میئر استنبول کا دورہ اور لاہوریوں کی گالیاں

برادر اسلامی ملک ترکی کے شہر استنبول کے میئر ڈاکٹر قادر توپباش گذشتہ دو روز سے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب وزیر اعلیٰ ترکی کے دورے پر گئے تھے اور کافی دن وہاں گزار کر آئے تھے تو انہوں نے استنبول کے میئر کی مہمان نوازی کا مزا بھی چکھا اور ان کی شہر کے حوالے سے ”گورننس“ بھی دیکھی چنانچہ میاں صاحب نے میئر صاحب کو دورہ لاہور کی دعوت دی جو قبول کرلی گئی اور موصوف یہاں پہنچ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی برادر اسلامی ملک بھی ہے اور عالم اسلام میں ایک خاص اہمیت کا حامل بھی نیز استنبول لاہور اور کراچی کی طرح کا ایک بڑا شہر ہے لیکن وہاں کی انتظامیہ انتہائی چوکس اور فعال ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انہوں نے پورے شہر کو صاف ستھرا اور خوبصورت رکھا ہوا ہے بلکہ ٹریفک کا نظام بھی نہائت اعلیٰ اور جدید خطوط پر استوار کر رکھا ہے تاکہ شہری سڑکوں پر کم سے کم وقت گزار کر اپنی منزلوں پر پہنچ جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور شہری ٹرانسپورٹ بھی انتہائی اعلیٰ ہے۔ استنبول شہر کی یہی وہ خوبصورتیاں تھیں جنہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بہت متاثر کیا اور انہوں نے پنجاب میں بھی اسی طرح کے نظام کا تجربہ کرنے کا سوچا جس کا آغاز پنجاب کے سب سے بڑے اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور سے کیا جانا ہے۔ خبروں کے مطا بق استنبول کے میئر عزت مآب ڈاکٹر قادر توپباش نے پنجاب حکومت یا لاہور کی شہری حکومت کو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور ٹرانسپورٹ کے لئے جدید گاڑیاں تحفے میں دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پنجاب حکومت کا ایک اچھا کام ہے جس کی تعریف کی جانی چاہئے۔

ڈاکٹر قادر توپباش کے دورہ لاہور کے موقع پر پنجاب حکومت کی جانب سے کچھ ایسے کام کئے گئے جن کی چنداں ضرورت نہ تھی بلکہ انہوں نے پنجاب حکومت اور خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب کے بارے میں عجیب سے تاثرات چھوڑے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ڈاکٹر قادر توپباش ترکی کے ایک شہر کے میئر ہیں اور جب کسی بھی شہر کا میئر کسی دوسرے ملک کے شہر میں جاتا ہے تو اس کا ایک خاص پروٹوکول ہوتا ہے، پنجاب حکومت نے پہلے تو مرکزی حکومت سے اس بات کی اجازت دینے پر اصرار کیا کہ ڈاکٹر قادر توپباش کی آمد پر اکیس توپوں کی سلامی دی جائے۔ پروٹوکول کے تقاضوں کے مطابق اکیس توپوں کی سلامی اس وقت دی جاتی ہے جب کوئی سربراہ حکومت پاکستان کے دورے پر تشریف لاتا ہے، چنانچہ مرکزی حکومت نے پنجاب حکومت کو جواب دیدیا کہ اگر ایک میئر کو اکیس توپوں کی سلامی دی جائے گی تو جب کوئی سربراہ حکومت آئے گا تو اس کو کیسے سلامی پیش کی جائے گی؟ پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے یقیناً اس بات کا برا منایا اور اس کا نزلہ بالآخر پنجاب حکومت کے خزانے اور اہلیان لاہور پر گرا، وہ کس طرح؟ تو سنئے وہ اس طرح کہ پہلے تو پورے شہر کے طول و عرض میں بلا مبالغہ کروڑوں روپے خرچ کرکے اشتہاری مہم شروع کی گئی، ڈاکٹر قادر توپباش ، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے بڑے بڑے پورٹریٹ لگائے گئے، بینرز آویزاں کئے گئے ، دوسرا یہ کہ ان دو دنوں میں لاہور شہر کی ٹریفک کا نظام اتنا شدید متاثر ہوا کہ ہر دوسرا شخص پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر قادر توپباش کو برا بھلا کہتا اور کوستا پایا گیا، ظاہر ہے جب آپ تین تین گھنٹے ٹریفک میں پھنسے رہیں گے تو انتظامیہ اور جس کی آمد کی وجہ سے آپ کا پٹرول بھی ضائع ہورہا ہو اور وقت بھی، آپ اپنی منزل مقصود پر پہنچ نہ سکیں تو ایسا ہی حال ہوگا۔ بہت سے لوگ تھے جو شادیوں میں شریک ہونے جارہے تھے لیکن رخصتی کے بعد بھی شادی ہال میں پہنچنے میں ناکام رہے (یاد رہے کہ ہر شادی فوجی بھائیوں کے علاقے میں نہیں ہوتی جہاں وقت کی کوئی پابندی نہ ہو) جو لوگ اپنی نوکریوں پر جارہے تھے ان کو وہاں سے جھڑکیاں پڑنے کا اندیشہ تھا اور کئی بیمار لوگ بروقت ہسپتالوں اور کلینکوں میں بھی یقینا نہ پہنچ سکے ہوں گے۔

