بریگیڈئر علی خان کا جرم

پاکستان آرمی کے حاضر سروس بریگیڈئر کو گزشتہ سال 6 مئی کو اس جرم میں گرفتار کرلیا گیا تھا کہ ان کا تعلق ایک کالعدم تنظیم حزب التحریر سے ہے اور یہ کہ وہ فوج میں بغاوت کی کوشش کررہے تھے۔ فوج کے ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق بریگیڈئر علی خان کا یہ بھی پروگرام تھا کہ وہ جی ایچ کیو پر ایف سولہ سے حملہ کریں گے اور تین چار سو لوگوں کی مدد سے اقتدار پر قبضہ کرلیں گے۔ اس وقت وہ سیالکوٹ گیریژن میں کورٹ مارشل کا سامنا کررہے ہیں۔ استغاثہ نے ان کے خلاف فرد جرم عائد کردی ہے اور انہیں شہادتوں کا نوٹس بھی مل چکا ہے۔ گرفتار بریگیڈئر علی خان کے بھائی، والد اور ان کے وکیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فرد جرم عائد ہونے کے فوراً بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز کردیا جاتا ہے لیکن بریگیڈئر علی خان کا کیس جان بوجھ کر لٹکایا جارہا ہے، جبکہ ان کے وکیل کا ہائی کورٹ میں یہ موقف تھا کہ وہ جولائی میں ریٹائر ہوچکے ہیں، ریٹائرمنٹ کا نوٹس انہیں گرفتاری سے دو ماہ قبل مل چکا تھااور اب ان کا کورٹ مارشل ہو ہی نہیں سکتا، ہائی کورٹ میں ہونے والی کارروائی میں فوج کی جیگ برانچ نے جواب دیا کہ بریگیڈئر علی خان کی ریٹائرمنٹ کا حکم واپس لیا جاچکا ہے، ان کے خلاف سنگین الزامات ہیں۔

بریگیڈئر علی خان کے والد جو اس وقت شدید بیماری کی حالت میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور اس پر بالکل غلط الزامات ہیں، انہوں نے اپنے بیٹے کی موت کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ بریگیڈئر علی خان کی فیملی کے بہت سے لوگ پاک فوج میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کے والد بھی ایک ریٹائرڈ فوجی ہیں، ان کے بھائی بھی فوج میں ہیں اور ان کے بیٹے بھی فوج میں ہیں، ایک فوجی خاندان کے حاضر سروس بریگیڈئر پر اس طرح کے الزامات کیوں لگے اور کیا واقعی ان میں کوئی صداقت بھی ہے یا نہیں، یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ایسے وقت میں جب پاکستان بہت سے گھمبیر مسائل میں جکڑا ہوا ہے اور بڑی مشکل سے مشرف کے جانے کے بعد فوج کی ساکھ کسی قدر بہتر ہونا شروع ہوئی ہے تو کیوں ایسے معاملات کو ہوا دی جارہی ہے؟ ایک طرف منصور اعجاز کی شکل میں ایک ایسی بلا پاکستان کے پیچھے لگی ہوئی ہے جس بلا نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات پر کاری ضربیں لگانے کی کوششیں کی ہیں، منصور اعجاز کبھی پاکستان کی فوج یا ایجنسیوں کا ہمدردیا دوست نہیں رہا ، اس کے حالیہ بیانات بھی شاہد ہیں کہ وہ پاکستان میں افرا تفری پھیلانے کا خواہاں ہے اور ظاہر ہے کہ اس اکیلے کی تو اتنی اوقات نہیں، یقینا اس کے پیچھے ایسی قوتیں ہیں جو پاکستان کے اداروں کو لڑوا کر اندرونی طور پر کمزور کرنا چاہتی ہیں، ایسے میں پاک فوج کے ایک ایسے حاضرسروس بریگیڈئر پر اس طرح کے الزامات لگانا کیا درست اقدام ہے جو صرف ڈیڑھ دو ماہ بعد ریٹائر ہونے والا ہو؟

بریگیڈئر علی خان کے نزدیکی حلقے توکچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں، ان کے بقول 5 جولائی کو جی ایچ کیو میں ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے ہونے والی ایک میٹنگ میں انہوں نے فوج کی قیادت سے کچھ سخت سوالات پوچھے تھے اور ایک تجویز بھی دی تھی۔ ایک سوال یہ تھا کہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ اسامہ بن لادن وہاں موجود تھا اور آرمی اور ایجنسیوں کو نہیں پتہ تھا تو پھر ہماری ایجنسیوں اور ان کے سربراہوں کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔تجویز یہ تھی کہ لوگوں کا فوج پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے لہٰذا آرمی کے جتنے سینئر افسران ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اثاثوں کو عوام کے سامنے ظاہر کریں اور اپنے اثاثے قوم کے حوالے کردیں، اس سے نہ صرف قوم کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ ہم خود انحصاری کی جانب گامزن بھی ہوسکیں گے۔ان حلقوں کے مطابق یہ ہی بات تھی جس کی وجہ سے انہیں فوراً حراست میں لے لیا گیا اور ایبٹ آباد کے واقعہ میں کمیشن کی تشکیل کے اعلان کے بعد ان کی گرفتاری کو ظاہر کردیا گیا۔کیا ایک ایسا آدمی جو فوج میں 32 سال گذار چکا ہو، جس کی تقریباً ساری فیملی فوج میں ہو ،کیا اپنی سروس کے آخری دنوں میں اس کے کسی ”شدت پسند“ تنظیم سے تعلقات استوار ہوسکتے ہیں، شدت پسند تنظیم بھی اس طرح کی بے ضرر کہ جس کے لوگ صرف مسجدوں کے باہر کھڑے ہوکر پمفلٹ ہی تقسیم کرسکتے ہوں، وہ شدت پسند تنظیم جس کو امریکہ نے کالعدم قراردیا ہو اور امریکہ کے حکم کی تابعداری میں وہ پاکستان میں بھی کالعدم قرار دیدی گئی ہو۔

