چاروں طرف پولیس پھیل چکی ہے
ہماری گلی میں پولیس کی گاڑیاں گشت کررہی ہیں چھوٹے بھائی نے مجھے اٹھاتے
ہوئے سہمے ہوئے لہجے میں بتایا تو میں بھی ہڑبڑا کر اٹھ گیا اتوارکو آفس سے
چھٹی کی وجہ سے دیر تک سونا معمول بن چکاہے لیکن یہ بات سن کر نیند آنکھوں
سے غائب ہوگئی اور انجان وسوسوں میں ڈوب کر سوچنے لگا کہ مجھ سے ایسی کون
سی خطا ہوگئی ہے جو پولیس ریڈ کرنے کے لئے اپنی پوزیشنیں سنبھال رہی ہے
دماغ میں کسی حصے سے یہ سوال ابھرا کہ شاید تو نے اپنے کالم میں کوئی ایساا
نکشاف کردیا ہے جو نہیں کرنا چاہئے تھاپھر یہ بات ذہن میں آئی کہ اگر پولیس
نے مجھے اریسٹ کرنا ہوتا تو اتنی زیادہ نفری کی ضرورت تو نہیں تھی شاید
کوئی اور وجہ ہوگی،یہی وجہ جاننے کے لئے جب گھر سے باہر نکلنے لگا تو ایک
کرخت آواز نے روکتے ہوئے کہا آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اسی اثنا میں نگاہ جب
اوپر اٹھائی تو معلوم ہوا کہ پولیس کے جوان اسلحے سے لیس ساتھ کی چھتوں پر
بھی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہیں پولیس کی مستعدی اور پوزیشنیں دیکھ کر
اندازہ لگایا کہ شاید کسی خطرناک مجرم کی گرفتاری کے لئے کوئی گرینڈ آپریشن
ہونے والا ہے اور اسے گھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن یہ سب باتیں اور سب
قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوگئیں جب معلوم ہوا کہ ساتھ والے گھر میں تعزیت کے
لئے سائیں گیلانی آئے ہوئے ہیں ۔
جتنی دیر یوسف رضا گیلانی صاحب ہماری گلی میں رہے اتنی دیر تک لوگ پریشان
ہوتے رہے ،اہل علاقہ کی پریشانی اس وقت ختم ہوئی جب سائیں گیلانی اپنا
مبارک قدم اس علاقے سے دور لے گئے لیکن انہیں لوگوں کی پریشانی کا علم بھی
نہیں ہوا ہوگا کیونکہ عوام اور خواص میں کافی فرق ہوتا ہے اور عوام کو اپنے
وی۔آئی۔پی کے لئے تھوڑی بہت تکلیف برداشت کرنا چاہئے۔
جب آپ کہیں جا رہے ہوں راستے بند ملیں، گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر
آئیں،عوام پریشان دکھائی دیں ایک شورسنائی دے ،ہارن بجتے دکھائی دیں ،ٹریفک
وارڈنزمیں کھلبلی مچی ہوئی ہو اور وہ الرٹ نظر آئیں،پولیس موبائلز اور
ہُوٹر کی آواز آرہی ہو تو سمجھ جائیں کہ آپ کا کوئی وزیریا کوئی وی۔آئی۔پی
گزر رہا ہے اس سپشل موومنٹ میں آپ کو ٹریفک میں ایمبولینسیں بھی پھنسی نظر
آئیں گی اور اس میں موجود کوئی انساں زندگی اور موت کی کشمکش میں بھی ہو گا
لیکن ہمارے وی۔آئی۔پی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ان کے کانوں پر
جوں تک بھی نہیں رینگے گی کیونکہ وہ خواص میں سے ہیں اور عوام کا اپنے خواص
کے لئے تکالیف برداشت کرنا ایک معمولی سی بات ہے ۔
جس معاشرے میں طبقاتی تفریق بڑھ جائے ،سٹیٹس کا فرق نظر آنے لگ جائے
،امراءاور غرباءکی علیحدہ علیحدہ کیٹیگریز بن جائیں تو اس معاشرے سے انصاف
اٹھ جاتا ہے اور وہ معاشرہ تنزلی اور زوال پذیری کا شکار ہوجاتا ہے بدقسمتی
سے اس وقت وی۔آئی۔پی کلچر نے عوام اور حکمران طبقہ کے درمیان فاصلے بڑھا
دیئے ہیں جس کی وجہ سے حکمرانوں کو عوام کی پریشانیوں کا ،ان کے دکھوں
کا،ان پر آنے والی مصیبتوں کا اور ان کی محرومیوں کا پتا نہیں چلتا ،شاید
اس لئے وہ ان کے دکھوں کا مداوا نہیں کرتے۔
ہمارا حکمران طبقہ خود کو عوام کا خادم کہتے ہوئے نہیں تھکتا لیکن حقیقت
میں یہ عوام سے کافی فاصلے پر ہوتے ہیں اپنی لچھے دار باتوں سے عوام کو بے
وقوف بناتے رہتے ہیں اور یہ سادہ اور بھولی قوم ”جئے اور زندہ باد“کے فلک
شگاف نعرے لگاکر اپنی توانائیاں ضائع کرتی ہے اگر حکمران طبقہ کو واقعی
عوام کا خادم بننا ہے تو پھر یہ وڈیرہ شاہی کے چوغے کو اتار پھینکنا
ہوگا،وی ۔آئی۔پی کلچر کو خیرباد کہنا ہوگا ،عوام کی خبر گیری کے لئے ان کے
در در پہ جانا ہوگا،کیونکہ رعایا کی خبر گیری کرنا حکمران طبقہ کا فرض بنتا
ہے اور قیامت کے روز ہر کسی سے اپنی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا خلیفہ
دوم حضرت عمرؓ جب خلیفہ کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے فرمایا ”اگر
دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تو پوچھ عمر سے ہو گی“وہ
دنیا کی اتنی بڑی سلطنت کے مالک تھے لیکن ان کی زندگی فقیروں کی طرح تھی
ہمارے حکمران طبقہ کو بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سادگی کو اپنا شعار
بنانا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ قوم کا حاکم قوم کا خادم ہوتا ہے ۔ |