آج میں ایک جگہ جانے کے لئے رکشے پر عازم سفر ہوا تو پہلے تو رکشے والے نے اس جگہ جانے کا تین گنا کرایہ طلب کیا، میں نے اسے کچھ خوف خدا دلانے کی کوشش کی تو وہ مجھی پر برس پڑا، کہنے لگا کہ ”بھائی صاحب ایک تو آپ لوگوں کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ سارا سفر فری میں ہو جائے، مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ کو پتہ ہے کہ آج گیس کی بندش ہے، میں ایل پی جی پر رکشہ چلا رہا ہوں جو اس وقت ڈیڑھ سو روپے کلو کے حساب سے خریدنا پڑتی ہے، دوسری بات یہ کہ سڑکوں پر ہر طرف ٹریفک اتنی پھنسی ہوئی ہے کہ عمومی طور پر جہاں جانے میں پانچ منٹ لگتے ہیں وہاں پہنچنے پر پچیس منٹ لگ رہے ہیں کیونکہ پتہ نہیں کون ........ (خالی جگہ پر قارئین اپنی پسند کی گالیاں خود لکھ لیں یا ان کا تصور کرلیں) لاہور میں آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہماری ظالم پنجاب حکومت نے ہر طرف سڑکیں بند کی ہوئی ہیں، اب آپ ہی بتائیں اگر کرایہ زیادہ نہ لوں تو اپنا نقصان کروں؟ اگر کرایہ نہ بڑھاﺅں تو بچوں کے لئے گھر کیا لے کر جاﺅں گا، ایک طرف ہم غریب لوگ بھوکے مررہے ہیں اور دوسری طرف پنجاب حکومت ایک میئر کے آنے پر کروڑوں روپے خرچ کررہی ہے کیا اس حکومت کو غریبوں کا بھی کچھ خیال ہے، اس سے پہلے لیپ ٹاپوں کی تقسیم کے سلسلہ میں اتنے بینرز اور اشتہار لگائے گئے اور میئر کے دو دن کے دورے کے لئے پھر کروڑوں روپے لگا دئے گئے ہیں، یہی رقم اگر غریبوں پر خرچ کردی جاتی تو لاتعداد لوگ فائدہ اٹھا سکتے تھے اور کیا میئر صاحب نے اس کا برا منانا تھا، خود ہی کہنے لگا، مجھے یقین ہے کہ اگر استنبول کے میئر کو یہ پتہ چل جائے کہ اس کے آنے پر لاہوریوں کا کیا حال کیا گیا ہے خاص طور پر غریب شہریوں کا تو شائد وہ معافی مانگ کر جائے۔ آپ ٹریفک میں پھنسے ہوئے کسی بھی بندے سے پوچھ لیں وہ شہباز شریف، پنجاب حکومت اور سٹی گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ میئر کو بھی گالیاں دے رہا ہے کہ جس کے آنے سے ایک بار پھر پورا لاہور شہر عذاب میں پھنسا ہوا ہے“اتنے میں خدا خدا کرکے میری منزل آگئی اور میں کرایہ دے کر رکشہ سے اتر گیا، ابھی تک سوچ رہا ہوں کہ ہمارے سیاستدانوں کو تو گالیاں کھانے کی عادت ہے میاں شہباز شریف نے خواہ مخواہ استنبول کے میئر ڈاکٹر قادر توپباش کو بھی غائبانہ گالیوں کی وصولی میں حصہ دار بنوا دیا۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207391 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.