پاکستان میں بسنے والے عام لوگ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک وطن عزیز میں کچھ ادارے ”مقدس“ گائے کی حیثیت رکھتے تھے لیکن جیسے جیسے میڈیا طاقت پکڑ رہا ہے اور کسی حد تک لوگوں کو کہنے کی آزادی مل رہی ہے، ان کے لب آزاد ہورہے ہیں، مقدس گائے سمجھے جانے والوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے لیکن ابھی مکمل طور پر ایسا نہیں ہوسکا کہ پاکستان میں ریاست کے تمام شہریوں کو انصاف کے یکساں و مساوی مواقع دستیاب ہوسکیں اور شہریوں یا اداروں میں تفاوت مکمل طور پر ختم ہوسکے۔ یہی عام لوگ سوچ رہے ہیں بریگیڈئر علی خان کا اگر کسی شدت پسند اسلامی تنظیم سے تعلق کا شبہ بھی ہوجاتا ہے، شک بھی پڑ جاتا ہے تو اس کو گرفتار کرلیا جاتا ہے، قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے، ریٹائرمنٹ کا حکم محض اس وجہ سے واپس لے لیا جاتا ہے تاکہ کورٹ مارشل کیا جاسکے، اہل خانہ سے، شدید بیمار والد سے ملنے نہیں دیا جاتا، ان کی مرضی کے بغیر دل کی انجیو گرافی کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف ان لوگوں کو انعام و اکرام اور توسیع دی جاتی ہے جو عیسائی اور یہودی شدت پسندوں سے رابطے میں ہوتے ہیں، کیا امریکہ کی پالیسیاں یہودی مرتب نہیں کرتے، کیا یہودی ذہنیت پوری دنیا میں مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے کی کارروائیاں نہیں کررہی، کیا بش نے 9/11 کے بعد ”صلیبی جنگوں“ کا ذکر نہیں کیا تھا اور کیا یہ حقائق نہیں، کیا ان حقائق کو جھٹلایا جاسکتا ہے کہ ہماری بہادر افواج انہیں قوتوں کی ”آلہ کار“ بنی ہوئی تھیں اور کسی حد تک بنی ہوئی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں شدت پسندی پھیلا رہی ہیں، افغانستان، عراق، فلسطین، کشمیر، بوسنیا اور دیگر جہاں جہاں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں، کیا وہاں امریکی آشیر باد شامل نہیں ہے۔ اگر بریگیڈئر علی خان مجرم ہے تو وہ لوگ بھی لائق تعزیر ہیں، خواہ وہ سیاسی ہوں یا فوجی جنہوں نے اس ملک کے لوگوں کو امریکہ کو بیچا، جنہوں نے ایک غلط جنگ میں اس قوم کو جھونکا، لیکن بریگیڈئر علی خان اس لئے بڑا مجرم ہے کہ وہ صرف بریگیڈئر تک پہنچ سکا، اس لئے کہ وہ توسیع کا خواہاں نہیں تھا اور اس لئے کہ اس نے اپنے اور دیگر بڑے لوگوں کے اثاثے قوم کو واپس کرنے کی بات کی۔ یہ دور اثاثے واپس کرنے کا نہیں، اثاثے بنانے کا ہے، لگتا ہے بریگیڈئر صاحب حزب التحریر سے اتنے متاثر نہیں تھے جتنے وہ عمران خان سے ہوں گے، اثاثوں کا شور تو عمران خان نے مچایا تھا، اب یہ شور رکنے والا نہیں۔حضرت عمر ؓنے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں، جب وہ افواج کے سپریم کمانڈر بھی تھے، ایک بدو کے مطالبے پر اپنے اثاثے اور ان اثاثوں کا ”سورس“ ظاہر کیا تھا، لیکن ظاہر ہے یہ باتیں اب پرانی (Out dated) ہوچکی ہیں۔ لیکن وہ وقت شائد اتنا بھی دور نہیں جب ”سب“ کو ہی اثاثے بھی ظاہر کرنا پڑیں گے اور ان کے ”سورس“ بھی۔ بریگیڈئر علی خان کو یہاں، اس دنیا میں شائد ہی انصاف ملے لیکن میرا اللہ سب سے انصاف کرنے والا ہے، وہ ضرور انصاف کرے گا، اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222496 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.