شاید بعض چیزیں کبھی پرانی نہیں
ہوتیں، بس اپنا رُوپ بدل کر دوبارہ سامنے آجاتی ہیں اور بالکل نئی معلوم
ہوتی ہیں۔ یہ بات جعل سازی کے حوالے سے بھی بالکل درست ہے۔ پاکستان میں جعل
سازی کاایشو کچھ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔ بس اب اور چیزوں کی طرح جعل
سازی میں بھی جدت آ گئی ہے۔ طریقہ واردات اب اتنے جدید ہو گئے ہیں کہ عام
آدمی تو رہے ایک طرف ادارے بھی عام طریقوں سے انہیں پکڑ نہیں سکتے۔ جدت کے
ساتھ ساتھ جعل سازی میں وسعت بھی آ گئی ہے۔ پہلے سنتے تھے کہ سونے میں ادنیٰ
دھاتوں کی ملاوٹ، دودھ میں پانی کی ملاوٹ اور مصالحوں میں اینٹ روڑے کی
ملاوٹ ہوتی ہے، اور اب سنتے ہیں کہ گھی، گوشت، دال سے لے کر ملتان کے سوہن
حلوے تک اور ڈگری، وزارت ادویات سے لے کر زہرتک ہر چیز میں ملاوٹ ہے یا
جعلی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ اخبار میں خودکشی کی کوشش کا ایک واقعہ شائع
ہوا تھا جو واقعے کی سنگینی سے ہٹ کرعوام میں ایک لطیفہ بن کر رہ گیا تھا....
شاید اکثر لوگوں کو یاد ہو۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ ایک نوجوان لڑکی نے
گھروالوں سے جھگڑے کے بعد گھر میں رکھی کیڑے مار دوا پی لی تھی ،جب اس لڑکی
کی حالت غیر ہونے لگی تو گھر والے اسپتال لے کر بھاگے۔ایمرجنسی میں اس کو
فوری طبی امداد دی گئی تو غیر متوقع طور پر وہ لڑکی ہوش میں آگئی۔بعد میں
جب اس دواکی جانچ کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس میں اصل دوا کی مقدار صرف دس
پندرہ فیصد تھی باقی جعلی آمیزہ تھا۔ قدرت کولڑکی کی زندگی منظور تھی،سو بچ
گئی۔ یوں یہ لطیفہ عام ہواکہ آج کل تو خودکشی کرنے کے لیے زہر بھی اصلی
نہیں ملتا!
یہ توجعلی زہرکی بات تھی لیکن اگر اس کے برعکس معاملہ زندگی بچانے والی
ادویات کا ہو تو اس کی سنگینی کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ
آدمی بھوکا رہ لیتا ہے، سر چھپانے کو کچھ نہ ہو تو چند چیتھڑے کسی میدان
میں تان کر گزارا کر لیتا ہے لیکن جب اس کے پیارے ‘ اس کے بچے بیمار ہوں تو
ان کی دوا کے لیے اپنا خون پسینا بہا کر اور نہ جانے کیا کیا جتن کر کے چند
پیسے اکٹھے کرتا ہے اور پھر اس خون پسینے کی کمائی سے جو دوائی ہاتھ میں
آتی ہے وہ نہ صر ف کوئی فائدہ نہیں دیتی بلکہ مضر صحت ملاوٹی اجزا کی وجہ
سے اکثر جان کے درپے ہو جاتی ہے....
