بے اختیار حکمران اور لاچار عوام

ارشاد ہوا کہ سیاست پر لکھوں، مطالبہ اور فرمائش تو بجا ہے، پر بزبان غالب مرحوم "طبیعت اس طرف نہیں آتی"۔ قارئین کے جذبات و احساسات کا احترام بھی بہرحال لازم ہے، لہٰذا چند لمحے سیاست پر لفظ ماری کر لیتے ہیں۔

آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت شروع دن سے ہی اندرونی خلفشار اور بد گمانیوں کا شکار ہے۔ پہلے کابینہ کی تشکیل اور وزارتوں کی تقسیم حکمران جماعت میں ایک اختلافی مسئلہ بنی رہی۔ پھر وزیر امور کشمیر کی براہ راست مداخلت کے باعث ایک کابینہ ترتیب دی گئی۔ دباؤ کے تحت سہی پر چوہدری عبد المجید کو وزیر اعظم بنایا جانا، ایک راست اقدام تھا۔ وہ پی پی پی کے دیرینہ نظریاتی اور مخلص لیڈر ہیں۔ انہوں نے بدلتے موسموں کے ساتھ کبھی پیڑ نہیں بدلے، اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنی پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اور نہ ہی اپنا وزن کبھی کسی "فرینڈز گروپ" کے پلڑے میں ڈالا۔ وفاقی کارپردازوں کے ان فیصلوں سے بہت سے جیالے دلی طور پر ناراض ہوئے مگر طوعاً و کرہاً خاموش رہے، تاہم پی پی پی کے بہت سے "قد کاٹھ" والے برزجمہر اب بھی ناراض ہیں اور ان کے دلوں میں غصہ اور ناراضگی پک رہی ہے۔ پھر ریاست کے مختلف محکموں میں صوابدیدی اسامیوں پر جیالوں کی تعیناتی کا مسئلہ پھن پھلا کر حکومت کے سامنے آن کھڑا ہوا اور حکمران جماعت کے کرتا دھرتاؤں کے بیچ غلط فہمیوں کی فضاءقائم ہو گئی۔ خیر ضرورت سے زیادہ تاخیر سے سہی مگر یہ مسئلہ بھی کافی حد تک سلجھ گیا ہے۔ اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ حکمران جماعت نے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو میں اتنا وقت کیوں لیا؟ اور ابھی تک بعض اہم پوسٹیں متنازع کیوں ہیں؟ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں ترقیاتی کام معطل پڑے رہے کیونکہ مختلف عہدوں کے امیدوار سفارشوں کی پرچیاں تھامے وفاقی دار الحکومت میں محترمہ فریال تالپور کے دفتر کی یاترا میں مصروف رہے۔ ان حالات میں غریب عوام جنہوں نے اپنے ووٹ بے شمار امیدوں اور تمناؤں کے ساتھ ان سیاسی کارندوں کی جھولیوں میں ڈالے تھے، تماشائی بنے رہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

ریاستی اخبارات میں باقاعدگی سے لگنے والی شہ سرخی (Lead) عموماً وزیراعظم کے کسی نئے بیان پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسے دیکھ کر بے اختیار ہنسی چھوٹ جاتی ہے اور خیال آتا ہے کہ وزیراعظم صاحب کو کوئی یہ بتائے کہ حکومت صرف کھوکھلے بیانات سے نہیں چلائی جاتی بلکہ عمل درآمد اہم ہوتا ہے۔ عوام کو لولی پاپ کے سہارے کب تک بہلائیں گے؟ لوگوں کو اپنے گلی محلے کے مسائل کا حل چاہیے۔ اجازت ہو تو ذرا وزیراعظم کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کر لوں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید حقیقت میں ایک بے اختیار شخص ہیں۔ ان کا دست خط اس قدر بے وزن ہو چکا ہے کہ وہ ایک چیز کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں تو تیسرے دن وفاقی آقاؤں کی جانب سے اس کی منسوخی کا آرڈر جاری ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں وہ صرف بیانوں اور زبانی وعدوں پر گزارہ نہ کریں تو پھر کیا کریں۔۔۔۔؟ ہمیں ان
سے دلی ہمدردی ہے۔

اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ عملی طور پر ریاستی کابینہ بے بس اور بے اختیار ہے۔ آصف علی زرداری کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور ریاستی حکومت سے متعلق تمام فیصلوں کا اختیار اپنے پاس محفوظ رکھتی ہیں۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ ایک چپڑاسی سے 17 گریڈ کے ملازم تک کی بھرتی اور تبادلے وغیرہ ان کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ریاستی کابینہ محض ایک تماشا رہ جاتی ہے۔

ترقیاتی کاموں اور فنڈز کے حوالے سے بات کی جائے تو صورت حال حد درجہ مایوس کن ہے۔ وفاقی بجٹ میں آزاد کشمیر کا حصہ 2.5 فیصد ہے اور مجھے یاد نہیں کہ آج تک ریاستی حکومت کو اپنا مقرر شدہ کوٹہ مکمل طور پر دیا گیا ہو۔ فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث حکومت کو کچھ عرصہ قبل ایک باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعہ ترقیاتی کام رکوانے پڑے۔ دوسری طرف یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ 2005 کے قیامت خیز زلزلے میں بین الاقوامی امداد کی مد میں ریاست کیلئے جو 55 ارب روپے آئے تھے، وہ بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں جھونک دئے گئے۔ گو کہ یہ ایک قرض ہے لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ اس کی وصولیابی بہت مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم کے مختلف مبہم مدات میں استعمال پر بے شمار سوالات تاحال قائم ہیں۔۔۔۔؟ یہ الگ کہانی ہے۔

