تحریر: ڈاکٹر صلاح الدین سلطان
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
شام کی مدد اور ان سے بے مروّتی کے درمیان ایک بڑا فرق ہے۔ قصائی اسد کی
حکومت کے مددگاروں نے اس کی مدد کے لیے جنگی سپاہیوں کو بھیجا اور حرّیت
پسندوں کو بے سہارا چھوڑنے والوں نے نگراں وفد بھیجا۔ ظالموں کے مدد گاروں
نے جنگی جہاز، جنگی ہتھیار اور آتشیں اسلحے روانہ کیے اور ہمارے نہتّے شامی
بھائیوں کو بے سہارا چھوڑنے والوں نے ان کے لیے پرجوش تقریریں، مسجدوں میں
دعاؤں اور انسانی حقوق کی پامالی پر دردو کرب بھرے پیغامات کی امداد روانہ
کی۔ شامی حکومت کے مددگاروں نے پوری دنیا کو چیلنج کیا۔ بین الاقوامی
مجلسوں میں فاشسٹ حکومت کے لیے مذمّتی قرارداد کی منظوری کو روکنے میں وہ
کامیاب ہوگئے بلکہ انہوں نے مزید جنگی معاملات میں تعاون، اور فنّی امداد
اور عسکری تجربات کے تبادلے کے سمجھوتے کا اعلان کیا۔ اور ہمارے شامی
بھائیوں کو بے سہارا چھوڑنے والوں نے انہیں مکمّل ایک سال تک نظر انداز کیا،
وہ تنہا سنگدل، گھناؤنی اور بدترین فوجی طاقت کا مقابلہ کرتے رہے، ہم نے ان
کی کیا مدد کی؟ شعری تحفے پیش کیے جو انہیں روز بروز خونریزی کے درمیان
ابھرنے والی بچوں اور ماؤں کی چیخیں انہیں یاد دلاتے ہیں۔ ان کے ذہن میں
ہولناک سزاؤں میں مبتلا ایسے بچوں کی تصویریں زندہ کرتے ہیں جن کے جسم کو
چھلنی کر دیا گیا ہے، گویا اپنائیت کا دم بھرنے والے شعراء شام کی سرزمین
میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے غموں کو تازہ کر رہے ہیں۔ شامی حکومت کی مدد
کرنے والے خنجر بکف ہو چکے ہیں، ان کی زبان کے ساتھ ساتھ شمشیر و سناں بھی
متحرّک ہے، میڈیا میں ان کی بہتان تراشی بھی جاری ہے، جھوٹ کا اعلان بھی ہو
رہا ہے، اور واقعات و حقائق کو بالکل الٹ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگ
رہا ہے گویا سچ مچ انسان ہی نے کتّے کو کاٹ لیا ہے۔ دوسری طرف اپنی قوم کو
بے سہارا چھوڑنے والوں کا یہ حال ہے کہ مقتولین کی حقیقی تعداد سے لوگوں کو
باخبر کرنے کے بجائے اس کی نصف تعداد بیان کر رہے ہیں، انہوں نے بچّوں سے
محروم ماں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے جو اس فریاد کے ساتھ آسمان کی طرف اپنے
ہاتھ اٹھاتی ہے کہ "يا الله ،يا الله ہمارے لیے تیرے سوا کوئی نہیں ہے"۔ اب
یقینی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ پڑوسی ممالک کچھ بہت غذا، دوا، اور کپڑے
بھیج کر آنکھوں میں دھول جھونکیں گے گویا وہ کہہ رہے ہوں کہ اگر تمہارے گھر
ڈھا دیے جائیں اور تم بچ رہو تو ہم تمہیں اپنے بچے ہوئے کھانے، زائد کپڑے،
اور اکسپائر ہو چکی دوائیں دینے میں بخل نہیں کریں گے۔ البتّہ قتل و
خونریزی اور نسل کشی کا جو کھیل تمہارے ساتھ جاری ہے اس کے خلاف سینہ سپر
ہونے کے لیے ہم تیّار نہیں ہیں۔
کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ شامی عوام کے حالات کی سنگینی کی وجہ ان کی
صحیح مدد نہ ہونا ہے۔ ان کے سلسلہ میں یہ قول صادق آتا ہے "وہ ایسے ہیں
جیسے کمینوں کے دسترخوان پر یتیم ہوتے ہیں"۔ امراء، اور سربراہان ایسی
کوششوں میں لگے ہیں کہ اپنے تخت کو انقلابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مزید
قہر، استبداد، اور جبر کے راستے تلاش کریں، ہر وہ شخص نشانۂ ستم ہے جس کے
دل میں اپنا سر اٹھانے کا خیال بھی آئے۔ کچھ لوگوں نے عوام کی تنخواہوں میں
اضافہ کر کے انہیں رشوت دینے کی کوشش کی کہ "منہ میں لقمہ بھردو، آنکھوں
