جمہوری تھپڑ

موجودہ حکومت کی جمہوریت نے اس قوم کو بڑے بڑے انعامات سے نوازا ہے۔کبھی بھوک سے کبھی پیاس سے کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے لالی پاپ سے تو کبھی لوڈ شیڈنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے۔ اس کے علاوہ دھکے ٹُھڈے اور تھپڑفری میں یعنی ایک مصیبت کے ساتھ دوسری مفت والا پیکج۔تھپڑ سے یاد آیا ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایک جمہوریت کی کھلاڑی نے پولنگ سٹیشن پر تعینات ایک سرکاری ملازمہ کو اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے کے انعام میں تھپڑ عطا فرمایا تھا ۔لیکن اُس تھپڑ کی گونج معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی جو میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ حرکت سے پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں سنائی دی۔۔۔لو کر لو میڈیا آزاد۔۔۔ساری کی ساری فساد کی جڑ ہی یہ میڈیا والے ہیں ٹُٹ پینے۔۔۔کیا ضرورت تھی اتنا شور مچانے کی۔ایک تھپڑ ہی تو پڑا تھا بیچاری کو کون سی قیامت آگئی تھی اور ویسے بھی یہ کون سی اتنی حیرت والی یا اتنی پریشانی والی بات تھی جس کو اتنا زیادہ High Light کیا گیا تھا ۔ جس نے تھپڑ کھایا وہ معصوم تو چپ کر کے بیٹھی رہی تھی اُس نے تو سر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا بس میڈیا والے ہی بار بار اُس سین کو دکھاتے رہے تھے ۔موصوفہ نے تو اس لیئے سب کچھ یہ سوچ کر برداشت کر لیا تھا کہ یہ کون سی نئی بات ہے۔ یہ کون سا پہلا تھپڑ ہے جو انسانیت کے چہرے پر پڑا ہے۔ یہ کون سا پہلا جمہوری بدمعاش ہے جس نے ایک انسان کے ساتھ زیادتی یا بد تمیزی کی ہے۔ اس طرح کے تو ہزاروں بلکہ لاکھوں واقعات پیش آتے رہتے ہیں وہ بھی جمہوری حکومت میں۔یہ تو وہ تھپڑ ہے جو میڈیا کی وجہ سے ساری قوم پر واضع ہو گیا ہے ۔ نہ جانے ایسے کتنے تھپڑ ہوں گے جو مجبوری کا لبادہ اوڑھ کر دم توڑ جاتے ہوں گے۔

محترمہ وحیدہ شاہ جب لوگوں کے پاس ووٹ مانگنے کے لئے گئی ہوں گی تو اُنہوں نے کیا لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ قسم کی ڈرامے بازی نہیں کی ہو گی۔اُنہوں نے اپنی پارٹی کی کارکردگی(بے کار کردگی) کی تعریف کے پل بھی باندھے ہوں گے ۔ مرحومہ بے نظیر صاحبہ کا نام لے کر لوگوں کو جذباتی بھی کیا ہو گا اور تو اور جناب صدر آصف علی زرداری صاحب کو دنیا کا سب سے زیادہ ایماندار ملک کا وفادار قوم کا ہمدرد اور وعدے پورے کرنے والا سچا اور کھرا انسان بھی ظاہر کیا ہو گا بلکہ لوگوں کا اس بات پر یقین پختہ کرنے کے لئے قسمیں اور قرآن بھی اُٹھا ئے ہوں گے۔ایک عورت ہونے کے ناطے میں ایک عورت کا دکھ درد اچھی طرح سمجھتی ہوں یہ بھی کہا ہو گا۔میں اقتدار میں آ کر سب عورتوں کو اُن کے حقوق دلاؤں گی یہ بھی فرمایا ہو گا۔مجھے الیکشن جیت جانے دو پھر آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے ایسے وعدے بھی کئے ہوں گے۔

اور وہ سب کچھ جھوٹ سچ بلکہ جھوٹ جھوٹ جو کہ ہر امیدوار الیکشن سے پہلے کہتا ہے اور الیکشن جیت جانے والی رات کو ہی بھول جاتا اگر یاد رہتا ہے تو بس اتنا کہ اب الیکشن پر لگائے گئے پیسے کیسے پورے کرنے ہیں ۔ اپنے مخالف کو کیا کیا نقصان پہنچانا ہے۔اپنے حلقے کے لوگوں پر کیسے حکمرانی کرنی ہے۔ نوکریاں لگوانے کے عوض کتنے کتنے پیسے لینے ہیں ۔ کون سی زمیں پر قبضہ کرنا ہے۔بینک سے قرضہ کتنا لینا ہے۔کس دشمن کو راستے سے ہٹانا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔

لیکن یہ سب کچھ محترمہ وحیدہ شاہ نے وقت سے پہلے ہی کر دکھایا اگر تھوڑا سا صبر کر لیتیں تو شائد بات اس حد تک نہ بگڑتی۔۔۔ بات تو اب بھی نہیں بگڑنی تھی اگر میڈیا والے اپنا کردار ادا نہ کرتے اور الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ تک بات نہ جاتی۔ورنہ ڈی ایس پی صاحب تو اپنی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر پاس کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔اُنہوں نے اس لئے ہمت نہیں کی کہ وحیدہ صاحبہ نے الیکشن جیت کر ایم پی اے تو بن ہی جانا ہے اور اگر میں نے دخل اندازی کی تو کل کو یہ میری پینٹ بھی اُتروا سکتیں ہیں اس لئے اُنہوں نے اپنی پینٹ کو بچانے کے لیئے جیبوں میں ہاتھ ڈال لیئے تھے۔ یہ ہوتی ہے جرات اور بہادری یہ ہوتی ہے فرض کی ادائیگی۔اسے کہتے ہیں قانون کی حفاظت۔لیکن پینٹ بیچاری پھر بھی نہ بچ سکی ۔ڈی ایس پی صاحب کو تو اپنی پینٹ کی قربانی دینا پڑی اور وحیدہ صاحبہ کو اپنی سیاست کی۔اگر دیکھا جائے تو ایک معمولی سے تھپڑ میں بھی اتنی طاقت ہو سکتی ہے۔۔۔دراصل یہ معمولی تھپڑ نہیں تھا یہ تو ایک جمہوری تھپڑ تھا۔
Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100502 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.