اترپردیش انتخابات کے نتائج اگر
کسی کی توقع کے خلاف ہیں تو اس میں نتائج کا نہیں اس کی توقعات
کاقصورہے۔کانگریس اوربی جے پی اپنے تمام تر بلند بانگ دعووں کے باوجود
جانتے تھے کہ وہ پہلے نمبر تو کجا دوسرے نمبر پر بھی نہیں آسکتے۔ ان کی جنگ
تیسرے مقام کیلئے تھی اوراقتدار میں حصہ داری کیلئے ان دونوں کے دروازے
باقی دونوں کیلئےکھلے تھے۔ ویسے اگر ضرورت پڑتی توسماجوادی اور بہوجن سماج
پارٹی دونوں مسلمانوں کی خوشامد کے پیش نظر کانگریس کی حمایت کو ترجیح دیتے
لیکن حکومت سازی کیلئے اگر بی جے پی کی حمایت بھی ناگزیر ہو جاتی تو وہ اس
سے بھی پس و پیش نہیں کیا جاتا ۔اصل مقابلہ اول روز سے سماجوادی اور بہوجن
سماج پارٹی کے درمیان تھا اس کے باوجودان دونوں کو درمیان اس قدر بڑا تفاوت
ہوگا اور ایس پی کو ایسی واضح اکثریت حاصل ہو جائیگی اس کا اندازہ تو شاید
اکھیلیش یا ملائم سنگھ کو بھی نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی جانب سے
ہر اکساہٹ وتمسخر بلکہ تضحیک کا جواب دینے سے وہ دونوں گریز کرتے رہے تھے۔
اس بارکی انتخابی مہم میں کانگریس کی مخالفت کا ٹھیکہ بی جے پی کے پاس تھا۔
بی جے پی والے ایک ایسی پارٹی کے خلاف اپنی توانائی صرف کر رہے تھے جسے
اقتدار میں آنا نہ تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی نے ازخود اپنی اوقات
کیا طے کرلی تھی ؟بی جے پی کو اپنی اس غلطی کا احساس اپنے مقصد میں کامیابی
یعنی کانگریس کو چوتھے نمبر پر پہونچانے کے بعد ہوا ۔ اس کے کئی ممبران نے
یہ تسلیم کیا کہ بہوجن سماج پارٹی کے خلاف غم و غصہ کو ہم اپنے حق میں
بھنوا نہ سکے اور اپنے آپ کوبی ایس پی کے متبادل کی حیثیت سے پیش کر نے میں
ناکام رہے۔ راہل گاندھی نے اپنی توپ مایا اور ملائم کی جانب سادھ رکھی تھی
لیکن عوام جانتے تھے کہ کیا "پدی کیا پدی کا شوربہ؟"دلت بستیوں میں خالی
ٹوکری سر پر رکھ کر چلنے اور اس کی فلم ٹی وی پر دکھلانے کا پول جب کھل گیا
تو راہل گاندھی نے اپنے آپ کو "اینگری ینگ مین" کے طور پر پیش کرنا شروع
کردیا ۔ اس کی انتہا اس وقت ہوئی جب اس نے ایس پی کے وعدوں کی فہرست کو
پھاڑ کر پھینکنے کا ڈرامہ کیا ۔ اس ڈرامے سے لوگوں نے تفریح تو خوب لی لیکن
بجا طور ووٹ نہیں دیا ۔
لکھنو کے عوامی اجلاس میں راہل گاندھی نے کاغذ کے جس پرزے کو جھوٹ موٹ میں
پھاڑا تھا اس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ کانگریسی رہنماؤں کی فہرست
تھی۔یقیناً وہ رائے بریلی اور امیٹھی کے کانگریسی امیدواررہے ہوں گےجنھیں
رائے دہندگان سچ مچ ہرا دیا۔ راہل تو تماشہ کر رہے تھے لیکن عوام نے اسے
سنجیدگی سے لے لیا۔اس جلسہ میں راہل گاندھی بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ
لوگ مختلف وعدے کررہے ہیں ہم کوئی وعدہ نہیں کرتے ۔ عوام آج کل سیاستدانوں
سے اس مصرع کی مصداق کہ"وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا" کسی اور چیز کی
