بجلی کے بحران کا حل

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کہیں بجلی کا بحران موجود نہیں ہے یہ صرف ہمارا ہی مقدر کیوں؟بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے جن لوازمات کی عام ضرورت ہے وہ ہمارے سیاسی زعمااور حکام اپنی تقاریر میں اکثر بیان کرتے رہتے ہیں مگر صرف کہہ دینے سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے بلکہ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے پاکستان کے کئی غیر سرکار ی ماہرین برقیات نے مختلف حل پیش کیے مگر اس قومی مسئلے کو ملکی سطح پر حل کرنے کے لیے جو اقدام حکومت کر سکتی ہے وہ کوئی ایک آدمی یا ایک گرو ہ تو نہیں کر سکتا ہے ۔ تو پھر ۔۔۔جہاں اتنے مذاکرے اور مباحثے پہلے ہو چکے اور کئی تجاویز دی جا چکی ہیں وہاں پرایک اور تجویز دینے میں کوئی حرج نہیں بات اگر دل کو لگے اوراس میں وزن محسوس کریں تو میری آواز میں آپ بھی اپنی آواز شامل کریں۔ورنہ محض اتمام حجت کے لیے میں تو کہہ دیتا ہوں مگر جانتاہوں کہ نقار خانے میںطوطی کی آوازکون سنتا ہے ۔میر ی ناقص اورقلیل معلوما ت کے مطابق پاکستان میں تقریبا پانچ /چھ ذرائع ہیں جن سے بجلی بنائی جاتی ہے یا بنائی جا سکتی ہے ۔
(1)ہائیڈرل(دریاں پر قائم ڈیموں کے ذریعے )
(2) تھرمل(کوئلے اور تیل کے ذریعے)
(3)نیوکلیئر(جوہری توانائی کے ذریعے)
(4)سولر(شمسی توانائی کے ذریعے)
(5)وِنڈملز(ہوا کے ذریعے )
(6)بائیو گیس پلانٹ(اس میں گوبر اورکھاد وغیرہ سے گیس بناکر)۔

یہ وہ عام ذرائع ہے جن کے بارے میں زیادہ تر عوام کو علم ہے اور اِن ذرائع سے ملک کے مختلف حصوں میں بجلی بنائی بھی جا رہی ہے سب سے بڑا ذریعہ دریاں پر ڈیم بنا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے دوسرے نمبر پر کوئلے اور تیل سے اور اس کے بعد اٹیمی بجلی گھر وغیرہ اس کے بعد دیگر ذرائع ہے ۔ جن میں شمسی توانائی ، ہوا کے ذریعے اور بائیو گیس پلانٹ وغیرہ کی مدد سے بجلی بنانا شامل ہیں ۔

مذکورہ ذرائع کے حوالے سے چند اہم باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں کہ جہاں کسی چیز کا کوئی فائدہ ہوتا ہے وہاں کچھ مسائل بھی ہوتے ہیں ۔ مذکورہ بالا ذرائع کے حصول میں مسائل پر بھی بحث کی ضرورت ہے تا کہ ان کا حل تلاش کیا جائے ۔ بجلی ہر انسان کی ضرورت ہے گھروں، تجارتی مراکز اور صنعتوں سے لے کر سرکاری ادارہ جات کے مختلف شعبوں میں ہر جگہ بجلی کا ہونا لازم ہے ۔ ڈیموں پر بند باندھ کر ، تھرمل سسٹم یاایٹمی بجلی گھروں سے بجلی بنانے کے وسائل صرف حکومت کے پاس ہی ہو سکتے ہیں اور یہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے۔ رہے باقی ذرائع مثلا شمسی توانائی اور وِنڈ سسٹم یابائیو گیس پلانٹ سے بجلی کی ضروریات کو پورا کرنا تو یہ ذرائع عوام کی پہنچ میں ہیں مگر کچھ مسائل کے ساتھ ۔اگر کوئی شہری اتنی استعداد کا حامل ہو تو و ہ اِن ذرائع سے اپنی بجلی کا انتظام کر کے اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔

ملاحظہ فرمائیںwww.pcret.gov.pk یہ ایک سرکاری ادارہ پاکستان کونسل فار رینیوایبل انرجی ٹیکنالوجیزکی ویب سائٹ ہے جہاں پر شمسی توانائی ، ہوا اور گیس پلانٹ سے برقی ضروریات پوری کرنے کی معلومات موجود ہیں ۔

ایک شخص بارانی علاقہ میں پانی کی ضرورت کے لیے ٹیوب ویل لگا کر پانی پورا کرتا ہے ۔یا کسی شہری آبادی میں میونسپل کارپوریشن کی طرف سے واٹر سپلائی نہ ملنے پر اپنے گھر میں کوئی ہینڈ پمپ نصب کر کے پانی کی ضرورت کو پورا کر تا ہے تو اِس میں حکومت کو اعتراض بھی نہیں اورہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ بنیادی انسانی حق ہے۔ لہذا اگر پانی کی طرح بجلی کے ضرورت کو پورا کرنے کے لیے حکومت عوام کو خود کفیل دیکھنا چاہتی ہے تو ایک مثال کے ساتھ مذکورہ بالا مسئلے کا حل بھی پیش خدمت ہے۔ مثال یہ ہے کہ ایک دور میں ٹیلی فون کے محکمہ سے عوام کو بے شمار شکایات تھیں ۔ کنکشن لگوانے سے لے کر استعمال کرنے تک ، کبھی تار ٹوٹ جاتی تو دو دو اور تین تین روز تک فون لائنیں خراب رہتیں۔ کبھی بیرون ملک کال کا مسئلہ پیدا ہوجاتا وغیرہ وغیرہ اکثر لوگوں کو یاد ہو گا مگر پھر اس محکمہ نے اصلاحات کیں ۔ حکومت نے مسائل کے متبادل حل کے لیے سیلولر فون کمپنیوں کو ملک میں اپنے نیٹ ورک قائم کرنے کی اجازت دی اور پاکستان میں موبائل فون عوام کی پہنچ میں آیا۔کمیونیکیشن کا پرائیویٹائز ہونا یہ ایک انقلاب تھا۔پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں موبائل عام ہونے لگا کمپنیوں نے اچھے پیکیج دے کرزیادہ سے زیادہ لوگوں تک موبائل کی رسائی کو آسان کر کے ٹیلی فون کے مسائل سے عوام کی جان چھڑا دی۔ اب شہروں، قصبوں ، دیہات اور گلی محلوں میں بچہ بچہ موبائل استعمال کر رہا ہے ۔ معاشرتی سطح پر فائدہ نقصان الگ مگر ایک سہولت کے آ جانے سے ٹیلی فون کے محکمہ کی اجارہ داری ختم ہو گئی ۔ موبائل کے عام ہونے پر ٹیلی فون لینڈ لائن کنکشنز میں کمی واقع ہوئی اور اِس خسارے کو کم کرنے کے لیے محکمہ مذکور نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کا سوچا، مختلف قسم کے رعایتی پیکیجز کے دے کر عوام کو دوبارہ ٹیلی فون کنکشنز حاصل کرنے کے لیے کئی طرح کی پیشکشیں کیں۔ یہ سب کیا تھا ؟ عوام کو جب ٹیلی فون کے مسائل تھے توجیسے ہی ان کا متبادل حل ملا عوام نے دیر نہیں لگائی۔اب اگر عوام کو اپنی مدد آپ کے تحت بجلی کا بحران ختم کرنے کا حل مل جائے تو بجلی کے محکمہ والے بھی فون کے محکمہ کی طرح عوامی بددعا سے بچ سکتے ہیں جو انہیں لوڈ شیڈنگ کے وقت گالیاں اور بددعائیں عوام کی طرف سے بجلی والوں کو ملتی ہےں ۔اگرفون کی طرح بجلی کو پرائیویٹ کمپنیوں کی مدد سے پورا کیا جائے جس کے لیے فلاحی ادارے بھی ایک کار خیر میں حصہ لے کر مختلف کمپنیوں سے معاہدے کر کے مختلف علاقوں کو دوسری بنیادی ضروریات کی طرح بجلی مہیا کریں ۔کئی مقامات پر کچھ این جی اوز کے بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے بجلی کے لیے مختلف پروجیکٹس شروع کیے ہیں اسی طرح دیگر رفاہی ادارے عوامی فلاح کی خاطر کوشش کریں تو یہ ممکن ہے کیونکہ عوام کی زیادہ تر آبادی دیہات میں رہتی ہے وہاں بجلی کا ایسا لوڈ نہیں ہوتا جیسے شہروں اور کارخانوں میں ہوتا ہے۔ رورل ،اربن کمرشل اور انڈسٹریل ایریاز کو الگ الگ کر کے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔اور یہ کامیاب بھی انشااللہ ہوگا۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ موبائل کی طرح بجلی کے لیے بھی سرکاری محکمہ کو اپنے کنکشنز بیچنے کے لےے مختلف پیکیجز دینا پڑیں گے۔

