ممتا بنرجی نے اس بار اپنی پارٹی
کےوزیر ِریلوے دنیش ترویدی کو لوک سبھا کے اسٹیشن پر بجٹ سیشن کے دوران
چلتی ٹرین سے نیچےپھینک دیا۔وہ اس بات کو بھول گئیں کہ دنیش ترویدی ان کے
زر خرید غلام ہونے کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر ریلوے بھی
ہیں وہ ریلوے جس کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ یہ دنیا بھر میں سب
بڑا مواصلاتی نیٹ ورک ہے ۔اپنے رہنما کی اس اوٹ پٹانگ حرکت پر پہلے تو
ترویدی خوب تلملائےاور کہا میں اپنا کام کررہا ہوں اور اسے پورا کرکے رہوں
گا۔ دہلی میں آنے کے بعد غالباًوہ اپنے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو گئے
تھے اور اپنے آپ کو من موہن سنگھ کے تابع سمجھنے لگے تھے لیکن جب دیکھا کہ
ممتا کے سامنے خود من موہن کی زبان گنگ ہے تو پھر نرم پڑتے ہوئے بولے مجھے
ممتا سے بات کرنی ہے ۔ جب اس پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہیں ملا تو اس کے
بعد اڑیل رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک تحریری طور پرمجھ سے گذارش
نہیں کی جاتی اس وقت تک میں استعفیٰ نہیں دوں گا لیکن یہ داؤں بھی کارگر
ثابت نہیں ہوا تو رسوا ہوکر اپنا استعفیٰ روانہ کر دیا اور کہا مجھے
بندوپادھیائے کے بیان سے غلط فہمی ہو گئی تھی اور اب اس معاملے میں گھٹیا
سیاست میں نہیں کرنا چاہتا۔ ترویدی جی نے جاتے جاتےاپنی سعادتمندی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ممتا کا شکر گذار ہوں جو انہوں نے مجھے وزیر
ریلوے بننے کا موقع عنایت فرمایا اور پھر اپنی پرانی حیثیت کا اعادہ کرتے
ہوئے اعتراف کیا کہ میں پارٹی کا ادنیٰ سپاہی ہوں ۔
ترویدی کے اس بیان پر ممتا بنرجی کا دل ایک درد مند ماں کی مانند پسیج گیا
اور انہوں نے اپنے غلام کے تمام قصور معاف کر دئیے اور سارے گلے شکوے دور
ہوگئے ۔ یہ تمام واقعات اگر خبروں کے چینل نہایت سنسنی خیز انداز میں نشر
ہو رہے ہوں تو بھلا کس کی مجال ہو سکتی ہے کہ وہ تفریحی چینلس پر گھسے پٹے
ڈرامے دیکھے ۔ پھر اس کے بعد مشہورِ زمانہ سیریل ’ہم لوگ ‘کے دادامنی کی
مانند بزرگ وزیر اعظم پردے پر اظہارِ افسوس کر تے ہوئے ترویدی کااستعفیٰ
ایوانِ صدارت میں بھیجتے ہیں اور ممتا کی جانب سے تجویز کردہ مکل رائے کو
وزیر ریلوے کی حیثیت سے تسلیم کر کے اپنی حکومت کو پٹری سے اترنے سے بچا
لیتے ہیں اور سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا ہے اور سیاست کی گاڑی اپنی پوری
رفتار کے ساتھ ممتا ویدی زندہ باد کی کوک دے کررواں دواں ہو جاتی ہے۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترویدی جیسا چاپلوس سیاستداں اپنی
پارٹی کے رہنما کی توثیق کے بغیر بجٹ جیسی اہم دستا ویز ایوان میں پیش کرنے