میں شرم آ جائے گی"۔ ایک یہ بھی طریقہ اختیار کیا گیا کہ کسی تحقیق اور
مقدّمہ کے بغیر ملک کے بہترین شہریوں کی شہریت چھین لی گئی، ان کے مال کو
منجمد کر دیاگیا، سفری اجازت نامے ختم کردیے گئے، میڈیکل کارڈ چھین لیاگیا،
ان کے بچّوں کے تعلیمی وظائف اور شہری حقوق تو ختم کیے ہی گئے، انہیں مدارس
اور دواخانہ کی سہولیات سے بھی محروم کر دیا گیا۔ دوسری طرف بہت سے علماء
فقہ کے ایسے موضوعات میں مصروف ہیں کہ واٹر سپلائی کا صحیح طریقہ کیا ہے،
حسّی نجاستیں کیا ہیں، حدث اصغر اور حدث اکبر سے پاکی حاصل کرنے کے طریقے
کیا ہوں گے؟ حالانکہ شام میں ظالمین ایک دوسرے کی مدد کر کے بربریت کا جو
کھیل کھیل رہے ہیں، انسانیت کو گندا کرنے والا کوئی حدث اس سے بڑھ کر نہیں
ہو سکتا "وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا
تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ" (الأنفال:
73) (جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم یہ نہ کرو
گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا)۔ عملی طور پر مسلم امّت اور
بین الاقوامی برادری نے ان مظلوموں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ حالات سے اب
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس بحران کا اب اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ وہ
افواج جنہیں "عربی" افواج کہا جاتا ہے مداخلت کریں اور نگراں وفد کی تشکیل
کے بجائے دفاع کے لیے عرب لیگ کے درمیان مشترکہ معاہدہ ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا
تو اہلِ سنّت علماء کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اعلانِ جہاد
کریں، ایسی صورت میں یہ جہاد ہر مسلم مرد اور عورت پر فرض ہے۔ عورت اپنے
شوہر کی اجازت کے بغیر اور اولاد اپنے والد کی اجازت کے بغیر نکل سکتی ہے۔
ان کی ذمہ داری ہے کہ فارسی یا ان کے سائے میں پلنے والی افواج کا مقابلہ
کریں۔ یہ ظالم فوج ان تمام تاریخی واقعات کا اعادہ کر رہی ہے جس میں خاک و
خون کے بہت سے کھیل کھیلے گئے تھے، جسموں کو عریاں کرنا، سروں کو تن سے جدا
کرنا، جسم سے کھال کھینچ دینا اور جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا اس کھیل کی مختلف
شکلیں ہیں۔ وہ والدین، وہ ماں باپ جن کے بچّوں کو، جن کے جگر گوشوں کو
اذیّت دی گئی اور ذبح کیا گیا ان کے کان میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جب
مشرکین نے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ دھمکی دی کہ ان کے جسم کا مُثلہ
کیا جائے گا تو انہوں نے حیرت انگیز صبر اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے
کہا:
ولست أبالي حين أقتل مسلما
على أي جنب كان في الله مصرعي
( اگر مجھے اس حال میں قتل کیا جارہا ہے کہ میں مسلم ہوں تو مجھے اس کی
پروا نہیں کہ مجھے کس کروٹ موت آتی ہے)
وذلك في ذات الإله وإن يشأ
يبارك على أشلاء شلو ممزع
(یہ تو پروردگار کے راستے میں ہورہا ہے، اگر وہ چاہے تو منتشر جسم کے اعضاء
میں کو بھی مبارک بنا سکتا ہے)۔
لیکن اس قصّہ کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ سعید بنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اس موقع پر موجود تھے، اس وقت تک انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ جب وہ
مسلمان ہوئے اور شام کے شہر حمص کے گورنر بنائے گئے تو ان کی کیفیت یہ ہوتی
