اس وقت کہا کہ ابھی تو حافظ صاحب ہمارے درمیان
موجود ہیں ابھی سے خالد شریف صاحب نے انہیں محروم بنا دیا ہے تومیرے ذہن
میں یادوں کے دریچے کھلتے چلے گئے کہ کیسے حافظ صاحب کے ساتھ رابطہ ہوا تھا
اور پھر کیسے یہ تعلق مضبوط ہوتا چلا گیا مجھے یاد ہے وہ ذرا ذرا،جب میں
حافظ صاحب کی تحریر اردو پوائنٹ اور اردو سخن پر پڑھا کرتا تھا پھر میں نے
بھی لکھنا شروع کر دیا ایک دن فیس بک پر حافظ صاحب کے ساتھ رابطہ ہوا تو
سلام و احوال کے بعد ایک دوسرے کے کانٹیکٹ نمبر لئے پھر فون پر بات چیت
شروع ہوئی اور اس کے دو دن بعد حافظ صاحب نے ہمیں اپنی ملاقات کا اعزاز
بخشا ،مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے کہ جب میں نے انہیں ملاقات کرنے کے لئے فون
کیا تو انہوں نے بڑی محبت سے ادبی چوپال ناصر باغ میں آنے کی دعوت دی جہاں
محترم جناب حسن عباسی صاحب کے اعزاز میں ایک شام منائی جا رہی تھی اور حافظ
صاحب وہاں مہمان خصوصی تھے ان کے لبوں پر ایک خوشگوار مسکراہٹ تھی جو کہ ان
کی شخصیت خاصہ ہے وہ شام جیسے جناب حسن عباسی کے لئے خاص تھی تو وہی شام
میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی وہیں پہ ہی میری پہلی ملاقات بدر سعید
سے ہوئی تھی ۔
پھر ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا ہر دوسرے دن حافظ صاحب کے آفس پہنچ جاتا
جہاں وہ بڑی محبت سے ملتے ان کے آفس پہنچ کر ایسا لگتا کہ کسی ادبی بیٹھک
میں پہنچ گیا ہوں کیونکہ وہ ایک محفل یاراں سجائے ہوتے تھے جس میں کبھی
جناب شعیب مرزا صاحب آجاتے تو کبھی اس بزم یاراں میں جناب فرحت عباس شاہ
جلوہ افروز ہوتے کبھی باقی احمد پوری سے یہی ملاقات ہوتی تو کبھی گل نوخیز
اختر سے یہیں تعارف ہوجاتااور تو اور کراچی سے بھی کبھی ایم مجاہد اس محفل
کو چار چاند لگا دیتے تو کبھی فیصل آباد سے عادل گلزار اس بزم کا حصہ بن
جاتے،خیر ایک لمبی لسٹ ہے کیونکہ حافظ صاحب ایک محبت کرنے والی شخصیت ہیں ۔
حافظ صاحب ایک ادبی شخصیت ہیں طنز و مزاح میں ان کا کافی نام ہے اور طنز و
مزاح کے حوالے سے ان کی پہچان ہے مجھے کہیں سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ انہیں
طنزو مزاح پر ڈاکٹریت کی اعزازی ڈگری بھی مل چکی ہے لیکن وہ اس بات کی
تردید کرتے ہیں جہاں تک میرا خیال ہے کہ وہ ڈاکٹر عبدالرحمان ملک اور ڈاکٹر
بابر اعوان کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھتے
،حافظ صاحب کو کسی نے کہہ دیا ہے کہ آپ کا پیٹ کافی نکل چکا ہے واک کیا
کریں تاکہ آپ فٹ رہیں ،واک کے لئے وقت نکالنا ان کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے
کیونکہ وہ بہت مصروف انسان ہیں ایک دن رات کو ایک بجے نہ جانے کون سا خواب
دیکھا کہ مجھے کال کی کہ جلدی جلدی باغ جناح پہنچیں تین چکر لگانے ہیں میں
سمجھا شاید نیند میں ہیں اور مذاق کر رہے ہیں وہ تو بیس منٹ بعد جب دوبارہ
کال آئی تو کہنے لگے ملک صاحب آپ نہ آئیں میں واپس جا رہا ہوں کیونکہ باغ
جناح کا گیٹ بند ہے یہ بات کہنے کے بعد فون بند کر دیا دوسرے دن صبح جب
ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ آج واک کرنا بھول گیا تھا رات کو جب آنکھ
کھلی تو اس وقت یاد آیا ،حافظ صاحب ایک مہربان شخصیت کے مالک ہیں اللہ کرے
ان کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رہے اور ہم اپنی زندگی میں کبھی یہ
نہ کہہ سکیں
بچھڑا کچھ اس انداز سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا۔ |