نہیں صرف وعدوں کی توقع کرتے ہیں ۔ راہل نے اس بارے میں بھی انہیں مایوس کر
دیا ۔ ہندوستانی جمہوریت کی سلور جوبلی پر کیفی اعظمی نے صابر و قانع عوام
کے جذبات کی اس طرح عکاسی کی تھی کہ :
سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
وعدہ لپیٹ لیں گے لنگوٹی نہیں تو کیا
کاغذ کی اس چیر پھاڑ نے گاندھی خاندان کے وقار کے بھی چیتھڑے اڑا دئیے ۔اس
اداکاری نے راہل گاندھی کیلئے سیاست کے میدان میں ناکام ہو جانے کی صورت
میں بالی ووڈ کے امکانات روشن کر دیئے ہیں۔وہ اگر بڑے پردے پر نہ سہی تو کم
از کم ٹیلی ویژن کے چھوٹے پردے پر وہ ضرور کامیاب ہو جائیں گے اور عوام کو
تفریح بہم پہنچائیں گے۔راہل کی اس حرکت کا جواب اکھلیش نے امیٹھی میں دیا
وہ بولے راہل کو فی الحال غصہ بہت آتا ہے۔ پہلے وہ انگلیاں مروڑتے تھے ۔ اب
کاغذ پھاڑنے لگے ہیں کوئی بعید نہیں کہ کل کووہ اسٹیج سے کود جائیں۔ امیٹھی
کے رائے دہندگان نے بتلا دیا کہ راہل گاندھی کیلئے اب یہی مناسب ہے ۔راہل
کی بچکانی حرکات کو اگران کی انفرادی حماقتوں کے زمرے میں بھی اگر ڈال دیا
جائے تو بینی پرساد ورما جیسے معمر رہنما کے بیان کا کیا جائے جنھوں نے ایس
پی کو غنڈوں کی پارٹی قرار دے کر بہوجن سماج پارٹی کو اس پر فوقیت دینے کا
اعلان کر دیا۔ بینی پرساد ورما پرانے سماجوادی ہیں اس لئے سماجوادی پارٹی
کو ان سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ۱۹۹۷ء کے بعد جب
وہ ایس پی سے الگ ہوئے مایا وتی نےسماجوادیوں کو غنڈہ گردی دکھلانے کا موقع
ہی نہیں دیا۔اگر ورما جی کو غنڈہ گردی سے ایسا ہی بیرتھا تو وہ اس وقت ایس
پی سے کنارہ کشی کرتے جب وہ غنڈہ گردی میں ملوث تھی لیکن اقتدار کے لڈو
بھلا آسانی سے کب چھوٹتے ہیں ۔ جب انگور نہیں ملتے تواپنے آپ کھٹے ہو جاتے
ہیں ۔ بینی پرساد ورما نے کانگریس کےمعمررہنما پی ایل پونیاکو پنجابی قرار
دے کر اور مسلم ریزرویشن پر اپنا بھڑکیلا بیان دے کر بھی ہنگامہ کھڑا کیا
لیکن وہ ہنگامہ آرائی بھی کسی کام نہ آئی۔
اس انتخابی مہم میں اترپردیش کے سابق صدر اور وزیر قانون سلمان خورشید بھی
بلاوجہ آپے سے باہر ہوگئے۔ ایک سلجھے ہوئے وکیل اور ملک کے وزیر قانون کا
الیکشن کمیشن سے بھڑ جانا نہایت مذموم حرکت تھی۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان
پر کمیشن کی جانب سے اقدام کیا جاتا لیکن اس نے منموہن سنگھ کو خط لکھنے پر
اکتفا کیا اور منموہن نے بھی مسلمانوں کی خوشامد میں کوئی اقدام نہیں کیا
لیکن اب مسلمان اس قدر احمق نہیں رہے کہ اس طرح کے باکنات سے جذباتیت کا
شکار ہوکر اپنا ووٹ ضائع کردیں ۔ انہوں نے نہ صرف کانگریس کو چار نشستوں تک
مدسود کر کے یہ پیغام دیا بلکہ سلمان خورشید کی کی اہلیہ لوئیسہ کو شرمناک
شکست سے دوچار کرکے یہ بتلا دیا کہ وہ دن لد گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا
کرتے تھے۔راہل گاندھی کی حماقتوں اور سلمان خورشید کی شرارتوں کا کوئی
نقصان نہ مایا کو ہوا اور نہ ملائم کوہاں بی جے پی کے کٹرہندو ووٹرس نے
ضرور اس کا فائدہ اٹھایا اورپارلیمانی انتخابات کے مقابلے میں جبکہ وہ
چوتھے نمبر پر پہنچ گئے تھے اپنی پارٹی کو تیسرے نمبر پر لانے میں کامیاب
ہوگئے۔ اگر راہل نے اکھلیش جیسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہوتااور سلمان
خورشید نے ریزرویشن کے بجائے سچر کمیٹی اور رنگناتھ کمیٹی کے سفارشات کا
وعدہ کیا ہوتا تو آج جہاں بی جے پی ہے وہاں کانگریس ہوتی اور جہاں کانگریس
ہے وہاں بی جے پی لیکن اس ادلا بدلی کا ایس پی اور بی ایس پی پر پھر بھی
کوئی اثر نہ ہوتا اس لئے کہ دس فی صد ووٹ کا فرق کو ئی معمولی فرق نہیں
ہوتا ہے ۔
مسلم عوام نے اس بار جس سیاسی سوجھ بوجھ کا ثبوت دیا وہ غیر معمولی ہےاور
ان سیاسی جماعتوں کیلئے جواس بات کا دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ مسلم ووٹ کی طاقت
کو بکھرکرضائع ہونے سے روکنا چاہتی ہیں تازیانہ عبرت ہے ۔ امت نے پھر ایک
بار ثابت کردیا ہے کہ وہ اس معاملے میں خاصے سمجھدار ہیں اور کسی رہنمائی
کے محتاج نہیں ہیں۔ اس کی کئی مثالیں سامنے آئیں ۔ مسلمانوں کی نمائندگی ۵۶
سے بڑھکر۶۹ تک پہنچ گئی جو اتر پردیش کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے ۔آبادی
کے تناسب سے یہ تعداد ۴۰ ہونی چاہئےگویا اس سے ۷۵ فی صد اضافہ۔ جماعتوں کے
علاوہ ان کے کامیاب امیدواروں کو دیکھیں تو بر سرِ اقتدار ایس پی کے ۴۳ تو
بی ایس پی کے۱۶۔ اس لئے کہ اب بھی بی ایس پی اور ایس پی کے درمیان ووٹوں کا
فرق صرف ۳ فی صد ہے اور اس کے دوبارہ انتخاب میں کامیابی کے امکانات موجود
ہیں۔ کانگریس کے ۴ اور پیس پارٹی کے تین۔ قومی ایکتا کے دو اور اتحادملت کا
ایک گویا سبھی کو ان کے حسب حال مسلمانوں نے نوازہ ۔ نہ ان کی حیثیت سے کم
نہ زیادہ ۔ بٹلہ ہاوس جیسے واقعات تک اپنے آپ کو محدود کردینے والی علماء
کاونسل کو مسلمانوں سے مکمل طور پرصرفِ نظر کر دیااوراعظم گڈھ کی ۱۰ میں سے
۹ سیٹوں پر سماجوادی اور ایک پر بہوجن سماج کو کامیاب کیا لیکن بی جے پی کو
ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا ۔ اتر پردیش وہ ۱۳۳ حلقہ
انتخاب جن میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم ازکم ۲۵فیصد ہے ۔ وہاں سے بی
جے پی کے صرف ۲۲ امیدوار کامیاب ہوئے۔ کانگریس کو ۱۰ اور اسکی حلیف آرایل
ڈی کو ۳ نیز بی ایس پی کو ۳۰ کامیابیاں ملیں جبکہ سب سے زیادہ فائدہ ایس پی
کا ہوا اوراسے ۶۵ نشستیں حاصل ہوئیں ۔ مسلمانوں نے اپنی بالغ نظری کے دو
اور ثبوت دئیے انہوں نے نہ صرف راشدمسعود اور امام بخاری کے بیٹوں کو ہرایا
بلکہ سلمان خورشید کی بیوی کو بھی شکستِ فاش دوچار کیا ۔ آج کل جبکہ قومی
اور علاقائی سطح پر موروثی سیاست کا بول بالا ہے مسلمانوں نے اس سے احتراز
کیا اوردیہی علاقوں کی ایس پی کے مسلم امیدوار کو لکھنو سے کامیاب کر کے