تھی کہ لمبے وقت تک ان پر غشی اور بے ہوشی کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ لوگوں
نے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی شکایت کی تو انہوں نے
ان سے وجہ دریافت کی۔ انہوں نے جواب دیا: اے امیر المومنین جب بھی مجھے وہ
دن یاد آتا ہے جب میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
قتل ہوتے دیکھا اور اس وقت میں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی تو میرے اوپر اس
خوف سے غشی طاری ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا کہ تو نے ان کی
مدد کیوں نہ کی تو میں کیا جواب دوں گا؟!۔
شام کے زخمی شہر درعا کی سرحد کے قریب اردنی شہر رمثہ میں میں نے دو دنوں
تک مختلف کیفیات کا مشاہدہ کیا۔ بہت سے مہاجرین کی روداد سنی۔ ہرایک کے پاس
انتہائی درد بھری کہانی ہے۔ ان ہی میں وہ باپ بھی ہے جس کے بیٹے کو مسجد
میں قتل کیا گیا اور اس کی لاش کا مثلہ کیا گیا۔ کچھ دنوں قبل فارسیوں اور
ان کے ہم مشربوں نے مسجد کی دیوار پر لکھا کہ "ہم پھر آر ہے ہیں" اور اس کے
بعد ان کے دوسرے بیٹے کو بھی مسجد سے پکڑ لیا گیا۔ لڑکے کے باپ نے خود
بتایا کہ میرے بیٹے کو پکڑنے کے بعد اسے اذیت دی گئی پھر اسے ذبح کیا گیا
اور اس کے قاتل اس کی لاش بھی ساتھ لے گئے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی لاش اب
کہاں ہے؟، رابطۂ علماءِ اہل سنّت کے وفد کے ساتھ اس سفر میں میں نے جو
مناظر دیکھے اگر اس میں سے چند کی کہانی بھی اگر انسان جذبات کے کان سے سنے
تو کئی بار اس پر بے ہوشی طاری ہو جائے۔ امّت کے اندر وھمی مدد کے بجائے
حقیقی مدد کا حوصلہ اگر نہیں تو ہمیں گھُٹ کر مر جانا چاہئے۔ ملک کے اندر
جو انقلابی سرگرمِ عمل ہیں انہیں ہتھیار سے لیس کرنا ہوگا۔ عرب حکمرانوں پر
یہ دباؤ ڈالنا ہوگا کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے وہ کویتی عوام پر صدام
حسین کے مظالم سے کم نہ سمجھیں بلکہ یہ اس سے بہت زیادہ ہے۔ کیا ہم ایک بار
صحیح قیاس سے کام نہیں لے سکتے؟!، لازمی ہے کہ حقیقی معنوں میں حرکت میں
آکر عسکری اور سیاسی مدد کیا جائے، شمشیر و سناں سے مدد کی جائے، اور اموال
اور افراد کے ذریعہ مدد کی جائے "وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ
بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ" (التوبة: من الآية 71) (مومن مرد اور مومن
عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں)۔ ورنہ ہم انتظار کریں اس دن کا جس دن اللہ کے
سامنے پیش ہوں گے اور یہ کٹھن سوال پوچھا جائے گا: تم نے شامی عوام کی مدد
کیوں نہ کی جب کہ تمہارے دشمنوں نے ظالموں کی بھرپور مدد کی تھی؟!
(المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه، ومن كان في حاجة أخيه كان الله في
حاجته، ومن فرج على مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة، ومن
ستر مسلما ستره الله يوم القيامة) رواه البخاري. (مسلم مسلم کا بھائی ہے۔
وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی دشمن کے حوالے کرتا ہے۔ جو اپنے بھائی
کی حاجت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرتا ہے، جو کسی مسلم کے
دکھ کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عوض قیامت کے دن اس کی مصیبتوں میں
سے ایک مصیبت دور کرے گا، جو کسی مسلم کی ستر پوشی کرتا ہے قیامت کے دن
اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی کرے گا۔) |