کاجرأت کر سکتا ہے ؟ اگر نہیں توممتا نے ریلوے بجٹ کوپارلیمان میں پیش
ہونے سے قبل کیوں نہیں دیکھا؟اور دیکھا تو کیوں نہ اس کی اصلاح کر دی یا
اسے روک دیا ؟ اور اگر یہ دونوں کام نہ ہو سکے تو کیوں نہ بجٹ کے پیش ہونے
سے قبل ہی ترویدی کی چھٹی کر دی ؟ان تمام سوالات کا واحد جواب یہ ہے کہ اگر
ان میں سے کچھ بھی ہوگیا ہوتا تو وہ تماشہ کیوں کر رونما ہوتا جو کئی دنوں
تک ٹی وی پر چلتا رہا اور ممتا کےجاہ و جلال کے جلوے دکھلاتا رہا ؟ نیز
عوام کو یہ کیسے پتہ چلتا کہ ممتا بنرجی ان کی اس قدر خیر خواہ اور ہمدرد
ہیں کہ وہ عوامی فلاح وبہبود کے پیشِ نظر اپنے وزیر کو بھرے بازار میں ذلیل
و رسوا کر سکتی ہیں؟ ممتا بنرجی نے اس نو ٹنکی کے ذریعہ اپنی مقبولیت میں
اچھا خاصہ اضا فہ کر لیا اور یہی جمہوری ضرورت اس ڈرامے کا مقصد حقیقی تھی
۔
ممتا بنرجی کی ترنمل کانگریس مختلف علاقائی جماعتوں سے علی الرغم متحدہ
ترقی پسند محاذ میں باقائدہ شامل ہے۔ اس کے باوجود وہ مرکزی حکومت کے
تقریباً ہراہم فیصلے کی مخالفت کرتی نظر آتی ہیں ۔ ان کی مخالفت ڈھکے چھپے
انداز میں نہیں بلکہ بر سرِ عام ہوتی ہے لیکن بغیر کسی بڑے نقصان کے ختم
بھی ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے کانگریس پارٹی کانہیں بلکہ حزب اختلاف خاص
طور پر بی جے پی کا خسارہ ہو جاتا ہے ۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف
انہوں نے جنگ کیا چھیڑی کہ دیگر حزبِ اختلاف حاشیہ پر پہنچ گیا بالآخر
اضافہ تو نہیں ٹلا لیکن بگایل کی ریاستی حکومت مرکزی خزانے میں سے ایک
خطرکرقم حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ لوک پال کے وقت یہ ہوا کہ انہوں نے
لوک آیوکت کی نامزدگی کامعاملہ اچھال کر میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول
کروا لی اور حزب اختلاف کو اس سے محروم کر دیا ۔ ابھی قومی انسدادِ دہشت
گردی کے مرکز کو انہوں نے پوٹا اور ٹاڈا سے زیادہ خطرناک قرار دیا لیکن جب
راجیہ سبھا یعنی ایوانِ بالا میں اس پر رائے شماری کا موقع آیا تو اس کے
ارکان نے غیر حاضر ہوکر بلاواسطہ حکومت کی مدد کردی اور اس کے خلاف بی جے
پی کی ترمیم مسترد ہو گئی حالانکہ اس مسئلہ پر نہ صرف سماجوادی پارٹی بلکہ
بہوجن سماج پارٹی نے بھی کانگریس کا ساتھ دیا ورنہ ۱۲۰ کے مقابلے ۸۵ ووٹوں
سے حکومت کو شکست ہوسکتی تھی لیکن ترنمل نے ایسا نہیں ہونے دیا ۔
ممتادیدی غالباً اس بات سے خوفزدہ ہے کہ اس کے حامی پالا بدل کر کانگریس
میں واپس نہ چلے جائیں اس لئے کہ بہرحال کچھ عرصہ قبل تک وہ اسی پارٹی میں
تھے۔ یا شاید انہیں اس بات کا خوف ہے کہ کہیں پارلیمانی انتخاب میں
کانگریسی اقتدارکے خلاف چلنے والی لہر کا نقصان ان کی پارٹی کو نہ ہو۔اس
