ہند۔ پاکستان: منزل کی طرف بڑھتے قدم

 گزشتہ سال جنوری میں ہم نے اپنے اس کالم میں ”اعتماد سازی کےلئے سیاست نہیں تجارت کیجئے“ کے عنوان کے تحت یہ عرض کیا تھا کہ” ہند پاک سیاسی مسائل کو حل کرنے کی کلیدتجارت کے فروغ میں ہے ۔“ خوشی کی بات یہ ہے کہ13 ماہ مختصر عرصہ میں اس خواب کی تعبیر صاف ابھرتی ہوئی نظرآرہی ہے جب ہنداور پاکستان کا مال تجارت اسی طرح سرحد کے دونوں طرف آتا، جاتا ہوا دکھائی دیگا جس طرح یورپی ممالک میں دکھائی دیتا ہے۔ سارک کو صحیح معنوں میں ایک تجارتی زون میں تبدیل کرنے کےلئے ہند پاک کے درمیان کی گرہوں کا کھلنا از بس ضروری ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کی دوراندیش قیادت میں حکومت پاکستان نے اس سمت جو جرائتمندانہ قدم اٹھائے ہیں وہ یقینا اس خطے کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہونگے۔

گزشتہ نومبر میں پاکستانی کابینہ نے تجارت میں ہند کے ساتھ تعلقات کو مجمند رکھنے کی چالیس سالہ روش کو ترک کرکے ہند کو انتہائی ترجیحی ملک کادرجہ (MFN) دینے کا جوفیصلہ کیاتھا اب اس پر وہ ایک قدم اور آگے بڑھا ہے۔ یہ قدم خوب سوچ سمجھ کر اوربشمول فوج سبھی فریقوں کے مشورے سے اٹھائے گئے ہیں۔اس فیصلے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ تجارت کی بحالی کو دیرینہ سیاسی تنازعات کے حل سے مشروط رکھنے کی سابقہ پالیسی ترک کردی گئی ہے۔ہند کے تعلق سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ اہم تبدیلی ہے جس کے خوشگوار نتائج برصغیر میں ہی نہیں بلکہ دور دور تک عنقریب نظرآئیں گے۔

اس اصولی فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کےلئے تین ماہ کے اندر ہی 29فروری کوپاکستان کابینہ نے دوسرے اہم فیصلہ کرتے ہوئے اشیائے تجارت کی مثبت فہرست کو ختم کردیا اور ایک نئی منفی فہرست جاری کی ہے۔اب تک تجارت صرف انہی اشیاء میں ممکن تھی جو مثبت فہرست میں شامل تھے۔ اب یہ قید ہٹ گئی ہے اور اس منفی فہرست میں شامل صرف 1209اشیاءکے علاوہ باقی تمام اشیاءکو تجارت کےلئے کھول دیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے اسی کے ساتھ یہ عندیہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اس منفی فہرست کو بھی بتدریج کم کرکے اسی سال 31 دسمبر تک پوری طرح ختم کردیا جائیگا۔

1965 کی مسلح جھڑپ کے بعدسے حکومت پاکستان نے یہ منفی موقف اختیار کررکھا تھا جب تک بشمول کشمیر تمام سیاسی تنازعات حل نہیں ہوتے وہ ہند سے اپنے رشتوں کو بحال نہیں کریگا۔ جب کہ ہند کا موقف یہ تھا پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کےلئے سازگار فضا مطلوب ہے اور اس کےلئے بشمول تجارت اعتماد سازی کے دیگر اقدامات کئے جائیں۔

کابینہ کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ’ تین مسلح جھڑپوں اور چالیس سال تک ہند سے دشمنی رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب ہم اس علاقے میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کا فائدہ پاکستان کے حق میں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ‘ کابینہ کی میٹنگ کے دوران مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کا جب ذکر آیا تو ایک اطلاع کے مطابق وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ اگر کشمیر کے دونوں حصے کنٹرول لائن پر باہمی تجارت سے مستفید ہورہے ہیں تو پھر پاکستان اور ہندستان کیوں باہمی تجارت کے فائدے سے محروم رہیں؟‘

اہم بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ پی پی پی سرکارنے کیا ہے جس کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے ہند کے ساتھ ہزار سال تک جنگ لڑتے رہنے کا جذباتی نعرہ دیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں پی پی پی حکومت کے موقف میں اس تبدیلی کومسٹر بھٹو کے نظریہ سے انحراف قرار دینا کوتاہ اندیشی ہے۔یہ ایک حقیقت پسندانہ فیصلہ ہے ۔وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم جذباتی ہونے کے بجائے اپنے پورے خطے کی بھلائی کی فکر کریں۔ بین اقوامی رشتوں کی بنیاد قومی مفادات پر قائم ہوتی ہے۔پاکستان کی اقتصادی خوشحالی کےلئے اور قومی وقار کی حفاظت کےلئے ازبس ضرروی ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر خطے کی تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کا حصہ بنے ۔ اسی راستے سے پاکستان امریکی امداد کے بیساکھی سے نجات پاکر اس نئے استعمار سے آزادی حاصل کرسکتا ہے اور جس طرح ترکی ترقی کی راہوں پر آگے بڑھ رہا ہے، پاکستان بھی آگے بڑھ سکتا ہے کیونکہ وسائل اور افرادی صلاحیت میں سندھ اور پنجاب کسی سے کم نہیں ہیں۔

