اللہ بھلا کرے پاکستانی قوانین
کا کہ ملک میں ہر پانچ سال بعد نئی حکومت بنانے کا اصول لکھ رکھا ہے۔اس سے
کئی زیادہ مہربانی تو عوام کرتی ہے خواہ وہ کسی کے اکسانے پر ہی کیوں نہ ہو
لیکن پانچ سال سے پہلے حکومت کو آؤٹ کر ہی دیتے ہیں۔اس کا سب سے بڑا فائدہ
یہ ہے کہ عوام اور سیاستدان کچھ وقت تو ایک ہی جیسے لگتے ہیں۔حکومت میں نہ
ہونے والی جماعت کا سب سے بڑا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت میں آکر سب کا
سب بدل دیں گے۔ایسا ہی آج کل تحریک انصاف کر رہی ہے۔جگہ جگہ جلسے کرا کے
عوام کو اپنی طرف متوجہ کرانا اور موجودہ حکمرانوں کو الزام نہ دیا جائے تو
عوام جلسوں میں آنے سے ہی گریز کرتی ہے۔18مارچ کو تحریک انصاف کا ایک
کنونشن ہوامیانوالی کی نامی گرامی شخصیات سبطین خان ،انعام اللہ خان ،احمد
خان بھچر نے شرکت کی۔سیکڑوں کی تعداد میں کارکنان جن میں ہر عمر کے افراد
شامل تھے اس کنونشن میں آئے۔شرکاءنے عوام سے دھواں دار خطاب کیا۔اور میڈیا
کے اراکین کے سوالوں کے جوابات بھی دیے۔سبطین خان (سابق ایم پی اے پپلان)
نے کہاملک میں ایک ایسا سیاسی انقلاب آنے والاہے جو ایک نئے نظام کو جنم دے
گا۔یہ نظام آئین اور قانون کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ترقی اور کامیابی کا
بھی ضامن ہوگا۔انعام اللہ خان (سابق ایم این اے میانوالی) کا کہنا تھا کہ
اس سونامی کا راستہ روکنا انتہائی ناممکن ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے مسلم لیگ
نواز (اپنی سابقہ جماعت ) پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس میں سی آئی اے (CIA)کے
ایجنٹ موجود ہیں جن کو وہ بے نقاب کردیں گے۔اگر ان کا یہی وعدہ بے نظیر قتل
کیس کے انکشافات کے متعلق ہمارے صدر اور رحمان ملک کے وعدوں جیسا یا پھر
لوڈ شیڈنگ سے متعلق راجہ صاحب کے دلاسوں جیسا نہیں ہے تو ضرور انتظار رہے
گا۔پارٹی عہدیداروں سے متعلق سوال پر بیرسٹر عمیر کا کہنا تھا کہ 24 مارچ
کے جلسہ کے بعد ملک میں ممبر شم کا آغاز ہوگا اور پھر ہر سطح پر پارٹی میں
انتخابات کرائے جائیں گے۔ضلعی صدر اور میانوالی میں تحریک انصاف کے واحد
عہدیدار سلیم گل خان کا کہنا تھا کہ جو ٹیم اب لائی جا رہی ہے اس کو میچ
ہرانا ناممکن تصور کر لیا جائے۔یہ ٹیم شفاف اور عوام دوست ہوگی۔اس تقریب
میں حاجی خورشید انور خان اور امیر خان آف سوانس نے اپنی فرادری اور دیگر
ہزارون ووٹر کے ہمراہ تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔کنونشن سے واپسی
پر اس میدان سے ملحقہ سڑک پر میں چند افراد کو دیکھا جو ایک ایسی گاڑی کو
دھکا لگا رہے ہیں جسے گاڑی سے زیادہ ٹانگہ کہنا مناسب ہوگا۔ان کے مطابق ہو
اس کو بہت دور سے دھکا لگاتے آرہے تھے۔اس وقت کانے پینے کا سلسلہ ختم تھا
تو کئی لوگ فارغ تھے سب کے سب اسے دھکا لگانے میں مصروف ہوگئے۔اب گاڑی کی
رفتار کافی بڑھ گئی اور تقریبا وہ اسٹارٹ ہونے لگی ۔مگر اس دوران مجھے خیال
آیا کہ اگر یہ گاڑی چل پڑی تو اس میں سفر کون کرے گا پرانے خادم جو بہت
پیچھے رہ گئے تھے یا اب خدمت میں تھوڑا ساحصہ ڈالنے والے ۔مجھے کچھ سمجھ
نہیں آرہی تھی میری نظر فضا کی طرف اٹھی تو کھمبے پر لگی عمران خان کی
تصویر دیکھی ۔ایک بار وہ گاڑی دیکھتا ایک با ر عمران خان کی تصویر۔
اگرچہ ان دونوں چیزوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں باوجود اس کے عقل ناقص بار
بار ایسا کرنے اور قیاس آرائی پر مجبور کر رہی تھی ۔کون سیٹ پر بیٹے گا یہ
فیصلہ گاڑی کرے ورنہ امیدوار تو لڑجھگڑ بھی سکتے ہیں۔ |