ووٹ برائے فروخت؟

ووٹ جو کبھی ضمیر کی آواز ہوا کرتا تھا آجکل بے ضمیرو ں کی آواز بن کر رہ گیا ہے۔ووٹ جو کہ کسی کو بھی ایمانداری سے دینا عباد ت کی طرح فرض ہے لیکن آج اس کو نہ صرف مہنگے بھاﺅ فروخت کیا جا تا ہے بلکہ اس کی خریدو فروخت کا زیادہ بھاﺅ لگانے والے زیادہ معتبر کہلاتے ہیں۔حکومت نے سیننٹ کا الیکشن جیت لیا ہے اور میڈیا کے مطابق سننے میں یہی آیا ہے کہ اس بار حکومتی ارکان نے اس کا ریٹ بھی کئی کروڑوں میں لگا یا ہے۔اس روایت سے واضح تاثر یہ بھی ابھرتا ہے کہ اگر حکومت نے ووٹ خریدے ہیں تو کئی دوسری پارٹیوں نے بھاری معاوضہ دیکر ووٹ اپنے حق میں لیا ہو گا۔

یہ تو سیننٹ کے الیکشن تھے اور اسی رفتا ر سے یہ بھاﺅ لگتا رہا تو ایک دن عوامی الیکشنوں میں اس خریدو فروخت میں مزید اضافے کی توقع ہے اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ بھاﺅ کی یہ منڈیاں جانوروں کی منڈیوں کی طرح ہر شہر اور ہر بازار میں سر عام سجیں گی یا جس طرح کسی فروٹ منڈی میں مرضی کا فروٹ لینے جائیں تو دکاندار کی من موجی قیمت ادا کرنا نہا یت ضروری ہے بالکل ووٹ بھی اسی طرح مرضی کے بھاﺅ میں بکتا ہے۔عوامی اسمبلیوں اور عوامی امنگوں پر بادشاہی کرنے والے جب عام الیکشنوں میں ہی اپنے آپکو پیسے کی نمائش پر اور بابا ئے قائد والے نوٹ خرچ کر کے منتخب کروائیں گے تو پھر یہ شریف زادے بھلا کس طرح بغیر پیسہ لگائے سیننٹ کا الیکشن جیت پائیں۔

سچ کہیں تو یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں اس قدر غیر اسلامی اور غیر قانونی کام بڑی ہی ڈھٹائی سے اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔جو لوگ ووٹ خریدتے ہیں نہ تو ان کو ایسا غلیظ کام کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور نہ ہی اپنے ووٹ کو غلط لوگوں کو بیچتے ہوئے کوئی ندامت ہوتی ہے۔ہمارے ملک میں جب بھی شفاف اور شکوک سے بالا تر الیکشن ہوں گے اس دن ہماری کامیابیوں کا آغاز ہوگا ۔ہم لوگ پڑھ لکھ کے بھی غیر مہذب،بدتمیز اور اجارہ دار لوگوں کو عوام کے سروں پر بٹھا دیتے ہیں جس کا انجام سب کے سامنے ہے۔اس کرپشن کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا تدارک کرنے کے لئے ملک میں ہر قسم کی کرپشن کو روکنا بہت ہی ضروری ہے۔اس ملک کو قیام میں آئے کتنے سال بیت گئے ابھی تک عوام کو روٹی،کپڑا ،مکان اور نہ جانے کیا کیا کے نعروں میں بیوقوف بنا کر حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔گیس اور پٹرول کی قیمتیں آئے روز بڑھا دی جاتی ہیں۔سکول،کالجوں کے پرچے امتحان سے پہلے آﺅٹ ہو جاتے ہیں،دفاتر میں کرپٹ کلرک پیسے کے لین دین اور کرپشن میں گڑھ چکے ہیں اس وجہ سے کئی سرکاری اور غیر سرکاری کام لیٹ ہو جاتے ہیں۔واپڈا والے بغیر رشوت کے بجلی کا میٹر نہیں لگاتے۔محکمہ گیس والے سال سے پہلے گھر کی گیس نہیں لگاتے کیونکہ انہیں بھی کچھ پیسہ درکار ہوتا ہے۔امراءپیسہ لگا کر حکومت کے ممنوعہ علاقہ میں پٹرول اور گیس پمپ لائسنس لیکر پمپ کھلوا لیتے ہیں۔پی ٹی سی ایل اپنی خراب لائینیں ریلوے لائنوں کی مانند مرضی سے ٹھیک کرتے ہیں۔