اس وقت سب سے زیادہ لوٹ مار دواؤں کے کاروبار میں ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق
پاکستان میں 90فی صد ادویات دنیا بھر کے مقابلے میں اور خصوصاً علاقے کے
دوسرے ممالک کی بانسبت پندرہ سے پچیس فی صد مہنگے داموں فروخت ہور ہی
ہیں۔اور یہ بھی اس صورت میں ہے جب دوا سو فیصد اصلی ہو، ورنہ جعلی ادویات
میں تو نفع کا کوئی حساب ہی نہیں۔ اور نہایت ہولناک خبر یہ ہے کہ پاکستان
بھر میں تیس فیصد سے چالیس فیصد ادویہ جعلی فروخت ہو رہی ہیں۔مجرم اگرپکڑے
بھی جاتے ہیں تو قانونی اور انتظامی کمزوریوں کے سبب سزا سے بچ جاتے
ہیں۔پاکستان میں غیر معیاری اور جعلی ادویات کی پروڈکشن اور فروخت کی خبریں
کئی سالوں سے وقتاً فوقتاً سننے میں آتی رہتی ہیں، لیکن چند دنوں کی ہا ہو
کے بعد سب تازہ اور بریکنگ خبروں کے ہجوم میں دب کر رہ جاتی ہیں۔
21 ستمبر 2008ءکو اخبارات میں ایک خبر نمایاں شائع ہوئی تھی کہ ایف آئی اے
نے کھارادر کراچی کے علاقے ڈینسو ہال میں چھاپہ مار کر ڈھائی کروڑ روپے
مالیت کی جعلی دوائیں برآمد کرلی ہیں۔
اسی طرح پچھلے سال فروری 2011ءمیںبھی ملک کے تمام بڑے اخبارات میں ایک خبر
بڑے طمطراق کے ساتھ اشتہار کی صورت چھپی تھی ،جس کی رو سے پاکستان میں پہلی
بارایک ملٹی نیشنل فارما کمپنی نے سینٹرل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں غیر
معیاری قرار دی جانے والی ٹیبلٹ ڈسپرول (پیراسیٹا مول)کو واپس لینے کی
ہدایت جاری کی تھی۔انہوں نے ڈاکٹروں ، کیمسٹ اور فارما سسٹ سے کہا تھا کہ
مذکورہ دوا کی فروخت فوری بند کر کے کمپنی کو واپس کرد یں۔ کراچی میں اس
ٹیبلٹ کی مقدار 4کروڑ 90لاکھ بتائی گئی تھی جو اسپتالوں اور میڈیکل اسٹوروں
پر عام دستیاب تھی۔
آپ نے مندرجہ بالا خبر ملاحظہ کی.... کتنے لوگوں نے اس خبر کو سرسری پڑھا
ہو گا اور کتنے لوگوں نے اس کی سنگینی کو محسوس کیا ہو گا!
جب تک کمپنی کی طرف سے دوا کو واپس لیا گیا ہو گا۔ نہ جانے اس بیج کی کتنی
ٹیبلٹس فروخت ہو چکی ہوں گی اور معصوم لوگوں نے اسے بخار اور درد کے علاج
کے طور پر استعمال کیا ہو گا۔ان کا بخار اور درد تو دور ہوا ہو یا نہ ہوا
ہو لیکن دوا کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے کتنے ذیلی اثرات ان کو بھگتنا
پڑیں گے اس کی ذمہ داری حکومت سمیت کسی بھی ادارے نے نہ کبھی سمجھی اور نہ
دور دور تک اس کے امکانات ہیں!
ہم یہ بات پورے وثوق سے اس لیے کہہ سکتے ہیں.... کہ آج ایک سال بعد بھی
صورت حال پہلے سے زیادہ سنگین اور ہولناک ہو چکی ہے۔ لاہور کا حالیہ واقعہ
دیکھ لیں کہ ایک آدمی ایک سرکاری ادارے سے سرکاری دوا اس امید پر حاصل کرتا
ہے کہ مفت میں ا س کے دل کا علاج ہو گا لیکن وہ دوا اس کے دل کو ہمیشہ کے
لیے خاموش کرنے کا سبب بن جائے تو بتائیے اس سے زیادہ ہولناک مذاق کیا ہو
گا؟
پورے واقعے کا سیاق و سباق اور انکوائری رپورٹوں کا اب تک حاصل یہی ہے کہ
اس المیے کے پیچھے صرف غیر ذمہ داری اور لاپروائی کارفرما ہے،جس کی وجہ سے
ایک سو اڑتیس قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ہزاروں مریض ابھی بھی خطرے میں
ہیں،کیوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی انسپکشن کمیشن کی تازہ ترین انکوائری رپورٹ
سے پتہ چلتا ہے کہ یکم دسمبر 2011ءسے جنوری 2012ءتک پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف
کارڈیالوجی سے چھیالیس ہزار مریضوں نے یہ غیر معیاری ادویات حاصل کی
تھیں،جن میں سے اسکینڈل سامنے آنے پر صرف ساڑھے سات ہزار ان مریضوں کوجن کا
رابطہ نمبر موجود تھا انفارم کیا جا سکاکہ وہ مذکورہ ادویات کا استعمال
فوراً روک دیں، باقی اڑتیس ہزار مریضوں کا ریکارڈ مینٹین نہیں تھا یوں