لئے بہتر ہے کہ پہلے ہی سے گز بھر کا فاصلہ رکھو اور وقت پڑنے پر غیر
کانگریسی حکومت میں شامل ہو جاؤ۔ ویسے ترنمل کا یہ کھیل اب بہت زیادہ چلنے
والا نہیں ہے ۔اس بات کے امکانات روشن ہوگئے ہیں کہ سماجوادی پارٹی متحدہ
ترقی پسند محاذ میں شامل ہوجائے گی۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس میں کانگریس
اور ایس پی دونوں کا فائدہ ہے ۔ ایس پی کو اپنے وعدوں کی بجاآوری کیلئے
مرکز سے ضروری امداد مل جایا کرے گی اور کانگریس کو ترنمل کے روز روز کے
ناٹک سے نجات مل جائیگی ورنہ اس کا تو یہ حال ہے بقول ندا فاضلی:
اچھا سا کوئی موسم ،تنہا سا کوئی عالم
ہر روز کا رونا تو بیکار کا رونا ہے
بھارتیہ جنتا پارٹی اس رونے دھونے سے کے عمل سے بہت خوش ہوتی ہے بلکہ اس کا
حال تو یہ ہے کہ آج کل اسے دن دہاڑے وسط مدتی انتخاب کے خواب دکھلائی دیتے
ہیں اور یقیناً اس سے پہلے کہ اس سپنے کے کلائمکس میں لال قلعہ پرزعفرانی
پرچم لہراتا ہوا نظر آئے انہیں کوئی نہ کوئی اندرونی خلفشار نیند سے بیدار
کر دیتا ہے اور ان کا خوبصورت خواب پھر چکنا چور ہو جاتا ہے ۔ اس بار ریلوے
بجٹ کو پٹری سے اترتا دیکھ یہ لوگ بغلیں بجا رہے تھےکہ اچانک پیچھے سے آکر
کرناٹک کے سابق وزیر اعلی ٰ یدورپاّ نے کسی شریر بچے کی مانند دھوتی کھینچ
لی ۔وہ بی جے پی کے ۱۲۰ میں سے ۷۰ ارکان ِ اسمبلی کے ساتھ کسی ہالی ڈے
ریسارٹ میں پہونچ گئے ۔ اب یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ یہ حضرات وہاں کیا کر
رہے ہوں گے ۔ جو معزز عوامی نمائندے اسمبلی اجلاس کے دوران اپنے موبائل پر
فحش فلمیں دیکھنے سے گریز نہیں کرتے ان کو بھلا ہالی ڈے ریسارٹ میں کیا
رکاوٹ ہو سکتی ہے ۔آر ایس ایس کی شاکھاوں میں جاکر جو مہان سنسکار ان
لوگوں نے حاصل کئے ہیں اس کاعملی مظاہرہ مختلف انداز میں گجرات ، مدھیہ پر
دیش ، جھارکھنڈاور کرناٹک میں ہوتا رہاا ہے ۔کرناٹک میں بھی بجٹ مسئلہ
بناہوا ہے ۔ ریلوے بجٹ پرتو پیشکش کے بعد بریک لگا یہاں تو اسے اسٹارٹ سے
قبل ہی سرخ سگنل مل گیا اور ٹرافک جام ہو گیا ۔
کرناٹک جنوبِ ہندکی وہ ریاست ہے جہاں پہلی اور آخری بار بی جے پی کو
ریاستی سطح پر اقتدار حاصل ہوا لیکن اس کیلئے یہ تجربہ خاصہ تلخ رہا ۔
یدورپا کو کبھی بھی سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع بی جے پی والوں نے نہیں
دیا۔ آئے دن مختلف لوگ اپنے ہمنواوں کے ساتھ غائب ہو جاتے تھے اور اپنی من
مانی شرائط کو قبول کرنے کیلئے وزیر اعلی ٰ کو مجبور کرتے تھے اکثر ایسی
صورتحال پیدا ہوجاتی تھی کہ ہائی کمانڈ بھی بے دست و پا نظر آنے لگتا تھا
۔کبھی ریڈی برادران اپنی دولت کے سہارے ارکان اسمبلی کو خرید کر بی جے پی