صدر سردار یعقوب خان نے سچ کہا کہ "کشمیریوں کے اربوں روپے پاکستانی بینکوں میں جمع ہیں مگر ترقی پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہو رہا۔ حالانکہ یہ بینک اور مالیاتی ادارے آزاد کشمیر کے انفرا اسٹریکچر کی بہتری اور سماجی شعبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں"۔پاکستان کو حاصل ہونے والے زرمبادلہ کا ایک بڑا اور نمایاں حصہ ان کشمیریوں کی خدمات کا مرہون منت ہے جو بیرون ملک مقیم ہیں، لیکن ان کے ساتھ پھر بھی بیگانوں والا سلوک وفاقی اداروں اور حکومتوں کی عادت سی بن گئی ہے۔ اور صدر ریاست نے 100 فیصد درست بات کی کہ "پاکستان میں ایک طبقہ کشمیر کو بوجھ سمجھنے لگا ہے"۔ حیرت ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والے بعض تازہ دم لیڈرز تو بقول راجہ حبیب اللہ خان "مسئلہ کشمیر کی اے بی سی سے بھی ناواقف ہیں"۔۔۔ ۔ یہ طرزِ تغافل ریاست کے باشندوں میں بددلی اور شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو اس جانب توجہ دینا ہو گی ورنہ اندر ہی اندر پکنے والا لاوہ کسی بھی وقت آتش فشاں کے روپ میں ظاہر ہو سکتا ہے۔

منگلا ڈیم کی رائیلٹی کی بات کرنا جرم سمجھا جاتا ہے لیکن آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر اس کی رائیلٹی باقاعدگی سے ملنا شروع ہو جائے اور نیلم جہلم ہائیڈرل پروجیکٹ جیسے بڑے منصوبوں سے حاصل ہونے والی آمدنی آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی پر خرچ کی جانے لگے تو چند سالوں میں یہ خطہ ترقی کی اوج پر پہنچ سکتا ہے۔ لیکن بعض "بڑے لوگ" اس کے حق میں نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آزاد ریاست کو وفاقی بجٹ میں سے اپنے حصے کے 45 ارب روپے مل جایا کریں اور اس کے درست
استعمال کو Check and Balance سسٹم کے ذریعے یقینی بنایا جائے تو بہت کم وقت میں یہ خطہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔

ہمارا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اول ہمیں فنڈز نہیں ملتے اور جس قدر کسی نہ کسی طرح مل جاتے ہیں ان سے وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج کے بھرپور استفادے کے بعد بچ ہی کیا جاتا ہے جسے ترقیاتی کاموں میں لگایا جا سکے۔ اب تو حالت بایں جارسید کہ ریاستی اخبارات بھی اپنے بقایا جات کی وصولیابی کے لئے پریشان ہیں اور ہر روز اخبار کے پہلے صفحے پر ایک فریادی سا چوکھٹا لگانے پر مجبور ہیں جسمیں لفظ "احتجاج" جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے۔ دیانت داری اب داستانوں کا حصہ بن چکی ہے۔ محکموں میں رشوت ستانی کا بازار گرم ہے۔ دفاتر میں جلوہ افروز "قومی خدمت گاروں" تک ایک عام آدمی کی رسائی کئی ایک دلالوں (Brokers) سے گزر کر ممکن ہو پاتی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ ریاست کوئی صنعتی خطہ تو ہے نہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا دارومدار سرکاری ملازمتوں پر ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ ایک معمولی سی ملازمت کیلئے بھی اتنی بھاری رشوت کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ غریب آدمی خاموشی ہی میں جان کا امان پاتا ہے۔ میرٹ نام کی چیز ماضی بن چکی ہے۔ یہ تو تھیں افسوسناک، مایوس کن باتیں جن کی جانب توجہ دےے بغیر حکومت کی مقبولیت کا برقرار رہنا مشکل ہے۔ امید افزاءباتیں یہ ہیں کہ حالیہ اکھاڑ پچھاڑ میں کچھ نئی تقرریاں بھی ہوئی ہیں۔ چند ایک دیانت دار اور اہل افراد کو قلم دان سونپے گئے ہیں۔ ان کا تذکرہ آئندہ کالم میں ہوگا۔ سردست اتنی گزارش ہے کہ حکومت اپنے چہیتے وزراءکو "مراعات" کی یقین دہانیوں اور سیاسی جوڑ توڑ سے فراغت حاصل کر کے ذرا عوامی ایشوز اور سماجی مسائل پر توجہ دے۔ صوابدیدی عہدوں اور بلدیاتی اداروں کے نگرانوں کی تعیناتیوں کے حوالے سے جو ناٹک جاری ہے اسے فی الفور بند کر کے میرٹ کی بنیاد پر ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آپ کے پانچ سال پورے کرنا محض دیوانے کا خواب ہی ہوگا۔
Farhan Fani
About the Author: Farhan Fani Read More Articles by Farhan Fani: 22 Articles with 24233 views Reading and Writing... View More