نام بختیار قطب الدین
وجھ شھرت
آپ کاکی کے نام سے مشہور ہو گئے۔
ماورالنہر میں پیدا ہوئے۔ نام بختیار قطب الدین لقب ، کاکی خطاب تھا
۔شجرئہ نسب یوں ہے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، ابن کمال الدین بن موسی
بن احمد اوشی بن کمال الدین بن محمد بن احمد بن رضی الدین بن حسام الدین بن
رشید الدین بن جعفر بن نفی الوجود بن علی موسی رضا بن موسی کاظم بن جعفر
صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن امام حسین بن حضر ت علی۔کاک کہتے
ہیں روٹی کو اس سے متعلق حکایات تو بڑی دلچسپ اور عجیب و غریب ہیں ۔ خلاصہ
ان سب کا یہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی بیگم صاحبہ سے ایک روز ایک بنیے کی بیوی
نے طنزا کہ دیا کہ اگر میں تمہیں قرض نہ دوں تمہارے بچے بھوکوں مر جائیں،
آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے قرض لینے سے روک دیا۔ اور فرمایا کہ
روزانہ حجرے کے طاق سے بسم اللہ الرحمن الر حیم پڑھ کر جس قدر کاک کی ضرورت
ہو لے لیا کریں ۔ اور بچوں کو کھلا دیا کریں ۔ چنانچہ اسی واقعے کی بنا پر
آپ کاکی کے نام سے مشہور ہو گئے۔ خواجہ بختیار کاکی کاسلسہ نسب 14 واسطوں
سے جناب امام حسین سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد محترم جناب خواجہ کمال الدین
احمد بھی ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ خواجہ بختیار کاکی ابھی ڈیڑھ سال ہی کے
تھے۔ کہ آپ کے والد ماجد انتقال کر گئے۔ اور گھر کا تمام بوجھ آپ کی والدہ
محترمہ کے کندھوں پر آ ن پڑا۔ابو حفص نام کے ایک باکمال بزرگ سے جناب خواجہ
صاحب نے علوم دین حاصل کیے۔ پھر اپنی خداداد لیاقت سے تھوڑے ہی دنوں میں
تبحر علمی پیدا کر لیا۔ جب خواجہ معین الدین چشتی پھرتے پھراتے اصفہان آئے
تو آپ ان کے مرید ہو گئے۔ مرید کیا ہوئے۔ پھر عمر بھر کے لیے انہی کے ہو
رہے۔ جب خواجہ معین الدین چشتی واپس ہندوستان آئے تو آپ سے ان کی جدائی
گوارا نہ ہو سکی۔ چنانچہ آپ بھی وطن کو خیر آباد کہہ کر ملتان ہوتے ہوئے
جناب شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی اور شیخ جلال الدین تبریزی کی مہمانی
میں رہ کر اپنے پیرو مرشد جناب خو اجہ معین الدین چشتی کی خدمت میں حاضر ہو
گئے۔سلطان شمش الدین التمش کا عہد حکومت تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ جناب
خواجہ بختیار کاکی دہلی تشریف لائے ہیں ۔ اسے بزرگوں سے بڑی عقیدت اور محبت
تھی۔ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ جنگل سے شہر چلے چلیں۔
اور ہمیں اپنی خدمت کرنے کا موقع دیں۔ لیکن آپ نے اس سے عذر کر دیا اور کہا
کہ شہر میں پانی کی قلت ہے۔ اس لئے میرے لیے یہی جگہ مناسب ہے۔ سلطان کا
قاعدہ تھا کہ ہفتہ میں دو بار ضرور خدمت میں حاضر ہوتا۔ اور اس بات کا طالب
رہتا کہ آپ کسی چیز کی فرمائش کریںتو میں لا کر حا ضر کر دوں۔ لیکن آپ نے
بادشاہ سے کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ لوگ جوق درجوق آپ کی خدمت میں حاضر
ہوتے اورفیض پاتے ۔ آپ کی برکتوں کا یہاں تک اثر ہوا کہ ایک مرتبہ جب خواجہ
معین الدین آپ سے ملنے کے لیے دہلی تشریف لائے اور واپسی میں آپکو بھی اپنے
ساتھ لے جانا چاہا تو ہر طرف سے خلق خدا جناب خواجہ کی خدمت میں آ ،آ کر
عرض کرتی کہ بابا بختیار کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں انہیں دہلی ہی میں رہنے
دیں۔ چنانچہ لوگوں کے اصرار پر آپ کو اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔ جب شیخ الاسلام
مولانا جمال الدین بسطامی کے انتقال پر مر حوم کا عہدہ خالی ہو گیا تو
سلطان التمش نے آپ سے در خواست کی کہ شیخ الا سلامی کا منصب قبول فرمائیں۔
آپ نے فرمایا ہم درویشوں کو اس سے کیا تعلق؟ جناب خواجہ بختیار کاکی کا
قاعدہ تھا کہ وہ اوراد و وظائف گوشہ تنہائی میں کرتے تھے۔ اور اپنے مریدوں
کو بھی یہی رائے دیتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اپنے خلیفہ و مرید جناب شیخ فرید
الدین گنج شکر سے بھی یہی فرمایا کہ اوراد و وظائف علیحدگی میں نہ کرنے سے
شہرت ہوتی ہے۔ اور شہرت ہم فقیروں کے لیے سخت آفت ہے۔خواجہ بختیار کاکی نے
234ھ میں انتقال کیا۔ اور دہلی (مہر ولی)ہی میں مدفون ہوئے ۔ طبعیت کا عالم
یہ تھا کہ باوجود تنگ دست ہونے کے کبھی کسی سائل کو مایوس نہیں جانے دیا۔
لنگر خانے میں جو چیز آتی اسے فورا فقرا و مساکین میں تقسیم کر دیتے تھے۔
اور جس روز کوئی چیز نہ ہوتی تھی خادم سے فرماتے اگر آج لنگر میں کچھ بھی
نہیں تو پانی کا دور چلائو۔ تقسیم اور عطا و بخشش سے آج کا دن بھی خالی
کیوں جائے۔ شان فقر یہ تھی کہ ایک مرتبہ شاہی حاجب اختیار الدین ایبک آپ کی
خدمت میں حاضر ہوا اور کئی گائون بطور نذر پیش کیے۔ آپ نے فرمایا جس کا دل
اللہ کی یاد سے آبا د ہو وہ گائون لے کر کیا کرے گا۔ چنانچہ ائندہ کے لیے
تنبیہ کر کے واپس کر دیے۔ آپ کے نام سے دو کتابیں بیان کی جاتی ہیں ۔ ایک
دیوان ، دوسری فوائد السلوک ۔ جن میں آپ کے ملفوظات ہیں اور انہیں آپ کے
خلیفہ و مرید جناب فرید الدین گنج شکر نے ترتیب دیا ہے۔ |