بعض اوقات انسان لالچ میں آکر
اپنا سب کچھ گنوا دیتا ہے۔ شیطان ایسی ترغیب دیتا ہے کہ انسان اس کی باتوں
میں آجاتا ہے اور ایمان جیسی دولت چھن جاتی ہے۔ جندن شاہ ہمارے علاقے میں
جانی پہچانی شخصیت تھا۔ شروع میں نیک دل انسان تھا۔ غربت تھی مگر اس کے
باوجود ابھی ایمان باقی تھا۔ پھر شیطان نے ایسا غلبہ کیا کہ امیر ہونے کے
چکر میں پڑگیا۔ پہلے تو سونا بنانے والوں کے پاس پھرتا رہا۔ کافی وقت وہاں
ضائع کیا۔ کئی کئی دن گھر سے غائب رہتا۔ جب بھی کوئی پوچھتا کہ سونا کہاں
تک پہنچا۔ یہی جواب دیتا کہ بس تھوڑی کمی رہ گئی ہے۔ آئندہ بن جائے گا۔
تھوڑی بہت زمین تھی وہ بھی اسی سونا بنانے کی نذر ہوگئی۔ وہاں سونا بناتے
ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اسم اعظم تلاش کریں۔ اگر اسم اعظم مل جائے تو پھر
وارے نیارے۔ اب اسم اعظم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ مختلف افراد کے پاس
جانا شروع کردیا۔
اللہ والوں کے پاس گئے۔ انہوں نے نوافل پڑھائے اور وظائف شروع کردئیے جن سے
باطن صاف ہوتا ہے مگر ان کا یہ مقصود نہیں تھا۔ گو کہ ان کا باطن صاف ہورہا
تھا مگر ان کی تسلی نہیں ہورہی تھی۔ مایوس ہوکر گھر کے قریب مسجد میں بیٹھ
گئے اور اللہ اللہ شروع کردی۔ اللہ تعالیٰ نے کرم کیا تنگی خوشحالی میں
بدلنے لگی۔ کچھ اراضی ٹھیکے پر لے کر کاشت شروع کردی اللہ نے برکت دی فصل
اچھی ہوئی اور کافی نفع کمایا۔ اس کے ساتھ اور اراضی ٹھیکے پر لے لی اس بار
بھی اچھی فصل کی وجہ سے اچھی خاصی رقم ہاتھ آئی۔ میڈیکل سٹور کھول لیا۔
اللہ پاک نے برکت ڈال دی مگر امیر ہونے کی خواہش ختم نہ ہوئی بلکہ مزید شدت
بڑھ گئی جو اراضی ٹھیکے پر لی تھی اس کو خرید کرنے کی شدید خواہش پیدا
ہوگئی اور اس سلسلے میں لوگوں کے پاس چکر لگانے شروع کردئیے۔ ان میں سکھ‘
ہندو شامل تھے۔ ہندو نے منتر بتائے وہ پڑھے اس دوران ایک شخص ان کے پاس آیا
واقف کار تھا۔ جندن شاہ نے اپنا حلیہ تبدیل کرلیا تھا۔ داڑھی رکھ لی تھی
اور لوگوں میں اعتماد بھی بحال کرلیا تھا۔ اس شخص نے کہا کہ اسے رقم کی سخت
ضرورت ہے۔ جندن شاہ نے کہا کہ وہ رقم تو دے دے گا مگر کوئی ضمانت دو۔ یہ
کوئی 40 سال قبل کا واقعہ ہے۔ اس شخص نے کہا کہ مجھے صرف 2 ہزار روپے کی
ضرورت ہے اور اس کے پاس شہر کے قریب 20 کنال اراضی پر قلمی آم کا باغ ہے وہ
بطور ضمانت دینے کیلئے تیار ہے اور چھ ماہ بعد رقم ادا کردے گا۔
جندن شاہ نے کہا کہ پرسوں عدالت آجائے اسٹامپ تحریر کرادے اور رقم وصول
کرلے اب جندن شاہ پر شیطان نے قبضہ کرلیا۔ شیطان نے مشورہ دیا کہ باغ اپنے
نام منتقل کرالو۔ یہ شخص ان پڑھ ہے اس کو علم نہیں ہوگا۔ تین دن کا وقت اس
لیے دیا تھا۔ دوسرے دن جندن شاہ پٹواری سے ملا اور اس کو اپنے منصوبہ سے
آگاہ کیا کہ جب یہ شخص آئے تو اس کو یہ کہے کہ باغ چھ ماہ کیلئے گروی رکھ
رہا ہے مگر انتقال پکا جندن شاہ کے نام درج کردے۔ پٹواری نے کہا کہ وہ اس
کیلئے ایک ہزار رشوت لے گا۔ آج سے 40 سال قبل ایک ہزار روپے بھی چالیس ہزار
کے برابر تھا۔ جندن شاہ نے کہا کہ وہ دینے کیلئے تیار ہے۔ تیسرے دن وہ شخص
جندن شاہ کے پاس آیا اور کہا کہ وہ رقم دینے کیلئے تیار ہے۔
تیسرے دن وہ شخص جندن شاہ کے پاس آیا اور کہا وہ دو ہزار روپے دے۔ جندن شاہ
نے کہا کہ پٹواری کے پاس چلنا ہے اسے یہ کہہ دو کہ چھ ماہ کیلئے رقم ادھار
لی ہے اور انگوٹھا لگادو۔ وہ شخص سیدھا سادہ تھا اس نے حامی بھرلی اور جندن