اگلا قدم راہداری
امید ہے پاکستان اور ہند کے درمیان تجارت کے کھل جانے کا فائدہ عنقریب خطے کے دوسرے ممالک خصوصاً سارک ممالک تک بھی پہنچے گا ۔سارک ممالک کے درمیان ’جنوب ایشائی ممالک کے درمیان فری تجارتی خطہ ‘ (SAFTA)جو معاہدہ2006 میں طے پایا تھا اب اس کی عملی صورت گری ممکن ہوسکے گی۔اب وہ دن دور نظر نہیں آتا جب ہندستان اور پاکستان کا مال تجارت ایک دوسرے کی سرحدوں سے آگے سارک میں شامل دیگر پڑوسی ممالک تک بھی بے روک ٹوک پہنچے گا۔اس سہولت کو مزید توسیع دے کر برما سے ترکی اور یوروپ تک سڑک اور ریل کے راستے کم خرچ پر مال برداری ممکن ہوسکے گی۔ اس سے میانمار، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، ہندستان، پاکستان، افغانستان، ایران اور اس سے بھی آگے ترکی، روس کے نو آزاد ریاستیں اور مغربی یوروپ کے ممالک بھی فیضیاب ہوسکیں گے اور یہ پورا خطہ ایک بڑے تجارتی زون میں تبدیل ہوجائے گا۔نتیجہ میں پورے علاقے میں ریلوں اور سڑکوں کی سہولتوں میں اضافہ ہوگا اور روزگار کے نئے نئے مواقع پیدا ہونگے۔

عملی اقدامات
ہندستان نے ، جو پہلے سے اس گھڑی کا منتظر تھا، پاکستانی اقدام کا پرجوش خیر مقدم کیا ہے۔ مگران اصولی فیصلوں کااصل فائدہ اسی صورت میں پہنچے گا جب دونوں جانب کی افسر شاہی ذہنی تحفظات کے کوزہ سے باہر نکل آئیگی اوربین اقوامی سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ اندرون ملک ریاستی سرحدوں پر بھی بغیر کسی ہیرا پھیری اور رشوت خوری کے مال تجارت تیری کے ساتھ اپنی منزل مقصود تک پہنچنے لگے گا۔ اس ضمن میں دونوں ملکوں کو بہت ہی حساس اور بیدار رہنے کی ضرورت ہوگی۔ دوسرے یہ کہ دوطرفہ تجارت کے فائدے صرف بڑے تاجروں تک ہی محدود نہیں رہنے چاہیں بلکہ چھوٹے تاجروں کو بھی یہ سہولت حاصل ہونی چاہئے کہ وہ ہندستان میں امرتسر اور پاکستان میں لاہور کے بازار سے سامان لا اور لیجا سکیں۔ حال ہی میں بنگلہ دیش اور ہند کے درمیان منی پور کی سرحد وں پر مشترکہ بازاروںکا احیاءکیا گیا ہے جس میں مقامی باشندے مقامی پیداوار لاکر فروخت کرتے ہیں اور دونوں طرف کے تاجر اور خریداربے روک ٹوک آتے ہیں۔ایسی ہی کوئی سہولت ہند پاک سرحدوں پر بھی قایم کی جاسکتی ہے۔

پس پردہ مذاکرات
دریں اثنا ایک خبر یہ آئی ہے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی پہل پر پس پردہ سفارتکاری کا وہ سلسلے پھر بحال ہورہا ہے جس نے پرویز مشرف کے دور میں خاموشی سے خصوصاً مسئلہ کشمیر کو سلجھانے میں بڑی پیش رفت کی تھی۔ ہند کے سابق سفارتکار ستندر لامبا اور پاکستان سابق خارجہ سیکریٹری ریاض محمد خاں کے درمیان رابطہ قائم ہے اور ایک ملاقات بھی ہوچکی ہے ۔ وکی لیکس نے یہ انکشاف کیا تھا کہ 2007میں مشرف کے دور حکومت میں پس پردہ سفارتکاری کے نتیجہ میں ایک معاہدے کا مسودہ تیار ہوگیا تھا اور اس پر دستخط ہونے ہی والے تھے کہ مشرف کی سیاسی ساکھ کو بٹہ لگ گیا۔ جنوری 2011 میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمد قصوری نے بھی نئی دہلی میں اس کا اعتراف کیا تھا۔ امید یہ ہے کہ یہ سفارتکار مذاکرات کو اسی جگہ سے آگے بڑھاسکیں گے جس جگہ یہ ٹوٹے تھے۔ دریں اثنا پاکستان کے میرواعظ عمر فاروق اور سید علی شاہ گیلانی کو تبادلہ خیال کےلئے پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔ جس سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے خطے کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی سرگرمی شروع ہوچکی ہے۔ اس سرگرمی کو اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ (ن) کی بھی تائید حاصل ہے جس کا اظہار حال میں ہند کے لوک سبھا اسپیکر میرا کمار کے دورہ پاکستان کے دوران اس گرم جوشی سے ہوا جو لاہور میں شہباز شریف کی جانب سے ہندستانی وفد کے اعزا ز میں دئے گئے عشائیہ میں ہوا۔ اس کا خوشگوار اثر وفد میں شریک بھاجپا لیڈروں بھی کیا۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.