کو بلیک میل کرتے تھے تو کبھی خود ان کی بدعنوانی بی جے پی کیلئے عذابِ جان
بن جاتی تھی ۔کبھی حملہ سابق براہمن مرکزی وزیر شانتا کمار کی جانب سے ہوتا
تھا تو کبھی خود ان کی ذات لنگ آیت کے جگدیش شیطار جان کے دشمن بن جاتے
۔یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ گزشتہ سال خود یدورپا کے خلاف لوک آیوکت نے
بدعنوانی کے الزامات میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا جس کے نتیجے میں بی
جے پی کو انہیں ہٹانے پر مجبور ہونا پڑا لیکن بی جے پی نے ان الزامات کی
تردید کی اور اعلان کیا کہ یدورپا عدالت سے رہا ہو جائیں گے اور اس وقت
انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ کی کرسی سے نوازہ جائیگا ۔
بی ایس یدورپا نے گرفتاری سے قبل تماشہ یہ کیا کہ روپوش ہوگئے جس سے ٹی وی
والوں کو نت نئی کہانیاں بنانے کا موقع مل گیا اس کے بعد گرفتار ہوکر ایک
رات جیل میں گزاری اور دوسری صبح دل کے عارضہ کا بہانہ بنا کر ہسپتال پہنچ
گئے ۔ تین ہفتوں کے بعد ضمانت پر رہائی کے ساتھ دل بہل گیا اور پھر وہ دورہ
لوٹ کر نہیں آیا۔ یدورپا پر دو طرح کے الزامات ہیں ایک تو اپنے فائدے کی
خاطر سرکاری زمینوں پر لگی پابندیوں کو اٹھا کر اسے اونے پونے دام اپنے
رشتے داروں کو فروخت کروانا اور دوسرے غیرقانونی کان کنی میں ملوث ہونا ۔
کرناٹک کی عدالت عالیہ نے انہیں کان کنی کے الزامات سے تکنیکی بنیادوں پر
یہ کہہ کر راحت دی کہ لوک آیوکت نے ان کو اپنی صفائی کا موقع نہیں دیا
تھا۔ اس لئے گرفتاری کا عمل خلافِقانون تھا لیکن کسی گرفتاری کا غلط ثابت
ہوجانا بدعنوانی کے الزامات سے بری ہونے کے ہم معنیٰ نہیں ہو سکتا ۔ اس بات
کا قوی امکان ہے کہ مرکزی حکومت کی کان کنی سے متعلق مجلِ اعلیٰ جلد ہی
یدورپا کے خلاف سی بی آئی کے ذریعہ بدعنوانی کے الزامات کی تحقیق کروانے
کی سفارش کردے ۔اگر ایسا ہو جاتا ہے اور سی بی آئی ان کے خلاف چارج شیٹ
داخل کر دیتی ہے تو پھر ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائیگااس لئے بی جے پی ہائی
کمانڈ انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنانے سے کترا رہا ہے لیکن یدورپا جلد از
جلد وزیر اعلیٰ بن جانا چاہتے ہیں ۔
یدورپا نہ صرف وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں بلکہ اس سال کا بجٹ بھی بذاتِ خود
پیش کرنا چاہتے ہیں ۔انہیں سابق وزیر خزانہ سدھا رمیہ کے پانچ باربجٹ پیش
کرنے کے ریکارڈ کوتوڑنا ہے اور اپنے اس وعدے کو پورا کرنا ہے جو انہوں نے
گزشتہ سال ۸۵ لاکھ کروڈ کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کیا تھا ۔ اس بار انہیں ایک
لاکھ کروڈ کا مہا بجٹ پیش کرنا ہے لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ وہ
