عظیم لڑکی اور ہم

میں نچلے طبقے سے تعلق کھنے والے گھرانے کی لڑکی ہوں ۔ گزشتہ سال بی اے کے امتحانات ہو رہے تھے جب میرے والد کا انتقال ہو گیا ۔پہلے تو پاکستان میں غریب کے گھر لڑکی کا پیدا ہونا ہی جرم ہے ،اور اگر لڑکی خوبصورت بھی ہو تو ناقابل معافی جرم ہے ،اور اگر سر پر والد یا سرپرست کا سایہ نہ رہے پھر تو دنیا ہی جہنم بن جاتی ہے ۔کیونکہ غربت اور خوبصورتی کی میں مرتکب تھی اور والد بھی سر پر نہ رہا تو بھیڑیا صفت سماجی درندوں نے مجھے پریشان کرنا شروع کردیا اخراجات تو شاید میری والدہ پورے کر لیتی مگر انہی سماجی درندوں کی وجہ سے میں نے بی اے کے بعد تعلیم کو خیر بادکہہ دیا ۔مگرپریشان کرنے والوں کا سلسلہ گھر تک آپہنچا اور فون آنا شروع ہو گئے کہ اگر ان کی ڈیمانڈ پوری نہ کروں تو جھوٹے مقدمے الجھا دی جاﺅں گی وغیرہ وغیرہ ، میں کسی قیمت ان کی ڈیمانڈپر نہیں چلنا چاہتی تھی اس لئے میں نے کالج فیلوز سے ڈسکس کیا تو انہوں نے بتایا کہ کبیروالا میں ایک لڑکی فوزیہ کنول عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے مشہور ہے ،تم اس سے ملو شاید مسئلہ حل ہو جائے ۔

ایک دن میں فوزیہ کنول کا پتہ پوچھتے پوچھتے ”گلی نمبر 42نوں شہر غربی ،کبیروالا“میں لکڑی کے ایک ٹوٹے ہوئے دروازے والے گھر کے سامنے پہنچ گئی۔اندر گئی تو ایک سولہ سترہ سالہ لڑکی چہرے پرچٹان سی سنجیدگی سجائے ، ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے بوڑھے کے پاﺅں دھو رہی تھی ۔میں نے سلام کیا اور بتایا کہ آپ سے کام ہے تو اس نے سامنے کچے پکے سے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،آفس میں بیٹھو میں آتی ہوں ۔میں آفس میں داخل ہوئی تو ایک پرانی سی چٹائی ،دو آدھ بُنی کرسیاں اور ایک میز، یہ تھا فوزیہ کا آفس ۔میں کرسی پر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ ان کے حالات تو مجھ سے بھی برے ہیں ،یہ میری مدد کیا کرے گی ۔اتنی دیر میں فوزیہ اندر آئی اور کہنے لگی انتظار کرنا پڑا آپ کو معذرت ،بولیئے !مجھے خوشی ہو گی اگر میں آپ کے کام آسکی ۔

میں نے اپنی رام کہانی بیان کی تو فوزیہ مسکرا کر بولی تمہارے مسئلے کا حل نہ میرے پاس ہے اور نہ ہی پولیس سمیت کوئی سرکاری ادارہ تمہارے کام آئے ۔ہاں تمہارے مسئلے کا حل صرف تمہارے پاس ہے ۔میں نے پوچھا وہ کیسے ؟فوزیہ نے کہا ،اپنے اندر کے خوف کو مار دو،ان لوگوں سے ڈرنا چھوڑ دو، ان کو کہوکہ کرواﺅ جھوٹے مقدمے میں سامنا کروں گی ۔مظلوم نہ بنو بلکہ مظلوموں کی ساتھی بن جاﺅ ذہنی سکون بھی ملے گا اور ایسے لوگوں سے چھٹکارا بھی ۔سماجی خدمت یا صحافت شروع کر دو،میں نے فوزیہ کی باتوں پر عمل کیا تو اب ایک ماہ ہو گیا میں ایسا محسوس کر تی ہوں جیسی میرے اندر ایسی لڑکی نے جنم لیا ہے جو حالات سے لڑنا جانتی ہے اور مسائل سے حوصلے سے ساتھ تیغ آزما ہوتی ہے ۔اب میں ایک مقامی اخبار میں عورتوں کے مسائل پر لکھتی ہوں اور میری صحافتی شناخت کی وجہ سے بھیڑیا صفت لوگوں نے پریشان کرنا بھی چھوڑدیا ہے ۔ یہ سب اس فوزیہ کی بدولت ہے جو مجھ کم تعلیم رکھتی اور عمر میں بھی کافی چھوٹی ہے مگر حوصلے اور شعور میں مجھ سے بہت آگے ہے ۔

فوزیہ کنول نے ہی مجھے اس ویب سائٹ کا بتایا اور شایدوہ خود بھی یہاں لکھ چکی ہے ۔

قارئین !فوزیہ نے جو شعور مجھے دیا اس قرض چُکانا چاہتی ہوں ،شاید میرے الفاظ میری محسن کےلئے سودمند ہوں اور اس کے مسائل حل ہو جائیں ۔شاید میرے الفاظ فوزیہ کے خواب پورے کرنے میں معاون ثابت ہو جائیں اس لئے فوزیہ کا ماضی اور حال آپ سے سامنے رکھ رہی ہوں ۔

تین سال قبل فوزیہ نوویں کی طالبہ تھی جب اس کے جو درزی کا کام کرتے تھے کو والد کو فالج ہو گیا اور ساتھ ہی حسب روایت اس کے ماں باپ پر جھوٹا مقدمہ ہوا تو ایک بہن اور تین چھوٹے بھائیوں سمیت فوزیہ کو سکول چھوڑنا پڑا ۔مقدمہ پرسو کرتے کرتے بات فاقوں تک آگئی ، اس دوران این جی اوز نے بھی فوزیہ فیملی کا پراڈکٹ بنا کر شہرت اور سرمایہ کمایا مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا ۔فوزیہ نے صدر پاکستا ن ، وزیر اعظم ،وزیر اعلٰی پنجاب اور مقامی سیاست دانوں کو خطوط لکھے مگر سب بے سود ۔

جب فوزیہ ساتھ میری طرح کے مسائل شروع ہوئے تو اس نے ہمت ہارے اور ہوس پسند لوگوں کےلئے لقمہ تر بننے کی بجائے جدوجہد کا رستہ اختیار کیا ،فوزیہ نے انسانی حقوق کا عَلم اٹھا لیا اور بھائی کاشف (جس کی عمر اب 14سال ہے )کچہری میں ایک وکیل کے پاس کا م کرنے لگا ۔پوری فیملی اور کبھی پچاس کبھی سو کی دیہاڑی ۔کبھی کھایا کبھی فاقے ۔اور یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے ۔آج بھی فالج زدہ والد چارپائی پر ، والدہ جوڑوں کے دردوں کی مریض ،ایسے حالات میں بھی فوزیہ ہر وقت اپنے جیسے لوگوں کی امداد کے لئے تیار رہتی ہے ۔عورتوں کے ساتھ تھانے ، پوسٹ آفس ،نادرا قصہ مختصر ہر دروازے پر آنے والی عورت کے ساتھ متعلقہ ادارے میں جاتی ہے ۔فوزیہ کا نام تو علاقے میں بہت بڑا مگر اس کے گھر کے معاشی حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

قارئین ہم ہزاروں لاکھوں فضول خواہشات پر خرچ کر دیتے ہیں ،ہمارے سیاست دان لاکھوں کروڑوں اپنی پبلسٹی پر لگا سکتے ہیں مگر فوزیہ جیسے کرداروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا فوزیہ ہماری داد اور امداد کی مستحق نہیں ؟
Zahida Malik
About the Author: Zahida Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.