شیخ الحدیث سید احمد علامہ ابو البرکات

 نام سید احمد
تاریخ پیداش 1886
وجھ شھرت علم وفضل
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ مدرستہ قوت الاسلام (الور ) میں حاصل کی۔ پھر مراد آبادی کے مدرسہ اہل سنت مراد آباد میں داخلہ لیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے قائم کردہ مدرستہ قوت الاسلام (الور ) میں حاصل کی او30 اپنے والد سے صرف ونحو ، اصول ، منطق اور فلسفہ کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر حضرت مولانا حکیم سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے مدرسہ اہل سنت مراد آباد میں داخلہ لیا اور درس نظامیہ کی آخری موقوف علیہ کتابیں پڑھیں ۔ جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں آپ نے حضرت کے زیر تربیت مناظرہ توقیت فلکیات اور فلسفہ میں بھی مہارت حاصل کی ۔ فن طب کی کچھ کتابیں بھی حکیم سید محمد نعیم الدین حکیم حاذق سے پڑھیں ۔ پھر طب باقاعدہ تعلیم وتربیت شفاالامراض کے منصف حکیم مولانا نور کریم کے شاگرد سے حاصل کی اور ان کے مطب مراد آباد میں مطب کی عملی تربیت بھی حاصل کی ۔

جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے والد سید دیدار علی شاہ سے دور ہ حدیث پڑھا اور احدیث کی خصوصی سند وتمام سلاسل اولیا کے معمولات وظائف کی اجازت وخلافت حاصل کی ۔ 1915میں بریلی شریف حاضر ہوئے اور کچھ عرصہ اعلی حضرت فاضل بریلوی کے زیر تربیت رہے ۔ آپ دوسرے علماکے ساتھ فتوی نویسی پر مامور ہوئے جس کی نگرانی اعلی حضرت خود فرماتے تھے، فتوی رضویہ کی جلد اول اور بہار شریعت کے پہلے حصے آپ کی نگرانی میںطبع ہوئے ۔ اعلی حضرت نے تمام علوم عالیہ اسلامیہ قرآن وحدیث وفقہ کی خصوصی سند اپنے دست خاص سے لکھ کر عنایت فرمائی۔ 1920کے آغاز میں جب حضرت سید دیدار علی شاہ مستقل سکونت کے ارادہ تشریف لائے تو آپ کی جگہ حضرت ابو البراکات جامع مسجد آگرہ کے خطیب ومفتی مقرر ہوئے ۔ یہ دور بڑا پر آشوب تھا ۔ نت نئے فتنے جنم لے رہے تھے ۔ حضرت ابو البراکات نے دوران خطابت آگرہ درس وتدریس وعظ ونصیحت کے سلسلے کو بحسن وخوبی انجام دیا اور مسلک اہل سنت والجاعت کی تبلیغ واشاعت کے لئے کوشاں رہے۔1933میں جامع مسجد مزار حضرت داتا گنج بخش کی خطابت کے لئے آپ لاہور تشریف لائے ۔ اسی دوران میں دارالعلوم حزب الاحناف کی ابتدا ہوئی تو مولانا ابوالبرکا ت کو اس مدرسے میں مدرس مقرر کیا گیا ۔ آپ کے علم وفضل کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دوسرے شہروں سے طالبان علوم دینیہ لاہور پہنچنے لگے اور آپ کے علم وفضل سے استفادہ کرنے لگے ۔ ١٩٢٦میں آپ نے لوکور ورکشاپ لاہور کی مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا اور ٥٢ سال تک مسلسل یہ خدمت انجام دیتے رہے ۔ تحریک پاکستان کی حمایت ونصرت کا مرحلہ آیا تو آپ نے دو قومی نظریہ اور قرار داد پاکستان کی بھر پور حمایت کی ۔ کانگرسی علماکی تردید اور نظریہ پاکستان کی تائید کے لئے اپنے دارالعلوم کے سالانہ جلسوں کو وقف کر دیا ۔ ٣٠ اپریل ١٩٤٦آل انڈیا سنی کانفرنس کا بمقام شاہی باغ فاطمان بنارس میں انعقاد ہوا اور پاکستان کی حمایت میں پر زور قرار داد منظور کی گئی اس قرار داد پر مولانا ابوالبرکات کے علاوہ تقریبادو ہزار قرار علمااور مشائخ نے دستخط کئے ۔ قیام پاکستان کے بعد نظام مصطفی کے قیام ونفاذاور اہل سنت کی تعمیر وتنظیم کے لئے ہر ممکن سعی فرمائی ۔١٩٤٩میں جب پہلی دستور ساز اسمبلی قائم ہوئی تو آپ نے قرار داد مقاصد کی تربیت میں حصہ لیا اور پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ وقیام کے لئے ہر ممکن کوشش کی ۔ مولانا ابوالبرکا ت نے اپنی تدریسی وتبلیغی مصروفیات کے باوجود ہر سیاسی ودینی تحریک کا جائزہ لیا اور اپنا دینی وملی فرض کماحقہ ادا فرمایا ۔ قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد جس قدر تحریکیں اٹھیں ۔ آپ نے ان میں اپنا کردار ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ۔ تحریک خلافت ،شدھی، ترک موالات ،ہندو مسلم اتحاد،مسجد شہید گنج ،خاکسار تحریک، احرار کشمکش ،مجلس اتحاد ،تحریک آزادی ہنداور تحریک پاکستان وغیرہ جس قدر تحریکیں اٹھیں آپ نے بلاخوف شریعت اسلامیہ کی رو سے جو بات حق ثابت ہوئی اس سے عوام کو آگاہ کیا ۔شریعت کی پابندی اور سنت رسول کی پیروی ان کی طبیعت ثانیہ تھی ۔ ہر بات اور ہر کام میں احکام شریعت کا خیال رکھتے تھے ۔ ان کی پوری زندگی سنت رسول کی تصور تھی ۔ آپ کی موجودہ تصانیف درج ذیل ہیں ۔
١۔ فتح مبین
٢۔ دبوس المقلدین
٣۔ترجمہ تمہیدابوشکور سلمی
٤۔ مناظرہ تلون
٥۔ضیاالقنادیل
٦۔مناظرہ ترن تارن
٧۔اثبات قبہ جات
٨۔القول الصواب
آپ کے وہ فتوے جو ضبط تحریر میں آکر رجسٹرمیں درج ہو سکے وہ بھی متعدد جلدوں میں محفوظ ہیں اور ہر جلد تقریبا سوا دو سو صفحات پر مشتمل ہے ۔ آپ نے ١٩٧٨میں وفات پائی اور مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف گنج بخش روڈ نزد مزار حضرت داتا گنج بخش کے احاطے میں آسود خاک ہوئے ۔ حضرت ابوالبرکات کا شمار ان معدودے چند علماکرام میں ہوتا ہے جن کی علمی فضیلت تقوی وطہارت اور عظمت کردار کو اپنے پرائے سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ آسمان علم وحکمت کے مہردرخشاں تھے جس کی ضیاپاشیوں سے ہزار طالبان رشد وہدایت فیض یاب ہوئے ۔ آپ اپنے ان اوصاف حمیدہ کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے-
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1283166 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.