السلام علیکم
میرا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانہ سے ہے۔ میری شادی کو بیس سال سے زیادہ کا
عرصہ بیت چکا ہے۔ مگر حالات بہتر نہ ہونے کے سبب میں شادی کے بعد سے ایک
بار بھی انڈیا نہ جا سکا۔ دس سال سے میرے سُسر صاحب بستر علالت پر ہیں اور
انہیں فالج ہے اور اُنکی بیٹی چاہتی ہے کہ ایک دفعہ وہ اپنے والد کو دیکھ
لے ان سے مل لے پھر پتہ نہیں ملاقات ہوسکے یا نہ ہوسکے۔
لہٰذا چند ما ہ پہلے میں نے سوچا کہ کچھ پیسے جمع کرکے انڈیا کے لئے اپلائی
کیا جائے۔ معلومات کیں تو ایسا لگا کہ جیسے مجھے انڈیا نہیں بلکہ شاید
امریکہ یا انگلینڈ جانےکی معلومات کر رہا ہوں۔ اُف میرے اللہ اس قدر مشکلات
کا تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ خیر جناب میں نے سب سے پہلے انٹر نیٹ سے
اسپانسر شپ سرٹیفیکیٹ نکالا اور بزریعہ کوریئر بھیجا وہاں سے سب فارم اٹیسٹ
کرکے فوری طور پر بھیچ دیا گیا ۔ پھر شناختی کارڈ کو انگلش میں ٹرانسلیٹ
کروایا پھر ایک ایفیڈیویٹ بنوایا پھراہم مسئلہ آیا کہ جناب پولیس سرٹیفیکیٹ
بنوانے کا۔
اپنے علاقے یعنی ملیر الفلاح تھانہ میں گیا تو کہا گیا کہ جناب آپ کو چکر
بہت لگانے پڑیں گے لہٰذا بہتر ہے کہ آپ ہمیں دس ہزار روپے دے دیں ہم آپکو
دو دن میں تیا ر کرکے دے دیں گے۔ میں نے کہا کہ بھائی دس ہزار میں کہاں سے
لاؤں گا تو کہا کہ یہ آپ کا مسئلہ ہے ۔ پھر پتہ چلا کہ جناب آپ کے اور بچوں
کے سرٹیفیکیٹ ڈرگ روڈ کا جو تھانہ ہے وہاں سے بنیں گے۔ پھر میں ڈرگ روڈ گیا
تو انہوں نے کہا کہ بن جائے گا اور ایک سرٹیفیکیٹ کے دو ہزار دینا ہونگے۔
اور بچوں کے بھی بنیں گے آپ دس ہزار کے بجائے آٹھ ہزار دے دینا۔ خیر جناب
ادھر اُدھر سے پیسے کرکے ڈرگ روڈ تھا نہ میں دئے اور چار دن کے بعد
سرٹیفیکیٹ مل گئے۔ پھر جناب خوشی خوشی دوسرے سارے کاغذات کے ساتھ ٹی سی ایس
پہنچا انہوں نےبھی کاغذات چیک کئے اور کہا کہ بچوں کا پولیس سرٹیفیکیٹ
بنوانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ بھائی پولیس والے تو کہہ رہے
تھے کہ سب کا بنے گا۔ خیر پھر انہوں نے کہا کہ آپکی تنخواو پچیس ہزار ہونی
چاہئے۔ ورنہ ویزہ ملنا مشکل ہے میں نے کہا کہ بھائی اللہ مالک ھے آ پ بھجوا
دیں ہم گھومنے پھرنے تو جا نہیں رہے بیمار باپ کو دیکھنا ہے انکی بیٹی نے
ہماری تو نیت صاف ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر تین ہزار روپے انہوں
نے لئے اور بھجوادیئے ۔
اللہ اللہ کرکے کچھ دن کے بعد فون آیا کہ اپنے پاسپورٹس آکے لے جائیں۔ خوشی
خوشی گئے وہاں پہنچے تو ایک لفافہ دیا کھولا تو اندر سے سارے کاغذات اور
پاسپورٹس نکلے اور انڈین ایمبسی والوں نے اعتراض لگایا یہ کہ جی آپ کے کا
غذات نا مکمل ہیں۔ یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا ۔ کہ یا اللہ سب کچھ تو بھیجا
تھا پھر ایسا کیوں ہوا شاید اس میں کوئی ہماری ہی بہتری ہوگی۔
پھر کچھ دن گزار کے دوبارہ سے اپلائی کیا تو جناب انہوں نے پھر نیا اعتراض
لگایا کہ تنخواہ ہماری ریکوائرمنٹ سے کم ہے اس لئے ویزہ نہیں دیا جا سکتا
ہے۔ اور ہمارے سارے کاغذات اپنے پاس رکھ کے ہمیں صرف پاسپورٹس واپس کردیئے۔
کاش یہ لوگ پہلے ہی بتا دیتے کہ اگر تنخواہ پچیس ہزار نہیں ہے تو اپلائی
کرنے کی ضرورت نہیں ہے تو شائدمیں اپلائی نہیں کرتا۔ ساری محنت اور پیسہ
بھی ضائع ہوا اور ویزہ بھی نہیں ملا مقروض الگ ہو گیا۔ میری بیگم بھی آنسو
بہا بہا کے خاموش ہوگئی اسکے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ کاش کہ میں غریب
نہ ہوتاتو پھر انکا باپ بھی مجھے ویزہ ضرور دیتا۔
اب بھی یہ دعا ہے کہ اللہ پاک ایک بار میری بیگم کو اپنے ماں باپ سے ملا دے
بس اور کچھ نہیں چاہئے ۔
جس طرح انڈیا والوں نے اتنی سختی رکھی ہوئی ہے ہماری حکو مت کو بھی چا ہئے
کہ وہ اسی طرح انکے ساتھ بھی رویہ اپنالے۔ |