میٹرک اور ایف اے پڑھا ہوا نالائق پیسے کے بل بوتے پر شہر میں بڑا سکول اور کالج کھول لیتا ہے اس کی اہلیت اور قابلیت کا ٹیسٹ لینے کی کسی کوفرصت نہیں۔گھر سے چیزیں چوری کرنے والا بچہ پیسے دے کرجوانی میں پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی کرا دیا جاتا ہے۔کمیشن آفیسر بھرتی ہونے کے لئے بھی کسی بھی کمیشن آفیسر کا بیٹا ہونا نہایت ضروری ہے۔شہر کے غنڈے سکول ،کالج یا جاب پر جانے والی کسی بھی لڑکی کو اٹھا کر اس سے زیادتی کر لیتے ہیں۔سرکار یا اجارہ دار کے خلاف بولنے والا یا اس کی بے ایمانی پکڑوانے والا یا تو مروا دیا جاتا ہے یا حوالہ پولیس ہو جاتا ہے،بینک کے گارڈز خود ہی بینک کی رقم ساتھیوں سمیت لوٹ کر بیرون ملک فرار ہو جاتے ہیں۔مسجد کے کئی نام نہادامام اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے پر زور دیتے ہیں ۔ماسوائے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے پی ٹی وی پر یا سرکاری ٹی وی ریڈیو پر” سب اچھا “ہے،صدر اور وزیر اعظم بہت ہی ”نیک اور متقی انسان“ ہیں اورٹی وی پر بیٹھے ہوئے اینکر پرسن خوشامدی کے پل باندھتے دکھائی دیتے ہیں۔مذہبی پروگراموں میں کلین شیو یا نمائشی داڑھی والے عالم یا فیشن والی خاتون اسلامی سکالر کے روپ میں ”دین“ کو بدنام کر رہے ہوتے ہیں۔شہر کی بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں بغیر پیمائش اور تحقیق کے سڑکیں،پلیں اور عمارتیں راتوں رات کھڑی کرکے بھاگ جاتی ہیں۔شہر میں غریب لوگ اپنی کسی میت کو دفنانے تک کے لئے مہنگی زمین قبرستان میں خریدنے پر مجبور ہیں۔

ہمارے ملک میں اتنے سالوں میں ماسوائے دو تین ڈیمز کے کوئی اور بڑا ڈیم نہیں بن پایا۔بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کے دلاسے عوام کو بارہا دیئے جاتے ہیں لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے یعنی کہ نہ بجلی ،گیس اور نہ پانی۔ مہنگائی اور محتاجی نے عوام کو بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے شام کو دکاندار،مزدور اور غریب لوگ مایوس مگر خالی ہاتھ اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں الیکشن دینے اور لینے کے عجب عجب طریقے ہیں۔کہیں ووٹ بندوق کے زور لیتے ہیں،کہیں ووٹ پیسہ سے لیا جاتا ہے اور کہیں ووٹ زبانی کلامی دعووں سے لیا جاتا ہے۔ایک چھوٹی سے مثال عوام اور عوامی خادموں کے لئے حاضر ہے کہ ذرا پنجاب کے ایک بڑے شہر راولپنڈی کے گرجا روڈ کے قریشی آباد کے علاقہ کا ہی وزٹ کر کے دیکھ لیں تو انہیں معلوم ہو کہ وہاں لوگ اس طرح رہ رہے ہیں جیسے کوئی کئی سالہ قدیم گاﺅں میں رہتاہو۔وہاں لوگوں کے گھروں میں نہ تو گیس ہے،نہ بجلی اور نہ پانی۔بارش ہو جائے تو کچی گلیوں کا راستہ ہی بند ہو جاتا ہے اب وہاں بھی لوگ ووٹ دیں گے اور وہاں بھی وعدے ہوں گے مگرعملی کام نجانے کون کرائے گا؟صوبائی الیکشن لڑنے والے یا سیننٹ کا ووٹ خریدنے والے؟
mumtazamirranjha
About the Author: mumtazamirranjha Read More Articles by mumtazamirranjha: 35 Articles with 38555 views I am writting column since 1997. I am not working as journalist but i think better than a professional journalist. I love Pakistan, I love islam, I lo.. View More