پیرس کا بریڈنگ کے لئے استعمال
ہونے والا دنیاکا تیسرے نمبرکا ”جوکو“نامی بیل مرگیا ،ہمارے ملک کے ڈیری
فارم والے منتظر ہیں کہ..؟؟
کوئی ہماری یہ بات مانے یانہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ ہماری ماضی کی جتنی
بھی حکومتیں آئیں اِنہوں نے اپنے مفادات کے خاطر قومی خزانے کو خالی ہونے
کا ڈرامہ رچایااور عوام پر طرح طرح کے مہنگائی کے طوفان برپاکرکے اِنہیں
اِس کے شکنجوں میں کَس دیااورآج بھی اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے موجودہ
حکمران جنہوں نے عوام کو روٹی، کپڑااور مکان کا دلفریب اور دلکش نعرہ دے کر
اقتدار حاصل کیا ہے یہ بھی اِس روش پر قائم ہیں آج ہمارے یہی حکمران ہیں
جنہوں نے عوام کو ٹیکسوں کے جا ل میں پھنسانے اور اِنہیں مختلف اندازسے
لوٹنے کے لئے مختلف بہانے ڈوھونڈرکھے ہیں ۔
آج یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سربراہ سابق وزیراعظم اور ملک کی
موجودہ سیاسی صُورتحال میں سیاسی شیرببر کہلانے میں فخرِ عظیم محسوس کرنے
والے میاں محمدنواز شریف کے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب جوایک طرف توکسی
حد تک خود کو شیرببر کہلانے میں عار محسوس کرتے ہیں مگردوسری جانب یہی ہیں
جو خودکو خادم اعلیٰ کی حیثیت سے اپنے صوبے اور ملک کے لوگوں سے داد وصول
کرنے میں ضروراپناامیتاز سمجھتے ہیں ایسی ہی تمام چاپلوسی والی آمیزش سے
بھر پورشخصیت میاں شہباز شریف ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں سوئیڈن کے وزیرخارجہ
سے ایک ملاقات کی تو اِسی دوران اِنہوں نے گفتگوکرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا
کہ’’ملک میں جاری کرپشن اور اسلام آبادمیں موجود حکمران ملک کے لئے زہرقاتل
ہیں “یوں خادمِ اعلیٰ شہبازشریف نے سوئیڈن کے وزیر خارجہ کارل بلڈٹ کو قائل
کرنے کی اپنی حتی الممکن کوشش یہ کر ڈالی کہ ہمارے ملک کے حکمران واقعی
ایسے ہی ہیں جیساکہ یہ کہہ رہے ہیں مگر جب سوئیڈن کے وزیرخارجہ نے اِن کی
اِس بات پر کوئی دہان نہ دیااور اِس پر حامی یا انکار سے متعلق کوئی جواب
نہ دیاتو میاں شہباز شریف نے تُرنت ان کے سامنے کچھ اِس طرح اپنی لب کشائی
کرڈالی کہ روٹی ، کپڑااور مکان دینے کے دعویداروں نے عوام سے سب چیزیں چھین
لیں۔اگرچہ یہ سب ٹھیک ہے یہ وہ باتیں ہیں جنہیں شہباز شریف کارل بلڈٹ سے
کرکے اپنا کلیجہ تو ٹھنڈاکرگئے مگر ساتھ ہی اِنہیں یہ بھی باورکراگئے کہ
جیسے یہی وہ محب وطن پاکستانی سیاستدان اور واحد ملک کے ایسے وزیراعلیٰ ہیں
جواپنی سوچ اور کام کی وجہ سے ہی خادمِ اعلیٰ کہلانے کے صحیح حقدار ہیں۔
حالانکہ ہم یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کو اِس موقع پر سوئیڈن کے
وزیرخارجہ کارل بلڈٹ سے یہ باتیں کرنے کے بجائے کچھ ایسی بامقصد اور ملکی
مفادات سے متعلق کارآمدباتیں اور منصوبوں کے بارے میں ضرور تذکرہ کرنا
چاہئے تھا جو پاکستان اور سوئیڈن کے اپنے اپنے مفادات میں ہوتیں ایسی باتیں
ہرگز نہ کیں جاتیں جن کے بارے میں مندرجہ بالاسطور میں ذکر کیاجاچکاہے۔
اور اِسی کے ساتھ ہی اِس موقع پر ہماراخیال یہ ہے کہ مندرجہ بالا کی گئیں
باتوں سے آج کون واقف نہیں ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے اپنے چار سالہ دور
ِاقتدارمیں ملک اور عوام کا کیا حشرکرکے رکھ دیاہے اَب کسی کے سامنے ایسی
باتوں کا بار بار ذکرکرنے کا مطلب تو یہ ظاہر کرتاہے کہ ہم ایسی کاہل اور
سست قوم ہیں کہ اپنے حالات کو خودنہیں سُدھار سکتے اگر کوئی ہماری اِس حالا
ت پر ترس کھاکر اِسے ٹھیک کردے تو ممکن ہے کہ ہماری کمسپری کچھ کم ہوکرختم
بھی ہوسکے مگر اِس کے ساتھ ساتھ ہماری اِس معاملے میں مددکرنے والے پر یہ
بھی لازم ہے کہ اگر اِس نے ہماری حالاتِ زندگی بہتربنانے کے بعد اپنی امداد
یا مدد بندکردی تو ہم پھر سے اپنے حالاتِ زندگی خراب کربیٹھیں گے اور اَب
آگے اِس کی مرضی کہ یہ ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملاکر ہمارے مددکرے تو ٹھیک
ورنہ ہم اپنے بارے میں پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ ہمارے مددگار نے جہاں ہم سے
ہاتھ کھینچاتو ہم پھر اُسی گڑھے میں اندھے منہ جاگریں گے جہاں سے اِس نے
ہمیں ترس کھاکر نکلاتھا۔
ہاں تو ہم بات کررہے ہیں اپنے اِن موجودہ حکمرانوں کی جنہوں نے قومی خزانے
کو بھرنے کے لئے عوام کے کاندھوں اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کی شکل میں کئی
اقسام کے بوجھ ڈال دیئے ہیں تو وہیں عوام کے گلوں کو مہنگائی کی تیزچھری سے
کاٹنے کے بہانے بھی ڈھونڈرکھے ہیں جس طرح گزشتہ دنوں ایک پرائیوٹ ٹی وی
چینل نے اِس خبرکو نمایاں طور پر نشرکیا اور بعض اخبارات میں بھی یہ شائع
ہوئی کہ” حکومت نے موبائل فون کارڈ ری جارچ کرنے پردوفیصد ”ریڈیوٹیکس
“لاگوکردیاہے جو اِسی ماہ 17مارچ 2012سے نافذہوجائے گا“جس کے بعد اگلے ہی
روز ملکی اخبارات میں ریڈیوپاکستان کے ترجمان کے حوالے سے یہ خبر بھی شائع
ہوئی جس میں اُنہوں نے ”17مارچ2012سے موبائل فون پر ریڈیوٹیکس لاگوکرنے
والی خبرکو کمراہ کُن اور من گھڑت اور حقیقت کے برعکس قرار دیااور اِسی کے
ساتھ ہی ریڈیوپاکستان کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں مزید یہ بھی
کہہ دیاگیاکہ”موبائل صارفین پر ریڈیوٹیکس کے نفاذ سے ہمارا(ریڈیوپاکستان سے
)کوئی تعلق نہیں ہے موبائل کمپنیوں نے اپنے صارفین پر 2فیصدٹیکس ازخوداپنی
آمدنی بڑھانے کے لئے لگایاہے اوراپنے اِسی بیان میں ریڈیوپاکستان کے ترجمان
نے اپنی سخت ناراضگی اور برہمی کا اظہارکرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیاکہ”
میڈیانے بھی موبائل فون کمپنیوں کے اِس اقدام کو توڑ مروڑکر”ریڈیوٹیکس“ کے
طورپر پیش کیاجوکہ غلط ہے ہاں البتہ! ریڈیوپاکستان کے ترجمان نے اپنے بیان
میں ایک موقع پر یہ بات بھی ضرور واضح کردی تھی کہ” ریڈیولائسنس فیس کی
بحالی کی تجویز بالکل الگ معاملہ ہے جس کی آئندہ بجٹ میں پارلیمنٹ سے
منظوری لینی ہے۔جبکہ اُنہوں نے ایک بار پھر سختی سے اِس بات کی تردیدکی کہ
ماہ مارچ سے موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے موبائل فون کارڈری جارچ کرنے پر
دوفیصد”ریڈیوٹیکس “کے لاگوہونے سے ریڈیوپاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے“ اِس
صورتِ حال میں اَب ہم عوام یہ سمجھنے پر کیا مجبور نہ ہوں گے کہ ہمارے
حکمرانوں نے شائد اپنی نااہلی یا ناسمجھی کی وجہ سے دیدہ و دانستہ طور پر
ملک میں موبائل فون کمپنیوں کو عوام کو بے وقوف بناکراِنہیں اپنا منافع
کمانے کے لئے فری ہیڈ دے رکھاہے کہ یہ جس طرح سے چاہیں عوام کی آنکھوں میں
دھول جھونک کر خود بھی کمائیں اور اپنی کمائی سے حصہ قومی خزانے میں بھی
ڈالیں اور اپنے اِس سلسلے کو جاری رکھنے کے لئے مختلف بہانے تلاش کرتیں
رہیں اِس کی پرواہ کئے بغیر کے اِس سے عوام کو کیانقصان پہنچے گا بس یہ
اپنا ہدف عوام سے ہی حاصل کریں۔
اِسی طرح ہمارے سامنے ایک مثال PTCLکی نیٹ سروس کی بھی موجود ہے جی ہاں! پی
ٹی سی ایل کے وہ صارفین جو پی ٹی سی ایل کی انٹرنیٹ سروس استعمال کررہے ہیں
ماہِ جنوری 2012سے محکمہ ٹیلی فون نے اپنے انٹر نیٹ کے صارفین کے لئے ایک
فیملی پیکچ متعارف کروایاہے جس کے مطابق پی ٹی سی ایل کے وہ صارفین جو
انٹرنیٹ کی سہولت بھی استعمال کررہے ہیں اُن کے لئے اِس نے یہ آفر دی کہ
انٹرنیٹ کے وہ صارف جو4GB استعمال کررہے ہیں اوراِس مد میں ہر ماہ 1999روپے
علاوہ فون کال چارجز اپنے بل کے ساتھ اداکررہے ہیں اُن کے لئے2400روپے
بشمول انٹرنیٹ اورلائن رینٹ کے اَب یہ سہولت ہے کہ وہ اِس فیملی پیکچ کے
حصو ل کے بعد ہی سے750 منٹ ہر ماہ ملک بھر میں مفت لوکل کال کرسکیں گے (
علاوہ موبائل چارجزکے)اور جب یہ مفت کال کی حد ختم ہوجائے گی تو پھر اِس کے
اُوپر جوکالیں ہوگیں اُن کا بل لگ کر آئے گا ہم نے بھی یہ سہولت اسلام آباد
سے ایک متحرمہ کی آنے والی ایک فون کال پر حاصل کرلی اور بے فکر ہوکراِس
سہولت سے مستفید ہوتے رہے مگر رواں ماہ جب ایک روز ماہ فروری 2012کا ٹیلی
فون کا بل ہمارے ہاتھ لگاتو ہم اِسے دیکھ کر دنگ رہ گئے ہمیں ایسامحسوس
ہواکہ جیسے ہمارے پیروں سے زمین نکل گئی اور آنکھوں کے آگے
اندھیراچھاگیااور منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکالا کہ ”اُف میرے اللہ یہ کیا
ہوگیا..؟؟اپنی حیرانی کیفیت سے جب ہم نکلے اور ذراسنبھلے تو ہم نے یہ
دیکھاکہ اِس ٹیلی فون بل پر کہیںبھی 2400روپے لکھے ہوئے نظر ہمیں نہیں آئے
جہاں 2400روپے لکھے ہونے تھے وہاں 3570روپے لکھے ہوئے ملے اور بل کی ادئیگی
کی مدت گزرجانے پر 3750روپے لکھے ہوئے نظرآئے اِس منہ توڑ ، سینہ زور اور
سرپھوڑ مہنگائی کے عالم میں ہم جیسے ہینڈتو ماوتھ کمانے والے غریب آدمی کے
ساتھ یہ بل کسی قیامت سے ہرگز کوئی کم نہ تھا اور جب ہمارے ایسے حکمران ہوں
جو ملک کے غریبوں پر مہنگائی کے طوفان نازل کرنے کے لئے طرح طرح کے بہانے
تلاش کررہے ہوں تو پھر یہ ضروری ہوجاتاہے کہ ہم ایسے میں خود کو زندہ رکھنے
کے لئے کچھ کریں یوں پھر اِس بل کو ہاتھ میں تھام کر ہم نے جب 1236پر رابطہ
کیاتو اِس نمبر پر بیٹھے ایک صاحب نے ہماری شکایت سُننے کے بعد ہم سے
انتہائی غصے کے ساتھ گویاکہ اُنہوں نے ہمیں تپ کر یہ کہاکہ” اگرہم آپ کو یہ
سہولت سبزباغ دکھاکر نہ دیتے تو کیاآپ لیتے جناب ہم بزنس کرنے بیٹھے ہیں
کوئی یہ نہیں چاہئے گا کہ اپناکاروبار ٹھپ کرد ے ٹھیک آپ کی شکایت درج کرلی
ہے اور اَب آئندہ یعنی ماہ ِ اپریل 2012سے آپ کا وہی سابقہ پیکچ بحال
کردیاجائے گاجیساتھا مگر جناب یہ ضرور یاد رہے کہ آپ کو ماہ فرروی اورمارچ
2012کے بل اتنے ہی اداکرناہوگے جتنے آئیں گے۔ اَب ایسے میں ہم کیا یہ نہ
تصور کریں کے ہمارے حکمرانوں نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں عوام کو
مہنگائی کے ہاتھوں مارنے کے لئے کس کس طرح کے حربے استعمال کرنے شروع
کردیئے ہیں جنہیں دیکھ کر عوام اِن سے جلدازجلد نجات کے لئے اپنے دامن
اٹھااٹھاکر رب ِ کائنات سے دعائیں مانگ رہے ہیں۔
آج وہ تو اچھا ہواکہ میرے ملک کے شہرکراچی سمیت اکثربڑے شہروں میں دودھ کی
قیمت جہاں ہے وہیں رہ گئی ہے ورنہ تو ایک ایسی خبر پیرس سے آئی ہے اِس کی
ذراسی بھی اگر بھنک ہمارے ملک کے ڈیری فارم والوں کو ہوگئی تو یہ اِس پر
بھی اپنا ہوم روک مکمل کرکے دودھ کے صارفین پر کوئی نہ کوئی پہاڑ ضرور
گرادیں گے خبر یہ ہے کہ” دنیابھر کی ڈیری فارم گائیں منفرد ”جوکو“نامی بیل
کے مرنے پر اُداس ہوگئیں ہیں جو اپنے چلے جانے کے بعدچار لاکھ سے زائد
مویشیوں کو پیچھے چھوڑگیاہے اِس جوکونامی بیل کی خاصیت یہ تھی کہ یہ دنیا
میں تیسرے نمبر کا ایک ایسابیل تھا جو بریڈنگ کے لئے سب سے قوی
سمجھاجاتاتھا“ اِس خبر کو پڑھنے کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے کہ اگر یہ
بیل ہمارے یہاں ہوتایا کسی وجہ سے ہماری سرزمین پرآکرمرجاتاہے توہمیں اِس
بات کا پوراپورایقین ہے کہ ہمارے ملک کے ڈیری فارم والے جہاں اِس کے مرنے
کا غم کرتے سوکرتے مگر اِس کے مرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ لوگ ملک میں
دودھ کی قلت کا مصنوعی بحران پیداضرورکردیتے اور کہتے کہ دودھ کا بحران ملک
میں اِس لئے آگیاہے کہ جوکو نامی بیل کے مرنے پر بھینسیں اور گائیں اور بہت
سے مویشی اداس ہیں اِس لئے ملک میں دودھ کی کمی ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ
ہمیں اِس کمی کے پوراہونے تک دودھ کی قیمتوں میں فی کلو 10روپے کا اضافہ
کرناناگزیر ہوگیاہے ورنہ ہم مویشیوں کی اداسی ختم ہونے تک دودھ کی کمی کو
پورانہیں کرسکتے ہیں اور ڈیری فارم والوں کے اِس جواز پر ہمارے حکمران
خاموشی سے اِن کے ہر مطالبے کو مان جاتے اور اِس طرح ملک بھر میں دودھ اور
دہی کی قیمتوں میں 10روپے فی کلو کا بلاجواز اضافہ ایک جوکونامی بیل کے
مرنے پر کردیاجاتا۔مگر پھر بھی ہم اپنے ملک کے ڈیری فارم کے کرتادھرتاؤں سے
اَب بھی نااُمید نہیں ہیں ہمیں یقین ہے کہ اِس جانب جب بھی اِن کا خیال
گیایا اِنہوں نے ہمارایہ کالم پڑھا یا کسی سے سُناتو یہ ملک بھر میں دودھ
کی قیمتیں بڑھانے یا کم ازکم شہر کراچی والے تو اِس معاملے کو اُچھال کر
دودھ کی قیمت میںمنہ مانگااضافہ کرانے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔
اَب اِسی طرح بھارت سے ایک خبر یہ آئی ہے کہ بھارتی مردم شماری رپورٹ میں
یہ بتایاگیاہے کہ ایک ارب 35کروڑ والی آبادی والے ملک میں کے زیادہ ترگھروں
میں ٹوائلٹ سے زیادہ موبائل فونز ہیں یہاں ہم یہ سمجھتے ہیں یہ تو بھارت ہے
جس کے حکمران اِس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں اگر ایسی ہی کچھ
صورت حال ہمارے ملک پاکستان کی ہوتی جہاں ٹوائلٹ کم اور موبائل فونز زیادہ
ہوتے تو ہم اِس یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران ملک میں ٹوائلٹ ٹیکس
کا نفاذ ضرور کردیتے چاہئے یہ ملک میں اِس ٹیکس سے ملنے والی آمدنی کے بعد
ٹوائلٹ تعمیر کرواتے یانہ کرواتے مگر عوام پر ٹوائلٹ ٹیکس کا بھی ضرور بوجھ
ڈال دیتے اور ہمارے عوام بھی اِس ٹیکس کے نفاذ کے بعد خاموشی سے اِس ٹیکس
کی ادائیگی کررہے ہوتے وہ تو اللہ کابڑاکرم ہے کہ آج ہمارے ملک میں موبائل
سے زیادہ ٹوائلٹ اور بہت سی ایسی آشائش زندگی کی فراوانی ہے جن سے آج تک
ایک ارب 35کروڑ والے ملک بھارت کے لوگ محروم ہیں وہ تو اچھا ہے کہ ہمارے
حکمرانوں کی عوام سے نفرت اوراِن کی ٹیکس کے نفاذ سے محبت کی پالیسی ہے کہ
یہ ہم پر ٹیکس کے فوری نفاذ اور اِس طرح عوام کو لوٹنے کے مختلف بہانے
ڈھونڈتے رہتے ہیں ہمارے حکمران ٹیکس کے نفاذ میں بھارتی حکمرانوں سے آگے
ہیں اَب ایسے میں ہم بھارتی حکمرانوں کواپنایہ مشورہ ضروردیناچاہیں گے کہ
یہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے وہ اپنے ملک ٹوائلٹ ٹیکس کا نفاذکرکے اپنے یہاں
زیادہ سے زیادہ ٹوائلٹ تعمیر کروائیں خدانخواستہ کبھی پاک بھارت بگاڑ کی
صورت پیداہوگئی تو ایسے میں اِن کے عوام کہاں بھاگتے پھریں گے تو اِس کیفیت
سے اپنے عوام کو بچانے کے لئے بہت ضروری ہے کہ بھارتی حکمران اپنے یہاں
ٹوائلٹ ٹیکس کا فوری نفاذکرکے اپنے ملک میں موبائل فونز سے زیادہ ٹوائلٹ کی
تعداد بڑھانے کا انتظام کریں۔(ختم شد) |