وزیر اعلیٰ ہے جسے انہوں نے اپنا سب سے وفادار سمجھ کر اقتدار کی کرسی پر
اس امید میں بٹھایا تھا کہ جب وہ کہیں گے بلا چوں چرا اقتدار کی کرسی انہیں
سوانپ دی جائیگی ۔ یدورپا شاید بھول گئے کہ سیاست کے گندے تالاب میں کمل کا
پھول تو کھل سکتا ہے لیکن اس میں وفاداری کی خوشبو نہیں سکتی ۔ جب وہ خود
اپنی پارٹی کے وفادار نہیں ہیں تو کوئی اور ان کا وفادار کیسے ہوسکتا ہے اس
پر طرہ یہ کہ سدا ہنستے مسکراتے نظر آنے والے سداآنند گوڑہ نے وزارت
خزانہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور وہ خود اس بار بجٹ پیش کرنے پر
اصرار کر رہےہیں ۔ گویا دہلی کی مانند بنگلورو میں بھی بجٹ ہی گلے کی ہڈی
بنا ہوا ہے ۔
سدانند نے جب اپنے سابق گرو یدورپا کی بات ماننے سے انکار کردیا تو یدورپا
نے بھی وہی حربہ آزمانےکا فیصلہ کیا جو ان کے خلاف استعمال ہوتا رہا تھا
اور اپنے ۷۰ حامیوں کے ساتھ شہر سے باہر نکل گئے ۔ کل ۱۲۰ میں ۷۰ لوگوں کا
ساتھ چھوڑ دینا بھی سداآنند کے چہرے کی مسکراہٹ چھین نہ سکا ۔ اسمبلی کے
اجلاس میں پہلے دن زیادہ حزب اقتدار کی کرسیاں بی جے پی کی حالت زار پر
ماتم زدہ تھیں لیکن سداآ نند کا دعویٰ تھا کہ بجٹ وہی پیش کریں گے ۔ ممکن
ہے ایسا ہو لیکن کیا وہ بجٹ پاس بھی ہوگا یا اس کا بھی وہی حشر مرکزی ریلوے
بجٹ کا ساہوگا بقول شاعر:
ہورے ، کنھیا کس کو کہے گا تو میاّ
ایک نےتجھ کو جنم دیا اور ایک نے تجھ کو پالا
ایک نے تجھ کو دی ہیں یہ آنکھیں ایک نے دیا اجالا
بی جے پی ہائی کمانڈ کی ہر بات کو یدورپا جوتے کی نوک پررکھتےہیں۔ پارٹی کے
صدر کی ناگپور میں آکر ملاقات کی پیش کش کو وہ ٹھکرا چکے ہیں ۔ ان کے
مطابق ۱۰ حامی ممبران پارلیمان مرکزی رہنماوں کے ساتھ گفت و شنید کیلئے
کافی ہیں اور بوقتِ ضرورت وہ استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں ۔ یہ بی جے پی کیلئے
بہت بڑی خطرے کی گھنٹی ہے اور اس صورتحا ل سے نبٹنے کیلئے بی جے پی کے پاس
اسمبلی کو برخواست کرواکر دوبارہ انتخاب کروانے کے علاوہ کوئی اور باوقار
طریقہ کار نہیں ہے لیکن اس متبادل میں بھی گوں ناگوں مشکلات ہیں۔ کرناٹک کی
سیاست پر دو ذاتوں کا قبضہ رہا ہے ۔ایک ووکالیگا اور دوسرے لنگ آیت ۔
یدورپا کی غیر موجودگی میں لنگ آیت برادری کسی صورت بی جے پی کو اقتدار
میں آنے نہیں دے گی نیز اگر بی جے پی یدورپا کی بات مان لیتی ہے کہ اگر
انہیں نہیں تو کم از کم ان کی برادری کے جگدیش شطار کو وزیر اعلیٰ یا کم از
کم وزیر خزانہ بنایا جاتا ہے تاکہ وہ بجٹ پیش کرسکیں تو ووکا لیگا برادری
اسے اپنی توہین سمجھے گی اور بی جے کی حمایت سے انکار کردے گی اس لئے کہ
سدانند کا تعلق ووکا لیگا برادری سے ہے ۔ ایسے میں بی جے پی کے دوبارہ
