جو لوگ محمد احمد کاظمی کے
مزاج سے واقف ہیں ان کےلئے یہ تصور محال ہے کہ کاظمی صاحب جیسا خداترس
انسان کسی دہشت گردانہ حملے کا حصہ ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی گرفتاری
پر دہلی سراپا احتجاج ہوگئی۔معروف اردو صحافی مسٹر کاظمی کی گرفتاری اس وقت
ہوئی جب ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج آرہے تھے اور یہ واضح ہوگیا تھا
کہ اترپردیش میں کانگریس کو حسب توقع کامیابی نہیں ملی ہے۔یہ بات اس لئے
اہم ہے کہ مسٹر کاظمی کا وطن یوپی ہے۔ اگر چند روز پہلے گرفتار کرلیا جاتا
تو اس کا اثر کچھ اور ہی نظرآتا۔ ان کا تعلق سنجیدہ اورسیاسی طور پر بیدار
مسلم دانشور طبقے سے ہے اور اسمبلی انتخابات کے دوران مرکز کے ایک مسلم
وزیر اقلیتی رائے دہندگان کو ورغلانے کےلئے 9فیصد ریزرویشن کا وعدہ کرچکے
تھے ، چاہے ان کو پھانسی ہی کیوں نہ دیدی جائے۔مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ
مسلمانوں میں یہ احساس شدید ہے کہ دہشت گردی کے معاملات میں ان کو بیجا طور
پر پھنسایا جاتا ہے۔ یہ احساس بیجا بھی نہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ایک
ممتاز شیعہ صحافی پر ہاتھ ڈالا گیا ہے۔ ان کی گرفتاری پر مختلف مسالک کی
نمائندہ تنظیموں اور شخصیتوں جس طرح ایک آواز میں احتجاج درج کرایا ہے اس
نے یہ پیغام بھی دیا ہے:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاکِ کاشغر
ایک خبر یہ ہے کہ اسرائیلی خفیہ ذرائع نے نئی دہلی میں سفارتکار کی کار پر
حملے سے متعلق کچھ خفیہ معلومات ہندستانی خفیہ ایجنسی’ آئی بی ‘کو فراہم
کیں ۔ اس نے وہ معلومات (ضروری ہدایات کے ساتھ) دہلی پولیس کو بھیج دیں۔
دہلی پولیس نے دو دن مسٹر کاظمی کی فون کالس مانیٹر کرکے ایک رپورٹ تیار کی
جسے دومرکزی وزارتوں(داخلہ اور خارجہ ) کو بھیج دیا گیا۔ان وزارتوں سے چار
، پانچ دن میں کاروائی کےلئے ہری جھنڈی ملی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسٹر
کاظمی کو گرفتار کرنے کےلئے دہلی پولیس کو ہدایات 25یا 26فروری کو ملی
ہونگیں جبکہ اسمبلی انتخابات کے دو مرحلے باقی تھے۔دودن بعد 28یا 29فروری
کو رپورٹ تیار کرکے مرکزی وزاتوں کو بھیجی گئی ہوگی اور انتخابات مکمل ہوتے
ہی کاروائی شروع ہوگئی۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کاروائی محض دہلی
پولیس کے افسران کی صوابدید کا نتیجہ نہیں بلکہ اسرائیل کے دباﺅ میں مرکزی
حکومت بھی شامل ہے جس کی گردن پر اسرائیل اس طرح سے مسلط ہیں کہ ملک کی
خودمختاری بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ چنانچہ کاظمی صاحب کے گرفتاری کے خلاف
جو آواز اٹھی ہے وہ ایک فرد کی رہائی کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اپنے وطن عزیز
کو اسرائیلی چنگل سے بچانے کی صدا بھی ہے۔
اسرائیلی سفارتکار کی کار پر حملے سے چند روز قبل اسرائیل کی خفیہ ایجنسی
کے سربراہ خاموشی سے نئی دہلی کا دورہ کرچکے تھے ۔13فروری کو جس وقت کار پر
حملے کی خبرآئی اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اپنی پارٹی کے ممبران
پارلیمنٹ سے خطاب کررہے تھے اور انہوں نے فوراً اعلان کردیا کہ یہ ایران کی
کاروائی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسرائیلی حکام نے ذہن پہلے سے بنالیا تھا
اور انہوں نے اس کے اظہار سے قبل کسی جانچ کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔ تاہم
ہند نے جانچ پوری ہونے تک ایسے کسی نتیجہ سے اتفاق کرنے سے انکار کردیا
تھا۔لیکن اس انکار سے اسرائیل نے دباﺅ بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کی۔
چنانچہ اس کا ایک جانچ دستہ فوراً دہلی آگیا تاکہ جانچ کی سمت پر نظر رکھے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کویا تو ہماری جانچ ایجنسیوں پر بھروسہ نہیں
یا وہ جانچ کو کوئی خاص رخ دلوانا چاہتی ہیں، جس کی تصدیق بعد کے واقعات سے
ہوجاتی ہے۔
کار میں آگ لگنے کے فوراً بعد ایک’ چشم دید ‘کا بیان فوراً ہی میڈیا میں
آیاتھا جس میں دعوا کیا گیا تھا کہ عین دھماکہ کے وقت ایک سرخ رنگ کی بائک
کو فرار ہوتے ہوئے اس نے دیکھا تھا۔ مگر سی سی ٹی وی کیمروں میں کار کا
پیچھا کرتی ہوئی کوئی موٹر بائک نظر نہیں آئی۔ اس واقعہ کے ایک ماہ بعد اب
اس بائک کا رنگ بھی کالا ہوگیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس تھیوری میں دال میں کچھ
کالا ہو۔حیرت کی بات یہ ہے کہ تادم تحریر( 13مارچ)جلی ہوئی کار کی کیمیاوی
جانچ کی رپورٹ نہیں آئی ہے۔ شاید یہ تاخیر بھی کچھ کہتی ہے۔ بہرحال رپورٹ
آئے تو پتہ چلے کہ مقناطیسی بم کی تھیوری میں کتنی صداقت ہے۔
12مارچ کو اسرائیل کی قومی سلامتی کے مشیریعقوب عمیدرو نے بھی نئی دہلی میں
وزیر داخلہ پی چدمبرم سے پون گھنٹہ ملاقات کے دوران جانچ کے بارے میں اس
طرح تفصیلات سے آگاہی حاصل کی جس طرح کوئی بالادست کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے
ہندستانی ہم منصب پی شو شنکر مینن سے بھی ملاقات کی جو ایک زمانے میں
اسرائیل میں ہند کے سفیر رہ چکے ہیں اور بحیثیت خارجہ سیکریٹری ہند امریکا
نیوکلیائی معاہدے کی تکمیل میں اہم کردار رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں اسرائیل
نے کیا بات منوانے کی کوشش کی ہوگی، یہ سمجھنا مشکل نہیں۔
اسرائیل کیا چاہتا ہے؟
خنجر کی طرح عربوں کے سینے میں پیوست اسرائیل دراصل ایران کی سائنسی فتوحات
سے خوفزدہ ہے۔ ایران نے دورمار میزائیل سازی ،خلا میں سیارہ پہنچانے، ڈرون
طیارے بنانے اور سمندرمیں دور تک نشانہ سادھنے کی ٹیکنالوجی فروغ دے لی ہے۔
اس طرح وہ دفاعی سازوسامان کے اس بازار کے دہانے پر کھڑا ہے جس پر اسرائیل،
امریکا اور یورپی ملکوں کی اجارہ داری ہے۔ یہ اجارہ داری ان کی معیشت کا
بڑا ذریعہ تو ہے ہی ،عالمی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کا ہتھیار بھی
ہے۔ اسرائیل ، امریکا اور ان کے یورپی حلیف یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر ایران
یوں ہی ترقی کرتا رہا تو دنیا کو نچانے کی ان کی اجارہ داری اوران کا
جدیدنوآبادیاتی نظام چرمرا جائیگا۔ بدقسمتی سے عرب ممالک نے سائنسی ترقی پر
توجہ مرکوزنہیں کی اوران کی تیل کی دولت یورپی ممالک اور امریکا کی دفاعی
انڈسٹری میں جارہی ہے جن میں یہودی بڑے حصہ دار ہیں۔ اسرائیل نے اپنی سیاسی
حکمت عملی، فوجی اور اقتصادی طاقت کی بدولت عرب دنیا کو تو پست
کردیااورعربوں کی مزاحمت قصہ پارینہ ہوگئی، مگر ایران کی جانب سے چیلنج
برقرار ہے۔ لبنان میں شکست فاش اور حماس سے محاذ آرائی اور اب شام کے
معاملات میں بھی وہ ایران کا ہاتھ دیکھ رہا ہے جس سے اس کی پریشانی فطری ہے۔
امریکا کی ایران مخالف پالیسی میں بھی امریکی انتظامیہ پر مضبوط گرفت رکھنے
والی اسرائیلی لابی کا ہاتھ ہے۔ ایران کا خطرہ ظاہر کرکے ہی اس لابی کی مدد
سے اسرائیل امریکا سے دفاعی ساز وسامان اور امداد حاصل کرتا رہا ہے۔ اب جب
کہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے نتیجہ میں امریکا اقتصادی طور سے
کھوکھلا ہوچکا ہے، اسرائیل اس پر اور پوری دنیا پر دباﺅ ڈال کر ایک ایسا
ماحول بنانا چاہتا ہے جس میں ایران تباہ ہوجائے اور اس کی سائنسی ترقیات ،
جن میں نیوکلیائی توانائی بھی شامل ہے، رک جائیں۔اسی غرض سے ایران کے خلاف
سخت اقتصادی پابندیاں عاید کی جارہی ہیں۔
ہند کے مفادات
اگرچہ ہندستان نے 1947میں اقوام متحدہ میں اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا
جس کی بدولت اسرائیل کا وجود عالمی نقشے پر قائم ہوا، لیکن مہاسبھا کے لیڈر
ساورکر نے صہیونی ریاست کے قیام کو انتہائی پرمسرت واقعہ قرار دیا تھا۔ آج
بھی سنگھ پریوار اور اس کے پردوردہ افسران اسرائیل کے مدح سرا ہیں۔
اسرائیلی جبر کے خلاف سینہ سپر فلسطینوں کو اسرائیل کی تقلید میں ’دہشت گرد‘
تصور کرتے ہیں ، چنانچہ ہندستان نے اسرائیل کے ساتھ ’دہشت گردی کے خلاف
تعاون‘ کا ایک معاہدہ بھی کرلیا ہے۔ دہلی میں اسرائیلی سفارت کار کی کار پر
حملہ کو بجا طور پر دہشت گردی قرار دیا جاسکتا ہے، مگر اس بات کا بھی امکان
ہے کہ ایران اور ہند کے رشتوں کو خراب کرنے اور اس کے خلاف عالمی رائے عامہ
کو ہموار کرنے کےلئے یہ کوئی موساد کی ہی چال ہوجس کے کارندے دہلی میں
موجود ہیں اور منصوبہ سازی میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ یہ بات بھی قابل ذکر
ہے گزشتہ چند برسوں کے دوران مختلف شعبوں میں شراکت یا تعاون کے نام پر ہند
میں اسرائیل کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے اور ہندستان کا کوئی بھی ترقیاتی
منصوبہ شاید ایسا نہ ہو جس کی تفصیلات اسرائیل نہ پہنچ گئی ہوں۔چنانچہ یہ
سمجھنا درست ہے اسرائیل کے ساتھ یوں شیر و شکر ہوجانا ہمارے اقتدار اعلا
اور قومی مفادات کے منافی ہیں۔ محمد احمد کاظمی کی گرفتاری کو اسی نقطہ نظر
سے دیکھا جانا چاہئے۔ہمارا مفاد اسرائیل یا امریکا کا پچھ لگو بن جانے میں
نہیں، بلکہ ہمارے اپنے قومی مفادات اور تاریخی اورثقافتی رشتے جو ایران کے
ساتھ ان کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ ایران ، چین اور ہند کا مثلت اس
خطے میں ساری عالمی طاقتوں کے چیلنج کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ یہ ممالک اسی
مثلت کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں پاکستان کا بھی اہم مقام ہوگا۔ اسرائیل یا
امریکا کی خوشنودی کےلئے ہندکا اس مثلت سے باہر نکل آنا قومی مفاد کے سراسر
منافی ہوگا۔ جہاں تک ایران سے نیوکلیائی خطرے کا سوال ہے ، یہ خطرہ ہم سے
بہت دور ہے۔ ہمیں دو ٹوک الفاظ میں دنیا کو بتادینا چاہئے کہ ہمارے دو
پڑوسی ممالک کے پاس نیوکلیائی اسلحہ موجود ہے اور دیرینہ کشیدگی کے
باوجودخطہ میں امن ہے۔ ایران سے اگر اسرائیل خطرہ محسوس کرتا ہے تو ہمارے
بھی اس سے دیرینہ رشتے ہیں جن کو ہم اسرائیل کی خطر ترک نہیں کرسکتے۔ اسی
کے ساتھ ہمیں اسرائیل سے یہ مطالبہ کرنے سے شرم نہیں محسوس کرنی چاہئے کہ
وہ داداگیری کی روش چھوڑ کر اپنے پڑوسی عرب ممالک اور ایران کے ساتھ بقائے
باہم کے اصول پر چلے۔
موساد اور آئی بی میں توتو میں میں
موساد کی ایک ٹیم سے دہلی میں مقیم ہے اور عملاً دہلی پولیس کی تفتیش
کوایسے خطوط پر چلانا چاہ رہی ہے جس سے ایران کے خلاف اسرائیل کے موقف کی
تائید ہوجائے۔ اس دوران ہندستان کا ایک بڑا تجارتی وفد ایران گیا ہے اور
ہندستان نے بجا طور پریہ عندیہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف یو این او
کی عاید کردہ پاپندیوں پر توچلے گا لیکن ان مزید پابندیوں کو قبول نہیں
کریگا جو اسرائیل کے دباﺅ میں امریکا اور یورپی ممالک نے عاید کی ہیں۔ اس
سے اسرائیل جھلایا ہوا ہے اور یہ چاہتا ہے ہندستان اپنے مفادات کے بجائے
اسرائیل کے مفادات کو ترجیح دے اور ایران کو اس حملے میں ملوث قرار دیکر اس
سے اپنے رشتوں کو بگاڑ لے۔اس مقصد کو حاصل کرنے کےلئے اسرائیل کتنا پرجوش
ہے اس کا اندازہ اس خبر سے ہوتا ہے کہ موساد کے افسران کی آئی بی کے افسران
سے ملاقات کے دوران خاصی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کی موساد
کے افسر نے آئی بی کے افسر کو ڈانٹ دیا اور کہہ دیا ’بکو مت‘ (shut-up) جس
کا جواب آئی بی افسر نے بھی اسی لہجہ میں جواب دیا۔ لیکن بعد کی خبروں سے
اندازہ ہوتا ہے کہ ہندستانی حکام اسرائیلی دباﺅ میں آگئے ۔ چنانچہ لیکن
ابھی جس وقت یہ سطورقلم بند کی جارہی ہیں (13مارچ، ڈھائی بجے شام) میڈیا
میں ایک خبر پلانٹ کی گئی ہے جس میں ’تفتیش سے باخبرذرائع‘ کے حوالے سے کہا
گیا ہے کہ دہلی پولیس اس نتیجہ پر پہنچ گئی ہے یہ ایران کے سیکریٹ ایجنٹس
کی سازش تھی اور یہ کہ اب ’ قطعی طور‘پر تحقیق ہوگئی ہے کہ مسڑکاظمی ایرانی
انٹیلی جنس افسر کے رابطے میں تھے ،اور سازش کے ایک حصے کو طور پر ایران
بھی جاچکے تھے۔‘ سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ خبر اسرائیلی موساد افسران کی تسلی
کےلئے جاری کی گئی ہے۔
ڈی یو جے کا مطالبہ نظرانداز
صحافیوں کی انجمن ڈی یو جے نے اس گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا
تھا کہ میڈیا میں نامعلوم’باخبر ذرائع‘ کے حوالے سے خبریں لیک کرنے کے
بجائے پولیس کو جوکہنا ہو وہ پریس بیان جاری کرکے یاپریس کانفرنس میں کہے ۔
لیکن میڈیا کے سوالوں سے بچنے کےلئے پولیس پراسرار ذرایع سے خبریں شائع
کراتی ہے اور خودسامنے آنے سے کتراتی ہے ۔ بہرحال خبر میں کہا گیا ہے کہ
پولیس ایک دو دن میںعوام کے سامنے تفصیلات پیش کردے گی۔ یہ مطالبہ بھی کیا
گیاتھا کہ مسٹر کاظمی کیونکہ تفتیش میں تعاون کررہے ہیں اس لئے ان کو ضمانت
پر رہا کرکے تفتیش کو پورا کیا جائے۔ اس کے دوسرے ہی دن کسی پراسرار’ذریعہ‘
سے پریس میں یہ خبر آئی کہ اب مسٹر کاظمی تفتیش میں مدد نہیں کررہے ہیں۔ اس
کامطلب یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ بحیثیت صحافی ایران سے اپنے رشتوں سے متعلق
پولیس کے سوالوں کے جواب وہ دیتے رہے لیکن اس سے آگے ان کے جوابات سے پولیس
کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ سازش کے بارے میں مسٹر کاظمی کو کچھ
پتہ ہوتا تو بتاتے۔ جب کچھ پتہ ہی نہیں تو تعاون کس طرح کیا جائے؟
کاظمی کی گرفتاری سے اضطراب
مسٹر کاظمی کی گرفتاری سے سبھی وطن دوست حلقوں میں شدید اضطراب ہے۔ اسکی
وجہ ایک تو خود ان کی صاف ستھری شبیہ ہے۔ وہ پور ے شعور کے ساتھ اسلام کو
سلامتی کی راہ تسلیم کرتے ہیں اور ہزار ہا صفحات پر مشتمل ان کی تحریروں
میں کہیں ظلم و زیادتی،قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے کسی واقعہ کےلئے
نرم گوشہ تلاش نہیںکیا جاسکتا۔ وہ کس قدر محتاط ہیں اس کا اندازہ ایک واقعہ
سے کیاجاسکتا ہے ۔ کوئی بیس سال قبل افغانستان کے ایک سفر کے دوران ہم
فاتحہ پڑھنے شہنشاہ بابر کے مزار پر پہنچ گئے جہاں مٹی میں دبا ہوا ایک
خالی کارتوس نظرآگیا۔ اس زمانے میں پیتل کے خالی کارتوس جگہ جگہ مل جاتے
تھے ۔میں نے تجسس میں نے اسے اٹھا لیا اور اس پر درج تحریر کو پڑھنے لگا ۔
مگرکاظمی صاحب نے دیکھتے ہی ٹوک دیا۔ میں نے کہا جناب اس کی تو شکل و صورت
بھی مسخ ہوچکی ہے۔ اب کیا اندیشہ ہے؟کہنے لگے’ آغا صاحب احتیاط اچھی چیز ہے‘۔
جو شخص عین عالم شباب میں اس قدر محتاط ہو وہ 50 سال کی عمر میں کیا دہشت
گردی میں معاون بن سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
اضطراب کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کاظمی صاحب کی گرفتاری بظاہربے قصور کلمہ
گو ہندستانیوں کی بیجا گرفتاریوں کی ایک کڑی نظرآتی ہے۔ اس مرتبہ یہ
گرفتاری یقینااسرائیل کی ایما پر ہوئی ہے ۔ اگرچہ پولیس نے ابھی تک یہی کہا
کہ مسٹر کاظمی کو شاید پوری سازش کا علم نہیں تھا البتہ انہوں نے ایک ایسے
شخص کی کچھ مدد کی تھی جس کا اس حملے میں ہاتھ تھا۔ ملک بھر سے ان کی
گرفتاری کے خلاف جو صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے اس پر حکومت کو متوجہ ہونا
چاہئے۔ متعدد مسلم تنظیموں کی رابطہ کمیٹی (CCIM) نے مرکزی وزیر داخلہ پی
چدمبرم، دہلی کے پولیس کمشنر بی کے گپتا، ایل جی تیجندر کھنہ کو خطوط لکھ
کر ملاقات کا وقت مانگا تھا مگر 5دن گزرجانے کے باوجود کوئی جواب نہیں آیا۔
حیرت ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین کے دفتر سے بھی خاموشی ہے۔ یہ
روش صحت مند جمہوریت کےلئے اچھی نہیں ۔عوام کے سنجیدہ اور معقول نمائندوں
کو خاطر میں نہیں لانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے وہ لوگ نمایاں ہوجاتے ہیں جو
اپنی بات منوانے کےلئے دوسرے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ دہشت گردانہ ذہنیت اسی
سرکاری ناقاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اپنی روش
پر نظر ثانی کریگی، کاظمی صاحب کو بغیر مزید ایزادئے باعزت رہا کرے گی اور
کسی بھی صورت کسی کے دباﺅ میں دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب نہیں
کریگی۔ (ختم) |