سلطان صلاح الدین ایوبی

نام سلطان صلاح الدین ایوبی
تاریخ پیداش 1156ئ
وہ کرد نسل سے تھا۔ تاہم سلطان کا باپ نجم الدین آذربائیجان کار ہنے والا تھا۔وہ جوانی میں بغداد سے چلا آیا جہاں اپنی ذہنی صلاحیت اور جسمانی قابلیت سے اسے قلعہ تکر یت کی قلعداری کا منصب مل گیا۔ لیکن اسے قلعہ داری چھوڑنی پڑی اور وہ مصیبت اور پریشانی کے عالم میں اپنے چھوٹے بھائی اسدالدین شیر کوہ کوساتھ لے کر موصل کے حاکم اتابک شہید زنگی کے پاس چلا گیا۔ اتابک کے معنی اتا لیق کے ہیں ۔ اصل میں حکومت ان غلاموں کی تھی جنہیں سلجو قیوں نے اپنی وسیع وعریض سلطنت کے دوردارعلاقوں میں فوج کے مختلف مناسب پر مقرر کرنے کے لیے خریداتھا۔ جب سلاطین سلاجقہ کمزور ہو گئے اور خانہ جنگیوں سے سلطنت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور یہی غلام جنہیں اتا بک کہا جاتا ہے شہزادگان سلاجقہ کے سیاسی اتالیق بن گئے اور تھوڑے ہی دنوں بعداپنی حیثیت سے فائدہ اٹھاکر سلطنت کے مالک بن گئے ۔سلطان صلاح الدین تکر یت نامی ایک شہر میں جو بغداد اور موصل کے درمیان دریائے دجلہ کے مغربی کنارے پر آباد ہے 1156میں پیداہوا جس زمانے میں اس کے باپ نجم الدین کو قلعداری سونپی گئی اس کی عمر گیارہ سال کی تھی ۔ یہ زمانہ مصر میں فاطمیوں کی خلافت اور بغداد میں عباسیوں خلافت کا تھا۔ 1182میں مصر کے وزیرشاد راور مصر کے سابق وزیر ضرغام کے درمیان معر کہ آرائی جس میں شادرنے شکست کھائی اور وہ بجائے مصر کے پھر د مشق کے حاکم عمادالدین کے بیٹے نور الدین زنگی کے پاس چلا گیا۔ نور الدین زنگی نے اس کی بڑی عزت افزائی کی اور اس کی مدد کے لیے اسدالدین شیر کوہ کو فوج دے کر مصر کی طرف روانہ کر دیا ۔ اس لڑائی کے بعد اسد الدین شیر کوہ اپنے بھتیجے صلاح الدین کے ہمراہ1183 میں دمشق واپس آگیا اور شادر نہایت شان وشوکت سے مصر میں وزارت کا کام پھر سے کرنے لگا ۔ شادر نے سلطان نورالدین زنگی سے وعدہ کیا تھا کہ لڑائی میں کامیاب ہونے پر فوج کشی کا خرچ اور مصر کی آمدنی کا تیسرا حصہ اسد الدین شیر کوہ کو پیش کرے گا لیکن اب وہ اپنے وعدے کو بھول گیا اور فرانس کو اپنا دوست بنالیا۔جب سلطان کو شادر کی بد عہدی اور فرانس کے عیسائیوں سے دوستی کا پتہ چلا تو اس نے اسد الدین شیر کوہ اور اس کے ساتھ اسکے بہادر بھتیجے صلاح الدین کو فوجیں دے کر مصر کی طرف روانہ کر دیا اور خود فرانس کی طرف چل پڑا۔اسد الدین شیر کوہ اور صلاح الدین نے مصر اور فرانس کی فوجوں کاخوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ حتی کہ سب کو مار بھگایا۔ یہاں سے فارغ ہو کر اسد الدین سکندر یہ کارخ کیا اور اسے فتح کرکے صلاح الدین کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑ ھ گیا اور شہر صعید میں جاکر ٹھہر گیا۔ دومہینے بعد شادر نے اسنکدریہ کے عیسائیوں سے مل ملا کر اور شیر کوہ کے خلاف سازش کر کے سکندریہ پر چڑھائی کردی ۔ شیر کوہ کو جب اس کاروائی کا پتہ چلا وہ صعید سے اس کے مقابلے آگیا۔ آخر کار فیصلہ اس پر ہوا کہ سکندریہ کو پچاس ہزار دینارپر واپس کر دیا جائے ۔ پھر شیر کوہ اور صلاح الدین سکندریہ چھوڑ کر دمشق واپس چلے گئے ۔جب فاطمی خلیفہ عاضد الدین اللہ نے مصر کے اندرونی حالات کا یہ نقشہ دیکھا اور مصر کی بیرونی حالت یہ تھی کہ شہر سے باہر عیسائیوں کی فوجیں ڈیرے ڈالے پڑی تھیں تو اس نے سلطان نور الدین کے نام ایک خط لکھا کہ عیسائیوں نے مصر کا محاصر ہ کیا ہوا ہے اور چاہتے ہیں کہ مصر پر قبضہ ہو جائے ۔ ایسے نازک موقع پر جبکہ خلافت سخت خطرے میں ہے میں آپ سے حمیت پر مدد چاہتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مصیبت مصر سے ٹل گئی تو سلطنت کا تیسرا حصہ مدد کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا ۔ اس کے علاوہ شیر کوہ مصر افواج کا افسر اعلی مقرر کیا جائے گا۔