انتخاب میں کامیاب ہونے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں ۔ خود لنگ آیت ہونے کے
باوجودیدورپا نے نہ جانے کیا سوچ کر ووکا لیگا سداآنند کو وزیرا علیٰ بنا
یا تھا لیکن آج ان کا یہ اقدام بی جے پی کے گلے کی پھانس بن گیا ہے ۔
بیچاری بی جے پی اور اس کے صدر نتن گڈکری کے ستارے آج کل کچھ زیادہ ہی
گردش میں ہیں۔ ایسے میں جبکہ گڈکری آرایس ایس کا آشیرواد لے کر دوبارہ
صدر بننے کی خاطر ناگپور پہنچے تو کرناٹک میں آتش فشاں پھٹ پڑا اور ابھی
اس کا لاوہ اگلنا بند بی نہیں ہوا تھا کہ راجیہ سبھا کی سیٹوں کو لے دہلی
میں سارے بڑے رہنماؤ ں نے علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ ان ہنگامہ کرنے والوں
میں سابق صدورایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی شامل ہیں اسی کے ساتھ لوک
سبھا اور راجیہ سبھا میں بی جے پی رہنما سشما سوراج اور یشونت سنہا بھی ہیں
ان سب کا کہنا ہے کہ اگر راجیہ سبھا کی سیٹوں کا نیلام جاری رہا اور
بدعنوان لوگوں کو منتخب کر کے ایوانِ بالا میں بھیجا گیا تو وہ اپنی ذمہ
داری ادا کرنے سے قاصر ہوں گے ۔ جھارکھنڈ کے ۶ ممبران ِ اسمبلی نے پارٹی سے
باہر کے ایک ہندی نژادبرطانوی سرمایہ دار انشومن مشراکے کاغذاتِ نامزدگی پر
دستخط کر دئیے ہیں۔ انشومن کا دعویٰ ہے کہ اس کے کئی بی جے پی رہنماوں سے
قریبی تعلقات ہیں اور مہاراشٹر سے آدرش گھپلے میں ملوث بی جے پی مرکزی
کمیٹی کے رکن اجئے سنشیطی کو نامزد کیا گیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
اگر اجئے بدعنون ہے تو اسے پارٹی نے اپنی مرکزی کمیٹی سے کیوں نہیں نکالا۔
اسی کےساتھ اس بار بی جے پی نے کانگریس کی پشت میں چھرا گھونپ کر بی جے پی
میں آنے والے ایس ایس اہلووالیہ کی پیٹھ پر وار کرکے شتر بے مہار سمجھے
جانے والے سردار کوٹکٹ سے محروم کرکے نکیل لگا دی ہے ۔ بی جے پی کی حالتِ
زار کو دیکھ کر آرایس ایس کے ہفت روزہ آرگنائزر کا اداریہ یاد آتا ہے جو
اس نے اتر پردیش انتخاب کے بعد لکھا تھا ۔ اس کے مطابق ’بی جے پی میں
کارکنان کم اوررہنما زیادہ ہوگئے ہیں‘ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت
ہے کہ رہنماوں کی اس بے ہنگم بھیڑ میں ایک بھی ڈھنگ کا لیڈر دکھلائی نہیں
دیتا۔ اس موقع پر سنگھ پریوار کو اپنے تر بیتی نظام کا جائزہ لینا چاہئے کہ
اس طویل جدوجہد کے بعد آخر یہ قحط الرجال کس امر کی نشاندہی کرتا ہے ۔
ان حقائق سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ یہ سر پھٹول کا سبب فسطائیت ہے اور
سیکولر کانگریس اس بیماری سے محفوظ ہے لیکن اگر اتراکھنڈ میں کانگریس کی
حالتِ زار پر غور کیا جائے تو ایسا ہی نقشہ نظر آتا ہے۔ اس بار انتخاب سے
قبل بی جے پی کی حالت اس قدر خراب تھی کہ اسے آخری وقت میں وزیر اعلیٰ