ایک نئی تاریخ رقم کر دی ۔
اتر پردیش کا نتخاب ایک طرف مسلمانوں ذہانت کا ثبوت دیتا ہے تو دوسری طرف
بی جے پی حماقت کا بھی غماز ہے ۔ یہ پارٹی یکے بعد دیگرے غلطیاں کرتی رہی
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی کے ریاستی صدر سوریہ پرتاپ شاہی جنھوں نے دو
دن قبل ۲۰۰ نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا تھا ایس پی کے مسلم امیدوار
شاکر علی کے ہاتھوں شکست فاش فاش سے دوچار ہوگئے ۔گوکہ بی جے پی والے
کانگریس اور راہل کی ناکامی پر بغلیں بجا رہے ہیں لیکن ۱۹۹۷ ء کے مقابلے نہ
صرف ان کی نشستوں میں کمی واقع ہوئی بلکہ ان کے ووٹوں کا تناسب بھی کم ہوا
ہے ۔ بی جے پی کو سوریہ کے پرتاپ کا اندازہ غالباً پہلے ہی ہو گیا تھا اس
لئے ان لوگوں نے پڑوسی ریاست سے شعلہ بیان سادھوی اوما بھارتی کو درآمد کیا
لیکن آپسی کی رنجش کے تتب انہیں وزیر اعلیٰ کا امیدوار نہ بنا سکے ۔ کئی
لوگ اوما بھارتی کو بی جے پی کی ناکامی کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں لیکن یہ
غلط ہے ۔ اوما نے مدھیہ پردیش سے متصل بندیل کھنڈ کے علاقے میں جہاں لودھ
ذات کا غلبہ ہے ۱۹بی جے پی امیدواروں کو کامیابی دلوائی اور خود بھی جیت
گئیں لیکن اتر پر دیش کے دیگر علاقوں کے اور دیگر ذاتوں سے تعلق رکھنے والے
رہنما اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے ۔جس طرح راہل گاندھی نے اس
ریاستی انتخاب کو زبردستی اپنے اوپر اوڑھ لیا ویسی ہی غلطی بی جے پی کے صدر
نتن گڈکری نے بھی کی اور اپنے آپ کو رسوا کر بیٹھے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا کنفیوژن اس کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اڈوانی نے
بدعنوانی کے خلاف جو یاترا نکالی اس میں ایودھیا کو شامل ہی نہیں کیا گویا
ایک طرح سے رام مندر کے مسئلہ کو حاشیہ پر ڈال دیا لیکن جس روز اڈوانی جی
یاترا سے فارغ ہوکر لوک پال بل کی شکایت کے ساتھ صدارتی محل پہنچے اور
کانگریس پر بدعنوانی کے تحفظ کا الزام لگایا اسی روز یوپی میں بی جے پی نے
بی ایس پی کے ذریعہ معطل شدہ بدعنوان وزیر بابو سنگھ خشواہا کو اپنی پارٹی
میں شامل کر لیا۔ اس سے بی جے پی نے مایا وتی کی بدعنوانی کے خلاف اپنے
دھرم یدھ کو ازخود ختم کر دیا اور وہ مایا وتی سے زیادہ بدعنوان دکھائی
دینے لگی ۔ اس لئے کہ بی جے پی کے کرٹ سومایا نے سیکڑوں صفحات پر مشتمل
الزامات کا روزنامچہ جس خشواہا کے خلاف پیش کیا تھا ۔ مایا نے تواسے نکال
دیا لیکن بی جے پی نے گلے لگا لیا ۔ اس حماقت پر پردہ ڈالنے کیلئے بی جے پی
کو پھر رام للا کی شرن میں جانا پڑا اور بی جے پی نے ایودھیا سے پھرایک بار
رتھ یاترا نکالنے کا فیصلہ کر لیا ۔ ان متضادحرکات نے عام رائے دہندگان کے
ذہن میں اس پارٹی کے حوالے سے ابہام اور شکوک و شبہات پیدا کر دئیے ۔ وہ تو
بھلا ہو کانگریس کا جس نے مسلم ریزرویشن کا کارڈ کھیل کر اسے تیسرے نمبر پر