عیسائیوں نے جب اپنے مخبروں کی زبانی سنا کہ شیر کوہ اوراس کا بھتیجا صلاح الدین لشکر لیے مصر کی طرف آرہے ہیں تو وہ مصر چھوڑ کر بھاگ نکلے اور صلاح الدین ساٹھ ہزار کا لشکر لیے فاتحانہ شان سے مصر میں داخل ہو گئے ۔ مگر شیر کوہ وزارت پر فائز ہونے کے بعد کچھ دن تک جینے کا موقع نصیب ہو سکا ۔ 1188میں دنیا سے چلا گیا مگر جاتے ہوئے اپنی غیر معمولی شجاعت اور انداز تدبر کی دھاک ضرور دلوں پر بٹھاتا گیا۔ فاطمی خلیفہ عاضد نے تمام دعویداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے مصر کی خلافت کا قلمدان صرف صلاح الدین ہی کے سپرد کر دیا اور ملک النا صر کا خطاب دیا۔

اس زمانے میں جب صلاح الدین کو مصر کی خلافت ملی اس کی عمر بتیس برس تھی ۔ صلاح الدین نے وزارت کی مسند پر بیٹھتے ہی سب پہلا کام یہ کیا کہ اس کے چچا شیر کوہ نے جس قدر دولت جمع کی ہوئی تھی سب کی شام کے لشکر میں تقسیم کردی اور مصر کے خزانے سے بھی مصر کی فوج کی تالیف قلوب کے لیے مال و دولت اور جاگیر یں عطا کیں ۔ اس کے علاوہ فوجی افسروں کے عہدوں میں بھی ترقیاں کیں ۔

صلاح الدین کی وزارت میں جو سب سے بڑا کارنامہ انجام دیا گیا ۔ یہ تھا کہ رعیت کی جان و مال کی حفاظت اور ان کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا۔ ان پر عدالت کے دروازے ہمہ وقت کھول دیے ان کاموں سے عوام کے دلوں میں صلاح الدین کی محبت نے گھر کر لیا۔ مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی کے سبب جو علاقے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے جب ان کے واپس لینے کی آرزو ئیںصلاح الدین کے دل میں چٹکیاں لینے لگیں تو 1190میں صلاح الدین ایک فوجی منتظم اور سپہ سالار کی حیثیت سے بڑھا اور ایک ایک کر کے وہ تمام علاقے لیتا چلا گیا جو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکے تھے ۔ صلاح الدین نے سب سے پہلے عسقلان کا رخ کیا۔ کچھ ہی فاصلے پر شاہ فرانس اور مختلف عیسائی گروہوں کے لشکر وں کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی ۔ شاہ فرانس اور عیسائی لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا اور صلاح الدین فتح ونصرت کے شادیانے بجاتا ہوا اعسقلان کی مہم کو یہیں چھوڑ کر ایلہ پر حملہ کی تیاری کرنے کے لیے مصر واپس چلا گیا۔ ایلہ 1190میں صلاح الدین کے قبضے میں آگیا۔ ایلہ کی مہم سے فارغ ہونے کے بعد صلاح الدین نے دوبرس مصر کے اندرونی نظم و نسق کا جائزہ لینے اور اس کی خرابیوںکو دور کرنے میں صرف کیے ۔ بحری اور بری فوجوں کو درست کیا اور ایک حد تک مالیات کے صیعے کی بھی اصلاح کی ۔ اس کے بعد 1192میں شام کی جانب شہر کر ک پر چڑھائی کی ۔ مگر بعض ملکی معاملات کی پیچیدگیوں کے سبب اسے محاصر ہ اٹھانا اور مصر واپس آنا پڑا۔ صلاح الدین 1194میں دمشق جا پہنچا ۔ ایسے موقع پر جبکہ مسلمانوں میں تخت نشینی کے مسئلہ پر سخت نزاع برپا ہو رہا تھا صلاح الدین کی آمد مسلمانوں کے لیے عید سے کم نہ تھی ۔ عیسائیوں کے ساتھ سلطان کے مجاہدات کا آغاز 1198میں ہو اجب عیسائیوں نے ایک لشکر جرارلے کرد مشق کار خ کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے انہیں روکنے کے لیے اپنے بہادر بھیتجے فرخ شاہ کو ایک لشکر دے کر بھیج دیا اور پھر خود بھی لشکر لے کے عیسائیوں کے حملے کی جواب دینے کے لیے کسی دوسرے راستے سے چل دیا ۔ تاہم عیسائی سلطان کے پر جوش حملے کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ قلعے پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ۔ 1203میں سلطان نے بیسان پر چڑھائی کی ۔ یہاں کے عیسائی شہر خالی کر کے پہاڑوں پر چلے گئے اور وہیں سے تیر پھینکنے لگے چار پانچ دن اسی حالت میں گزرگئے۔بالاخر مسلمانوں نے بیسان پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد سلطان جالوت نام کے ایک شہر کی سرحد میں داخل ہوا۔ جس روزسلطان اپنے لشکر کو لے کر پہنچا تھا اس کے آنے کا عیسائیوں کے دلوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ تمام دن خیموں میں پڑے رہے اور خوف کے مارے باہر نہ نکل سکے ? اور دوسرے دن لڑائی سے طرح دے کر اپنے اپنے مقامات کی طرف نکل بھاگے 1206تک سلطان نے عیسائیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی عداوت اور مخالفت کو روکنے کے لیے متعدد شہروں کو فتح کیا ۔ 1207میں سلطان ایک بہت بڑے معرکے کے لیے تیار ہوا اپنے بیٹے ملک الافضل کو سپہ سالار مقر ر کیا ۔ فوج کا ایک دستہ اپنے ساتھ لے کر اسلامی لشکر عکا کی طرف بڑھنے کا حکم دیا اور خود بصر ے کی طرف چل پڑا ۔ پرنس آرنلڈوالئی ار تاط نہایت بد عہد تھا۔ وہ اکثر حاجیوں کے قافلے لوٹ لیتا ۔ اس راستے سے چونکہ مسلمانوں کا ایک قافلہ نکلنے والا تھا اس لئے سلطان کے بروقت پہنچ جانے سے پرنس آرنلڈ کے ہوش و حواس درست ہو گئے اور قافلہ صحیح و سلامت وہاں سے گزر گیا۔اب سلطان صلاح الدین جود مشق اور مصر سے بیت المقدس تک کے تمام راستوں اور اس کے شہروں پو قبضہ کرتے ہوئے آگے بڑھا ہے تو بیت المقدس کے غربی جانب جا پہنچا ۔ اس وقت عیسائیوں کا بیت القدس پر نہایت مضبوظ اور مستحکم قبضہ تھا اور شہر میں ایک لاکھ عیسائی موجود تھے ۔ سلطان نے پانچ روز تک خود چل کر فصیل کا معائنہ کیا۔ مگر فسیل کوہر جگہ سے مضبوظ اور مستحکم پایا۔ آخر کار شمالی جانب ایک مقام پر تجویر کیا گیا۔ جس کے بالکل سامنے کلیسائے صیحون واقع تھا اور نیایت چپکے چپکے رات کی تاریکی میںمورچے قائم اور منجنیق نصب کر لیے صبح ہوتے ہی مسلمانوں نے منجنیق سے پتھر پھنکنے شروع کر دیے تین دن اسی طرح گزر گئے ۔ عیسائیوں نے مسلمانوں کاخوب مقابلہ کیا۔لیکن بالاخر انہیں مسلمانوں سے صلح کر تے ہی بنی ۔ چنانچہ انہوں نے صلح کی درخواست پیش کی ۔ اس موقع پر سلطان کی بار گاہ میں روانہ کیا، جہان اس نے حاضر ہو کر سلطان کی خدمت میں صلح کی درخواست پیش کیا۔ اس موقع پر سلطان نے عفوردرگزر کرنے کو انتقام لینے پر ترجیح دی اور حکم دیا کہ فی مر دوس دینا ر فی عورت پانچ دینار اور فی بچہ دو دو دینا فدیے کے طور پر لے کر بیت لمقدس کے تمام عیسائیوں کو رہائی دی جاسکتی ہے اس کے علاوہ جو شخض اپنی رضا و رغبت سے مسلمانوں ہونا چاہیے وہ اسلام قبول کر کے ہمارا بھائی بن سکتا ہے۔ اس کے حقوق بھی وہی ہوں گئے جو ہمارے ہیں اس کے بعد سلطان دمشق واپس آگیا۔ اور دمشق اسے کچھ ایسا پسند آیا کہ پھر کبھی مصر جانے کا خیال بھی نہ کیا۔ 1213میں ستاون برس کی عمر میں سلطان اللہ کو پیارا ہو گیا۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381928 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.