بدلنے پر مجبور ہونا پڑا اور نیا وزیر اعلیٰ بی جے پی کو تو درکنار خود
اپنے آپ کو بھی شکستِ فاش سے نہیں بچا سکا ۔اس کے باوجود کانگریس معمولی
اکثریت تک سے محروم رہی اور اسے بی جے پی سے صرف ایک نشست کی برتری حاصل
ہوئی ۔ اپنی اکثریت بنانے کی خاطر اسے نہ صرف بی ایس پی بلکہ خود اپنے
باغیوں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہونا پڑا ۔ یہ تین تو ایسے باغی ہیں
جو پارٹی کے خلاف انتخاب لڑ کر کامیاب ہو گئے لیکن ان کے علاوہ دس ایسے ہیں
جو خود تو کامیاب نہ ہو سکے لیکن انہوں نے کانگریس کے امیدوار کو بلاواسطہ
ہرا دیا۔کئی باغیوں نے کانگریس کے نامزد کردہ امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل
کئے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں آپسی رنجش نے پارٹی کا بیڑہ
غرق کیا ۔ گڑھوال میں کانگریس کا امیدوار ۱۰۰۰ ووٹ سے ہارا جبکہ باغی
امیدوار نے ۱۰۰۰۰ ہزار ووٹ حاصل کئے ۔سابق وزیر اعلیٰ پوکھریال کو ایک ہزار
ووٹ سے کامیابی ملی جبکہ کانگریس کے باغی ایس پی سنگھ کو ۱۱۰۰۰ ووٹ ملے ۔
سابق کانگریسی وزیراعلیٰ کے بھتیجے منیش تیواری کو غدر پور میں صرف ۱۴۰۰۰
ہزار ووٹ ملے جبکہ باغی جرنیل سنگھ ۲۳۰۰۰ ہزار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو
گئے۔ پرولا میں بھی باغی نے پارٹی امیدوار سے ۴۰۰۰ ووٹ زیادہ حاصل
کئے۔سماجوادی پارٹی کے سابق صدر امبریش کمار کو کانگریس نے پارٹی میں شامل
تو کیا گیالیکن ٹکٹ نہیں دیا گیاانہوں نے آزاد میدوار کی حیثیت سے انتخاب
لڑااور دوسرے نمبر پر آئے جبکہ کانگریسی امیدوار چوتھے نمبر پر رہا۔اس
خستہ حالی کے باوجود وزیر اعلیٰ کی کرسی کیلئے آپسی مہا بھارت چھڑ گئی
۔وجئے بہوگنا اور ہریش راوت نے ایک دوسرے خلاف تلواریں سونت لیں نتیجہ یہ
ہوا کہ راوت کے ۱۴حامیوں نے احتجاجاً رکن اسمبلی کی حیثیت سے حلف تک لینے
سے احتراز کیا۔ دو متضاد نظریات کی حامل قومی جماعتوں اوران دونوں کے ساتھ
اشتراک کرنے والی ایک علاقائی جماعت کا یکساں سیاسی رویہ اس بات کا غماز ہے
کہ مسئلہ افراد یا جماعتوں کا نہیں بلکہ سیکولر جمہوری نظام کا ہے جو اس سے
وابستہ سارے لوگوں کوبلا تفریق اپنے بسنتی رنگ میں رنگ لیتا ہے ۔حیرت کی
بات یہ ہے کہ ان کھلی نشانیوں کے باوجود لوگ اس فرسودہ نظامِ سیاست کو زحمت
کے بجائے رحمت سمجھتے ہیں یا اگر نہیں بھی سمجھتے تو اس کے اظہار کی جرات
اپنے اندر نہیں پاتے۔ ایسے لوگوں کیلئے حکیم الامت علامہ اقبال کی نصیحت
درجِ ذیل ہے :
تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا
عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
بندہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے |