کوہاٹ اڈہ پشاور میں ٹیری /نری
پنوس فلائنگ کوچ سٹینڈ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والے دہشت گرد وں کو
حکومت کی طرف سے وارننگ دی گئی ہے کہ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے
گا اور عوام اپنی بقا کی خاطر مزید قربانیاں دیں گے وہ دہشت گردوں سے ڈرنے
والے نہیں مجھے حکومتی عناصر کی ان مذمتی بیانوں پر ہنسی اور رونا آرہا ہے
کیونکہ جب سے دہشت گردی کے خلاف ہمارے عوام ایندھن بنے ہیں تب سے ہر حادثے
کے بعد یہی بیانات میڈیا پر جاری ہوتے ہیں جس سے ان دردوں کا مدوا نہیں
ہوسکتا جس سے وہ خاندان گزر تا ہے ہر حادثے کے بعد سیاسی لیڈر کا یہی بیان
جائے وقوعہ پر آکر ہوتا ہے جو کہ ایک رٹا رٹایا بیان ہوتا ہے خواہ وہ
افتخار کی جانب سے آئے یا کسی اور کی جانب سے لب لباب ایک ہی ہوتا ہے بیان
ایک ہی ہوتا ہے جنگ جاری رہے گی صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہوتا ہے کبھی کوئی
لفظ آگے تو کبھی کوئی لفظ پیچھے ہوتا ہے دہشت گردوں کے سامنے دٹے رہیں گے
ہمارے تحصیل بانڈہ داؤدشاہ کے عوام جو پہلے ہی سے مختلف قسم کے مسائل سے
دوچار ہیں ان کے لئے یہ سانحہ بہت بڑا تھا کوئی گھر ایسا ہوگا جہاں سے اس
دن اس حادثے کی معلومات کے لئے فون نہ آیا ہو ہر کوئی اپنے پیاروں اور
پشاور شہر میں رہنے والے دوستوں کے لئے فکر مند تھا اور یہ فکر مندی آپس
میں محبت ویگانگت کا ثبوت ہے جس کی لڑی میں اس علاقے کے لوگ پروئے ہوئے ہیں
ہم سے بہت سے دوستوں نے یہ سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو ہی
نشانہ بنایا گیا ہمارے فلائنگ کوچوں کے پیچھے ہی بارودی مواد سے بھری گاڑی
کھڑی کی گئی اور پھر ریموٹ کنٹرول سے گاڑی کو اڑا کر غریب مزدوروں کو تباہی
سے دوچار کیا گیا آخر کیوں کیا اور جگہیں نہیں تھیں ان کو ہمارا ایک ہی
جواب ہوتا کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں کہ ہم ہی ٹارگٹ ہیں پورا پشاور
نشانے پر ہے پورا ملک نشانے پر ہے ان کے سامنے یہ نہیں ہے کہ یہ خٹک ہے یہ
آفریدی ہے یہ مہمند ہے یا کسی اور قبیلے سے تعلق رکھنے والا ہے ان کا ایک
ہی مقصد ہے خوف وہراس پھیلانا حکومت کو کمزور کرنا حکومت کی پالیسیوں پر
اپنا ردعمل ظاہر کرنا جب کوئی صبر کے آخری درجے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے
سامنے کچھ نہیں ہوتا وہ یا تو خود کو نقصان پہنچاتا ہے یا پھر دوسرے کو اگر
کمزور ہے تو خود کو ختم کردیتا ہے اگر تھوڑی بہت طاقت ہے تو بدلہ لینے کے
لئے اپنے دشمن کو زیر کرتا ہے اور کوئی بھی ہھتکنڈا استعمال کر لیتا ہے اور
ان عناصر کے ساتھ یہی مسئلہ ہے میں نہ شدت پسندوں کی طرف مائل ہوں نہ ہی
حکومت کے ساتھ ہوں درمیانہ راستہ اللہ نے دکھایا ہے تو اسی راستے پر گامزن
ہوں اس حادثے سے پہلے ایک دو روز پہلے دو بارودسے بڑی گاڑیوں کی اطلاع
پشاور شہر میں موجودتھی جس کی تلاش جاری تھی مگر ایک گاڑی نے بدقسمتی سے
ہمارے ٹیری اسٹینڈ کا راستہ دیکھ لیا ہمارے صبر کا امتحان دیکھنے کے لئے
ہمیں ہی چن لیا گیا دکھ تو اس حادثے پر بہت ہوا مگر ہونی کو کون ٹال سکتا
ہے اور جب اس قسم کے واقعات سے سامنا ہوتا ہے تو احساس کا گھوڑا دوڑنے لگتا
ہے مگر سمجھ میں کچھ نہیں آتا کیونکہ ان حادثات میں ایک بندہ نہیں مرتا
پورا خاندان مرتا ہے ایک فرد کے ساتھ جڑے ہوئے سارے لوگ مر جاتے ہیں کسی سے
بیٹا چھن جاتا ہے کسی سے بھائی کسی سے شوہر اور کسی سے باپتا چھن جاتی ہے
ایک گھر میں دس افراد کا کنبہ ہے پورا گھر مر جاتا ہے اور یہ دکھ کیا کم
ہوتا ہے کہ وہ اکیلا کمانے والا ہو اور صبح ایک آس اور امید سے گھر و الوں
سے اجازت مانگ کر نکلا ہو اور بھر اس کی شام کو لاش خون میں لت پت آتی ہے
اس ماں کے دل پر کیا بیتتی ہوگی اس بیوی پر اس بھائی پر اور اس بہن پر کیا
بیتتی ہوگی جس نے صبح سویرے ہی اپنے بھائی کو چھوٹی سی بات پر ناراض کیا ہو
خواہ وہ ناراضگی مذاق میں ہو مگر وہ وقت بلائے نہیں بھولتا وہ لمحات یاد
آکر دلوں کی عجیب حالت کرتے ہیں اس حادثے سے متعلق ہر گھر میں کہانیاں جڑی
ہونگی کہیں پر کوئی اکلوتا وارث ہوگا کہیں پر کماؤ پوت ہوگا مگر ان کو کیا
جنہوں نے یہ حرکت کی ہے یا ان کو کیا جن کے لئے جن کی بدولت یہ حرکت کی گئی
ہے دونوں نے اپنی طرف سے غریب عوام پر قیامت کا سماں پیدا کردیا صبح گھروں
سے نکلنے والے شام کو تابوتوں یا پھر خون میں لت پت آئیں حکومت کو فرق نہیں
پڑتا دہشت گردوں کو فرق نہیں پرتا فرق پڑتا ہے تو ان کو جن کے ساتھ یہ
حادثہ پیش آیا ہے اس حادثے سے کتنے لوگ سوگوار ہوئے ہیں کتنوں کو دکھ ہوا
ہے یہ دکھ عارضی ہے ایک دن گزرنے کیساتھ خبر باسی ہوجاتی ہے اور پھر نئی
خبر کے لئے تلاش شروع ہوجاتی ہے نیا دھماکہ ہوتا ہے نئی کہانیاں ہوتی ہیں
نئے پلاٹ بنتے ہیں نئے کردار پیدا ہوتے ہیں نئے الفاظ کی ہیرا پھیری ہوتی
ہے مذمتی بیان جاری ہوتے ہیں مرنے والوں کے لئے پیسوں کے اعلانات ہوتے ہیں
زخمیوں کے لئے بھی اعلانات ہوتے ہیں بات آئی گئی ہوجاتی ہے اور پھر ایک نیا
دھماکہ ہوتا ہے جس طرح ٹیری فلائینگ کوچ اسٹینڈ پر دھماکہ ہو اجس پر جتنا
اور ٹیری والوں کو دکھ دہوا اتنا دکھ ہمیں بھی ہوا وہ جگہ دیکھنے کی آنکھ
میں ہمت نہیں تھی ایک قیامت کا سماں تھا ہر طرف خون ہی خون اور اعضاء بکھرے
پڑے تھے یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر کچھ دن پہلے گاؤں
سے آنے کے بعد ہم کھڑے تھے ایک ہیبت ناک کیفیت تھی اپنے علاقے کے لوگوں کے
لئے فکرمندی احاطہ کئے ہوئے تھی زخمیوں اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ
ہورہا تھا اور گاؤں کے کچھ افراد لاپتہ تھے جن کے لئے فون پر فون آرہے تھے
جائے وقوعہ کے بعد ہسپتال میں تل دھرنے کے لئے جگہ نہیں تھی ایک افراتفری
کا ماحول تھا اس سے پہلے بھی ہم دھماکوں کی کوریج کے لئے آئے تھے مگر آج
صورتحال الگ تھی اس وقت مجھے اپنے دوستوں کی باتیں یاد آگئیں کہ تم کرک کے
لوگ بہت زیادہ قوم پرست ہو دوسروں پر اپنوں کو فوقیت دیتے ہو مگر دلوں میں
اپنوں کے لئے کینہ بھی ہوتا ہے اس افراتفری کے عالم میں مجھے اپنے ضلع کرک
کے کچھ شناسا چہرے نظر آئے جو ادھر ادھر بھاگ رہے تھے ہمیں فکر لاحق ہوئی
کہ شاید کرک کے تحصیل کے بھی کچھ لوگ اس حادثے کا شکار ہوئے ہوں وہ تجسس
زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور ہمیں عدنان، نبیل ،ظفر خٹک بھائی سے آمنا
سامنا ہوگیا جن کا کام انسانیت کی خدمت تھا انہوں نے اس حادثے کے فورا بعد
مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں سے اپنے خٹک قوم کے نوجوانوں کو اکھٹا کیا
اور پل بھر میں چالیس سے زیادہ خون کے بیگ دے ڈالے تاکہ زخمیوں کو خون کی
کمی نہ ہونے پائے اور یہ پہلی بار نہیں تھا ان کے بقول جب بھی ایسے حادثات
ہوتے ہیں ہمارے نوجوان آگے اکر اپنے حصے کا کام نمٹاتے ہیں اور تب مجھے
اپنے لوگوں پر بے تحاشا پیار آیا کیوں کہ رکھتے ہیں جو اوروں کے لئے پیار
کاجذبہ وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھر ا نہیں کرتے -
اس سانحے میں ٹیری سے ملحقہ علاقے شگئی کا رہائشی جو کہ پیشے کے لحاظ سے
ڈرائیور تھاایک ملنسار اور ملنگ صفت انسان تھا کوئی فضول بات میں نے اس سے
دوران سفر نہیں سنی جتنا بھی اس کے ساتھ سفر کیا اپنی ڈرائیونگ پر ہی توجہ
مرکوز رہتی وہ اس سانحے میں جانبر نہیں ہوسکا اور داعی اجل کو لبیک کہہ گیا
جبکہ علاقے کے اور افراد سبحان، تبریز، محمد امین، قسمت استاد ، جلیل اور
ایک خاتون سمیت کئی افراد زخمی ہوگئے ایک سانحہ بلا کا تھا جو گزر گیا مگر
یہ سانحہ دلوں پر نقش رہے گا خدا ہمیں اپنے حفظ امان میں رکھے آمین - |