انہیں انفارم نہیں کیا جا سکا۔ یوں ان اڑتیس ہزار مریضوں میں زندگی کا شدید
خطرہ موجود ہے جن میں تقریباً دو لاکھ غیر معیاری گولیاں بانٹی گئی
تھیں۔کیوں کہ اگر وہ قسمت سے ٹی وی یا اخبارات دیکھتے ہوں اور اس طرح ان
گولیوں کا استعمال ترک کر بھی دیں تو کیا وہ ان گولیوں کے ذیلی اثرات سے
محفوظ رہ پائیں گے جو اس وقت تک انہوں نے استعمال کرلی ہوں گی ۔ یہی وجہ ہے
کہ خیال کیا جا رہا ہے کہ رپورٹ شدہ 465مریض(جن پر اس دوا ’آئسو ٹیب‘ کا ری
ایکشن سامنے آچکا ہے) سے متاثرہ افراد کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بیس دنوں تک پنجاب کے ڈاکٹر ان
غیر معیاری ادویات کے ردعمل سے مرنے والے مریضوں کو ڈینگی کا مریض سمجھ کر
ان کا علاج کرتے رہے اور حیران ہوتے رہے کہ ڈینگی کا مچھر نہ ہونے کے
باوجود اب تک کیوں ڈینگی کے مریض سامنے آ رہے ہیں۔پانچ یا چھ جنوری کو پہلی
بارمریضوں میں یہ قدرِ مشترک نوٹ کی گئی کہ وہ سب دل کے مریض ہیں اور دل کے
علاج کے لیے وہ مفت دوائیں استعمال کر رہے ہیں جو انہوں نے’ پی آئی سی ‘سے
حاصل کی تھیں۔یوں پہلی بار اس شک کا اظہار کیا گیا کہ دل کے مریضوں کو دی
جانے والی ایک دوا ’آئسو ٹیب‘ مریضوں میں ’بون میرو سپرشن‘ میں ردعمل کا
سبب بن رہی ہے۔یہ بھی انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ آج تشخیص کے انتہائی
جدید طریقوں کے موجود ہونے کے باوجود ڈاکٹر حضرات ڈینگی فوبیا میں ہی کیوں
گرفتار رہے ۔ اگر خون کے ایک ٹیسٹ کو اختیار کر لیا جاتا تو کم ازکم اتنا
ضرور معلوم ہو جاتاکہ یہ ڈینگی نہیں ہے بلکہ کچھ اور ہے!! یوں کئی قیمتی
جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کے علاوہ اس افسوس ناک واقعہ کے اور بھی کئی
نقصانات سامنے آئے ہیں۔ فارما انڈسٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان سے
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ادویات کی ایکسپورٹ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا
تھا، اور فارما انڈسٹری کی ایکسپورٹ میں35فیصد سالانہ گروتھ ہو رہی
تھی،لیکن خبر ہے کہ اس واقعہ کی بین الاقوامی میڈیا پر آنے کے بعد بیشتر
ممالک نے مثلاًسوڈان، سیرالیون، سری لنکا اور افغانستان نے پاکستان سے
ادویات کی درآمد پر پابندی لگا دی ہے۔یوں اس واقعہ کے نتائج بحیثیت ایک
ریاست کے پورے ملک کو بھگتنا پڑرہے ہیں۔بہرحال چند افراد کی غیر ذمہ داری
سے ایک بڑا نقصان ہو گیالیکن اب آئندہ ایسے کسی واقعہ سے بچنے کے لیے شفاف
تحقیقات ہونا چاہئیں تا کہ اس المیے کے ذمہ داروں کا تعین ہو جائے۔سب سے
بڑی ذمہ داری تو بہرحال حکومت پنجاب کی ہے کیوں کہ وہ ہر معاملے کی نگراں
ہے، خصوصاً اس صورت میں کہ فی الحال پنجاب میں کوئی وزیر صحت ہی نہیں ہے
اور وزیر اعلیٰ پنجاب خود ہی اس وزارت کا قلمدان سنبھالے بیٹھے ہیں ، اس
لیے اس واقعے کے براہ راست جوابدہ تو وہی ہیں۔ ان کے ساتھ ’پی آئی سی‘ کے
عہدیدار اور ادویہ ساز ادارے کے مالکان بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ عدالت میں
ایف آئی اے کے وکیل نے کہاہے کہ ایک ادویہ ساز ادارے کا مالک کے دوا بنانے
کے لائسنس کی معیاد ختم ہوچکی تھی لیکن وہ پھر بھی ادویات بنا رہا تھا۔ اسی
طرح دوسرے ملزم سے دو لاکھ چالیس ہزار ایسی گولیاں برآمد ہوئی ہیں جن کے
بارے میں شک ہے کہ وہ بھی مضر صحت ہیں۔
ہماری ان سطور کے ذریعے ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ انتہائی غیر جانبداری
سے اس المیہ کے ذمہ داروں کا تعین کریں اور ان پر قتل کا مقدمہ چلا کر عبرت
ناک سزا دیں تا کہ عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔ |