یہ پرویزی آمریت کے شروع
دنوں کی بات ہے ،جس وقت جبرواستبدادکاسورج سوانیزے پرتھا۔ لاہورکینٹ سے ایک
منجھے ہوئے سیاستدان برادرم اکرم چودھری جوان دنوں عمران خان کے ترجمان تھے
جبکہ آج کل وہ چودھری پرویزالٰہی کے ترجمان اوراپنے فلسفہ سیاست کی خوب
وکالت اوراپنے عہدے سے انصاف کرتے ہیں۔اتفاق سے میں اوربرادرم اکرم چودھری
ایک ساتھ کیمپ جیل میں داخل ہوئے توسپرنٹنڈنٹ جیل کے آفس سے ملحقہ ڈیوڑھی
میں مسلم لیگ (ن)کے سربراہ میاں نوازشریف کے پانچ پیاروں میں سے ایک پیارا
اورمعتوب جماعت مسلم لیگ (ن)کے صوبائی جنرل سیکرٹری رانانذیراحمدخاں ہمارے
منتظر تھے ۔سلام دعا اوررسمی کلمات کے بعد رانانذیراحمدخاں سے تفصیلی
گفتگوہوئی اوراس بات چیت کازیادہ تر حصہ آف دی ریکارڈ تھا ۔دوران ملاقات
مجھے ان کاوجودبظاہرنحیف لگا مگر ان کاحوصلہ کوہ ہمالیہ سے زیادہ مضبوط
اوربلندتھا۔اکرم چودھری نے دوران گفتگو کچھ اہم سوالات بھی اٹھائے جس
پررانانذیراحمدخاں نے اپنے مخصوص اندازمیں ہر ایک سوال کا تسلی بخش جواب
دیا۔دونوں رہنماﺅں کے درمیان کافی بے تکلفی تھی ،برادرم اکرم چودھری نے کئی
بار رانانذیراحمدخاں کی دکھتی رگ پرہاتھ رکھا مگر ان کے چہرے پرگہرااطمینان
تھا۔اگراس وقت ان کے دل میں کوئی طوفان تھا بھی تواس کے اثرات ان کی زبان
تک نہیں آئے تھے۔وہ جیل میں بھی اپنے قائدمیاں نوازشریف کے ساتھ وفاداری
کاعہددہرایاکرتے تھے۔
جس وقت نظریہ ضرورت کے تحت ایک کنگزپارٹی بنانے کیلئے وفاداریاں خریدنے
والی قوتوں نے رانانذیراحمدخاں کے ضمیر کی بولی لگائی تھی توانہوںنے جواب
دیا میں سیاست توچھوڑسکتاہوں مگراپنے قائدمیاں نوازشریف کاساتھ نہیں چھوڑوں
گا۔پھرانہوں نے بڑی جوانمردی سے قیدوبندکاسامنا کیا تاہم2002ءمیں انہیں رہا
کردیا گیا ۔رہائی کے بعد وہ سیاسی طورپرپس منظرمیں چلے گئے اورانہوں نے
اپنے ہونہار صاحبزادے راناعمرنذیرخاں کو امیدوارکی حیثیت سے میدان میں
اتاراجواپنے والدکے آشیربادکی بدولت منتخب قرارپائے۔رانانذیراحمدخاں کااس
وقت کے وزیراعظم میرظفراللہ جمالی سے سیاسی سے زیادہ ذاتی تعلق تھا جس
بناپرمیرظفر اللہ جمالی نے انہیں بار باراپنا مشیر بننے کی درخواست کی
مگررانانذیراحمدخاں مسلسل انکارکرتے رہے مگر ایک روز امام بری ؒکے مزار
اقدس پرمزارکے سجادہ نشین راجہ اکرم نے وزیراعظم ظفراللہ جمالی کی موجودگی
میں رانانذیراحمدخاں کومجبورکردیا کہ وہ وزیراعظم کاساتھ دیں ،لہٰذایہ کہا
جاسکتاہے کہ انہیں ایڈوائزرکاعہدہ اپنے روحانی پیشواراجہ اکرم کی ہدایت
اوران کے حکم پر قبول کرناپڑا لیکن وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کی رخصتی کے
ساتھ ہی انہوں نے اپنے آپ کوناصرف حلقہ تک محدودکرلیا بلکہ عملی طورپر قومی
سیاست سے کافی حدتک کنارہ کشی اختیارکرلی ۔ کنگزپارٹی کے وہ لوگ جو میرظفر
اللہ جمالی کوہٹانے میں پیش پیش تھے وہ رانانذیراحمدخاں کوبھی اپنے مفادات
کیلئے ایک خطرہ سمجھتے تھے لہٰذ ا ان کیخلاف بھی سازشوں کاسلسلہ شروع ہوگیا
اوریوں میرظفراللہ جمالی کے جانے کے فوراًبعد ان قوتوں نے نے کامونکے میں
رانانذیراحمدخاں کے مدمقابل راناشمشاداحمدخاں کو سٹینڈ کرنے کی منظم کوشش
کی اورپنجاب میں پرویزالٰہی حکومت کی طرف سے بھرپور انتظامی حمایت فراہم کی
گئی اور انہیں خصوصی فنڈزبھی فراہم کئے گئے ۔رانانذیراحمدخاں کیخلاف نیب
میں مقدمہ لٹکانے کیلئے بھی سرکاری اورسیاسی اثرورسوخ استعمال کیا گیااوریہ
سلسلہ فیصلہ آنے تک جاری رہا ۔رانانذیراحمدخاں ا س اعتبارسے خوش نصیب رہے
کہ ان کی بیگناہی کافیصلہ آزاد عدلیہ نے اس وقت دیا جب وفاق میں پیپلزپارٹی
کی حکومت ہے اوروہ ممبرقومی اسمبلی کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ
ہیں۔اگروفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوتی اوران کی بیگناہی کافیصلہ
سنایاجاتا تو تاثرضرورابھرتا کہ رانانذیراحمدخاں کی بیگناہی کسی ڈیل
کانتیجہ ہے مگر قدرت اورقسمت رانانذیراحمدخاں پرمہربان ہے جوان کی باعزت
بریت کافیصلہ پیپلزپارٹی کے دوراقتدارمیںسنایاگیا ہے۔پرویزی آمریت میں وہ
بدترین سیاسی انتقام کانشانہ بنے مگرقدرت نے ان کے صبرواستقامت پرانہیں
انعام سے نوازدیا ہے۔
رانانذیراحمدخاں نے2008ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ قائداعظمؒ کی طرف سے
دی جانیوالی دونوں ٹکٹوں کوناصرف واپس کردیا بلکہ متعددلوگوں کی موجودگی
میں چودھری پرویزالٰہی کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے توآپ کے
دوراقتدارمیں بھی ہمیشہ یہ بات کہتارہاہوں کہ میرے قائدمیاں نوازشریف ہیں
توآج یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں اپنے قائد کے نامزد امیدوارکیخلاف الیکشن
لڑوں۔آپ اپنی دونوں ٹکٹیں اپنے پاس رکھیں ۔2002ءمیں راناعمرنذیرنے تومحض اس
مقصدکیلئے الیکشن لڑاتھا کیونکہ ہم اپنے حلقہ کے عوام کوآپ کے رحم وکرم
پرنہیں چھوڑ سکتے تھے ۔ورنہ پرویزمشرف کی طرف سے تو کنگزپارٹی جوائن کرنے
کی صورت میں میرے خلاف انتقامی کاروائیاں بندکرنے سمیت مجھے وزارت داخلہ
کاقلمدان دینے کے متعدد پیغامات آتے رہے مگرمیں نے ان کی کوئی پیشکش قبول
نہیں کی تھی ۔2008ءکی انتخابی مہم کے دوران میاں نوازشریف لاہورسے ایک ریلی
کی صورت میں اسلام آبادکی طرف گامزن تھے جبکہ رانا نذیراحمدخاں ایک جلوس کی
قیادت کرتے ہوئے گجرانوالہ سے کامونکے کی طرف واپس آرہے تھے اوریوں ''جی ٹی
روڈ تے بریکاں لگیاں''اورمیاں نوازشریف نے اپنے پانچ پیاروں میں سے ایک
پیارے کوسینے سے لگالیا اورانہیں مسلم لیگ(ن) کاامیدوارنامزدکردیا اوریوں
وہ ایک بار پھرقومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔
رانانذیراحمدخاں نے نیب کے مقدمات میں اپنی باعزت بریت کافیصلہ آنے کے
بعداپنے آبائی شہرمیں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ
مجھے جرم بیگناہی کی پاداش میں مسلسل بارہ برس سیاسی انتقام کانشانہ بنایا
گیا ۔میراگناہ یہ تھا کہ میں نے اقتدار کیلئے جمہوری اقدار کاتقدس پامال
نہیں کیااور اپنے ضمیر کی قیمت نہیں لگائی۔میں نے ایک فوجی آمراورغاصب
کواپنا آقااورہادی نہیں مانا۔میں نے فوجی آمریت کے مقابلے میں جمہوریت
کاعلم اٹھایااوربحالی جمہوریت کیلئے عوام کوبیدارکیا جس پر میرے پیروں میں
بوگس مقدمات کی بیڑیاںپہناکرمجھے سڑنے اور بے موت مرنے کیلئے کیمپ جیل کی
کال کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا۔جہاں میں نے اپنی زندگی کے تین برس انصاف کی
راہ دیکھتے دیکھتے گزارے مگر میںاس وقت بھی انصاف سے مایوس یاناامیدنہیں
تھا۔مجھے جیل سے رہائی توملی مگرمجھے نو برس تک قومی سیاست میں اپنا فعال
کردارادانہ کرنے دیا گیا۔مجھے زندگی بھر قیدسے زیادہ اس بات کاافسوس رہے
گاکہ فوجی آمر کی ڈکٹیشن پرمجھے مسلسل نو برس ملک اورعوام کی خدمت نہیں
کرنے دی گئی۔میں جانتا تھا کہ پرویزی آمریت کی سیاہ رات طویل ضرورہے مگر اس
کی کوکھ سے انصاف اور روشنی کاسورج ضرورطلوع ہوگا۔پرویزی آمریت کے سیاہ
دورمیں میاں نوازشریف کے مخلص ساتھیوں کوسیاسی طورپر ٹارگٹ کلنگ کانشانہ
بنایا گیا مگرباطل اپنی تمام تردہشت اوروحشت کے باوجود حق پرغالب نہیں
آسکتا۔قدرت نے مجھے بارہ برس بعداپنے ضمیر،اپنے قائدین اوراپنے عوام کے
روبرو سرفرازاورسرخروکردیا ہے۔آزاد عدلیہ کے فیصلے سے میرے دامن پرلگا این
آراوکابدنماداغ صاف ہوگیا۔اب کوئی سیاستدان یاصحافی میری جماعت پاکستان
مسلم لیگ (ن) کواین آراوکے حوالے سے کسی قسم کاطعنہ نہیں دے سکتا۔اب میں
سینہ تان کرقومی سیاست میں اپنا فعال کرداراداکروں گا۔میں بارہ برس تک
بدترین سیاسی انتقام کانشانہ بننے کے باوجودسچے دل سے پاکستان کی آزادعدلیہ
اورمیڈیا کوخراج تحسین پیش کرتا ہوں ،جنہوں نے میرے خلاف رچائی جانیوالی
سازش کوناصرف بے نقاب کیا بلکہ مجھے ایک نیا اعتمادبھی بخشاہے۔
رانانذیراحمدخاں کاکہنا ہے کہ میں اپنے سیاسی اکابرین سے یہ امیدرکھتا ہوں
کہ وہ افرادیااقتدارکی بجائے نظام کی مضبوطی پرزوردیں تاکہ آئندہ کوئی
پرویزمشرف جمہوریت ،آئین،عدلیہ اورمیڈیا کیخلاف مہم جوئی کرنے کی جسارت نہ
کرے اورنہ کوئی وزیراعظم اپنے آئینی اختیارات استعمال کرنے کی پاداش میں
اقتدارسے معزول اوربندوق کی نوک پرملک بدرکیا جائے ۔پاکستان میںاحتساب
کاایک خودمختاراورغیرجانبدارادارہ ناگزیر ہے تاکہ کل کوئی رانانذیراحمدخان
کسی فوجی آمر کے انتقا م اورغضب کی زدمیں نہ آئے۔ملک میں آئین اورقانون کی
حکمرانی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دورکی جائیں۔قومی سیاسی قیادت
سرجوڑکربیٹھے اوربلوچستان کے مسائل کافوری اورپائیدارسیاسی حل تلاش کرے
جوبلوچ قیادت اورعوام کیلئے قابل قبول ہو۔ہم بلوچستان کومشرقی پاکستان نہیں
بننے دیں گے ۔ہم بلوچ عوام کے حقوق کی بھی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح
دوسرے صوبوں کے افرادکی حق تلفی کیخلاف آوازاٹھاتے ہیں ۔قومی اداروں
کوخوامخواہ سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ،فوج پاکستان کی سا لمیت کاضامن ادارہ
ہے ۔عدلیہ ،فوج اورمیڈیا ہماری ریاست کے اہم ستون ہیں ان کااحترام ہم سب
پرواجب ہے۔ |