شاہ پر اعتماد کیا اور پٹواری کے پاس چلا گیا۔ پٹواری نے منہ مانگی رقم لی
ہوئی تھی۔ اس نے جندن شاہ کے کہنے پر کہا کہ چھ ماہ کیلئے رقم لی ہے۔ اس نے
کہا کہ ہاں! پٹواری نے چالاکی سے انتقال بیع پر انگوٹھا جات لگوالیے۔ چھ
ماہ تک جندن شاہ نے اس شخص کو کچھ نہ کہا بلکہ میعاد سے جب ایک دو دن باقی
تھے تو جندن شاہ خود اس شخص کے پاس گیا اور کہا کہ فکر نہ کرے ابھی اس کو
رقم کی ضرورت نہیں ہے۔رقم لیکر نہ آئے وہ شخص جندن شاہ کی ”ایمانداری“ پر
بہت خوش ہوا۔ اس طرح جندن شاہ نے مزید چھ ماہ گزار دئیے۔ جب اس سارے واقعہ
کو ایک سال گزر گیا تو وہ شخص خوشی خوشی دکان پر آیا اور کہا کہ اپنی رقم
2000 روپے واپس لے لو اور اسٹامپ واپس کرو تو جندن شاہ انتہائی مکروہ انداز
میں ہنسنے لگا اور کافی دیر ہنستا رہا۔ وہ شخص پریشان ہوگیا کہ کیا مسئلہ
ہوگیا۔
جندن شاہ نے عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے کہا کہ کونسی رقم؟ کونسا سٹامپ۔ تم
پاگل تو نہیں ہوگئے؟ تم تو ایک سال قبل اپنا تمام باغ مجھے فروخت کرچکے ہو۔
کونسی رقم واپس لوں۔ تم نے تو باغ مجھے فروخت کردیا ہے۔ انتقال منظور ہوچکا
اب پہلی دفعہ اس شخص کو اس بات کا پتہ چلاتو اس نے رونا شروع کردیا۔ لوگوں
کو اکٹھا کرلیا اور کہنے لگا کہ میں نے دو ہزار ادھار لیے تھے اب واپس کرنے
آیا ہوں۔ جندن شاہ نے کہا کہ یہ شخص جھوٹا ہے‘ مکار ہے اس نے اپنا باغ مجھے
فروخت کردیا ہے۔ پٹواری کے پاس پیش ہوکر اس نے بیان دیا ہے۔ جندن شاہ نے
انتقال کی نقل تمام لوگوں کو دکھائی۔ اب اس شخص کی سمجھ آئی کہ میرے ساتھ
دھوکہ ہوا ہے اور اس شخص نے جھولی اٹھا کر بددعا دی کہ ”جندن شاہ تو برباد
ہوگا‘ تیری نسلیں برباد ہوں گی‘ تمہیں اس باغ سے نفع کبھی نہیں ملے گا‘ وہ
شخص روتا ہوا واپس چلا گیا اور اس نے روزانہ کامعمول بنالیا کہ وہ اس کی
دکان پر آتا یہی بددعا دیتا کہ تو برباد ہوگا‘ تیری نسلیں برباد ہوں گی۔
اسی صدمہ کی وجہ سے چند مہینوں بعد اس شخص کا انتقال ہوگیا۔ جندن شاہ بہت
مطمئن تھا کہ چلو وہ روزانہ آکر تنگ کرتا تھا اس سے جان چھوٹ گئی۔ چھ ماہ
بعد اچانک جندن شاہ کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اب جندن شاہ
کا جنازہ گھر پڑا ہوا تھا لیکن اس کے بیٹوں نے جائیداد کیلئے آپس میں لڑنا
شروع کردیا سب سے بڑا تنازع یہی باغ تھا۔ قل خوانی کے بعد تمام رشتہ دار
اکٹھے ہوئے اور بیٹوں کو سمجھایا کہ تم مل بیٹھ کر اپنی بہنوں کو بھی حصہ
دو۔ مگر نوبت ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔ ہر بھائی چاہتا تھا کہ باغ اس کے حصے
میں آئے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر باغ کو تقسیم کیا گیا۔
اب بیٹوں کے دوست بننا شروع ہوگئے اور تمام بیٹے عیاشی میں پڑگئے اور زمین
بکنا شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ بکتے ہوئے تمام باغ بک گیا ہے۔ ایک بیٹی
کے خاوند نے یہی مطالبہ کیا تھا کہ پہلے زمین بیچو اس نے ضد کی خاوند نے
طلاق دیدی تمام بیٹے مل کر ماں کو مارتے ہیں۔ سارا خاندان بکھر گیا ہے تمام
جائیداد بک گئی ۔ کوئی بھی شخص جندن شاہ کے بیٹوں کے ساتھ ایک روپے کا لین
دین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ بیٹیاں روزانہ اپنے خاوندوں سے بلاوجہ مار کھاتی
ہیں۔ گھر میں عجیب قسم کی ویرانی اور وحشت ہے۔ صحیح معنوں میں نسل برباد
ہوگئی ہے اور پتہ نہیں کہ یہ بربادی کتنی نسلوں تک چلتی ہے۔ |