پہنچانے کی خدمت انجام دی۔
کانگریسیوں کو اپنی شکست کا احساس گنتی کے دن صبح ہی سے ہونے لگا تھا اس
لئے ریتا بہوگنا سے لیکر دگ وجئے سنگھ سمیت سارے خوشامد پسندوں نے شکست کی
ذمہ داری راہل کے بجائے اپنے سر لینی شروع کر دی تھی یہ گویا اعتراف شکست
تھا لیکن شام ہوتے ہوتے راہل نے خود اعلان کر دیا کہ "مقابلہ تو دل ناتوں
نے خوب کیا- - - - - مگر"۔ راہل گاندھی اپنے اعتراف میں جس طرح کی سمجھ
بوجھ کا ثبوت دیا اگر وہ انتخابی مہم کے دوران ایسا کرتے تو شاید انہیں اس
کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی خیر اس اعترف پرجو تبصرہ اکھلیش سنگھ یادو نے کیا
وہ اس اکھلیش کی راہل پر برتری کا ثبوت ہے ۔انہوں نے کہا انتخاب میں فتح و
شکست تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن چونکہ انہوں نے اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا ہے
اس لئے امید ہے آئندہ کا میاب ہوں گے" یہ بیان اس شخص کی اعلیٰ ظرفی
اورذہنی پختگی کا ثبوت ہے جس کے دماغ میں ابھی تک اقتدار کی ہوا بھری نہیں
ہے ۔اکھلیش نے جو مشورہ راہل کو دیا اس پر خود گزشتہ ڈیڑھ سال سے عمل کرر
ہے ہیں ۔
پارلیمانی انتخاب میں پچھلی بار اکھلیش نے دو مقامات سے کامیابی حاصل کی
تھی اس لئے ایک حلقہ خالی کرنا پڑا ۔ چونکہ وہ خود باپ کے بعد بیٹا والی
سیاست پر عملدرآمد کر رہاےتھے اور ان کے اپنے بچے ابھی اسکول میں ہیں اس
لئے اپنی جگہ اپنی بیوی ڈمپل کو امیدوار بنا دیا گویا باپ بیٹا اور بہو سب
کے سب اقتدار سے لطف اٹھائیں ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب امر سنگھ ملائم سنگھ
کے دست راست ہوا کرتے تھے ۔ امر سنگھ سمجھ گئے اب پارٹی میں ان کے دن زیادہ
نہیں ہیں اس لئے انہوں نے راج ببر کی مدد سے فیروزآباد میں ڈمپل سنگھ کو
بلا واسطہ ہروا دیا۔ اس شکست نے اکھلیش کی آنکھیں کھول دیں اور انہوں نے
امر سنگھ کی بیساکھی کے بجائے خود اپنی امید کی سائیکل پر سواری شروع کر دی
اورڈیڑھ سال تک لگاتار محنت کرتے رہے اور عوام سے رابطہ میں رہے ۔ اس عرصے
میں ۸۰۰۰ جلسے اور ۱۰،۰۰۰ کلومیٹر کا سفر اس شخص نے کیا اور ایک ایسی پارٹی
کو جو ٹکنا لوجی کی د شمن سمجھی جاتی تھی کمپیوٹر کا دوست بنا دیا ۔ پپو
یادو کے معاملے میں کڑا رخ اختیار کر کے اکھلیش یادو یہ پیغام بھی پہنچا
دیا کہ غنڈوں کی جماعت سمجھی جانے والی ایس پی میں اب چارج شیٹر کی کوئی
جگہ نہیں ہے اور اس مسئلہ پر کوئی مصالحت ممکن نہیں ہے ۔ امر سنگھ کے نکل
جانے کے بعد اعظم خان کو پارٹی میں پھر اہمیت حاصل ہو گئی اور مایا وتی کا
مقابلہ کرنے کیلئے یادو مسلم دوستی کا محاذ تیار ہو گیا جس نے اکھلیش کیلئے
وزارت اعلیٰ کا دروازہ کھول دیا ۔ راہل گاندھی کب وزیر اعظم بنیں گے یہ تو
کوئی نہیں جانتا لیکن اکھلیش جلد ہی اتر پر دیش کے وزیرا علیٰ بن جائیں گے
یہ حقیقت نقش دیوار بن کر چمک رہی ہے ۔ |