اگر موبائل فون کمپنیوں کو پاکستان میں اجازت مل سکتی ہے توالیکٹرک پاور سپلائی کمپنیوں کو کیوں نہیں ؟ یہ تو بنیادی ضرورت ہے اگر برسراقتدار طبقہ نیک نیتی کے ساتھ بجلی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے یہ تجربہ کر لے تو خود حکومت کے مسائل میں کمی واقع ہو گی ۔کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال آئے گا کہ پرائیویٹ کمپنیاں اور این جی اوز اگر اس کام کو کرنا چاہیں تو وہ بجلی کہاں سے پیدا کریں گی تو ان کے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ چھوٹے بڑے مختلف یونٹس قائم کر کے ہرخطے کو الگ الگ پروجیکٹس سے بجلی فراہم کی جائے بجلی کے حصول کے ذرائع وِنڈ سسٹمز ، بائیو گیس پلانٹس اور سولر سسٹمزکی مدد سے یہ کام ممکن ہے بلکہ کئی علاقوں میں ہو رہا ہے صرف محدود ہونے کی وجہ سے عوام کو اس کا علم نہیں ۔ تاہم کوشش سے سب ممکن ہے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ فون اور بجلی میں ایک بنیادی ٹیکنیکل فرق ہے جو ماہرین جانتے ہیں یہ بظاہر ایک مسئلہ ہے کہ موبائل کے لیے کسی تار کی ضرورت نہیں ہوتی اور بجلی کی ہیوی وولٹیج بغیر تار کے ممکن نہیں ، جہاں سڑکوں اور گلیوں میں برقی کھمبوں پر تاروں کے جال لٹک رہے ہوتے ہیں اور کئی طرح کے مسائل کا آئے روز سامنا رہتا ہے اکثر حادثات بھی پیش آجاتے ہیں ، وہاں کئی ایک کمپنیوں کی طرف سے ملنے والی سپلائی لائنز مزید مسائل کا باعث بنیں گی ۔مگر اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ بجلی کی سپلائی لائنزکو انڈر گراؤنڈ کر دیاجائے جیسے کہ کئی بڑے شہروں مثلا اسلام آباد اور نئی قائم ہونے والی رہائشی کالونیوں میں بنایا گیا ہے۔ جہاں پانی ، گیس اور بجلی اور سیوریج سسٹم کے لیے الگ الگ انڈر گراؤنڈ راستے ہیں جو بیرونی سسٹم کی نسبت زیادہ محفوظ ہیں۔دیگر بھی کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جنہیں وقت اور صورتحال کے مطابق حل کیا جا سکتا ہے شرط یہ ہے کہ صرف خلوصِ نیت سے کام کیا جائے اور دوسروں کو کرنے دیا جائے۔ ایک انسان اگر خود کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکتا تو کم از کم اسے دوسرے کو مسائل حل کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔اگر یہاں حکومت یہ بہانہ بنائے کہ عوام کو کس نے روکا ہے اپنی ضرورت کے تحت بجلی دیگر ذرائع سے پورے کرنے پر تو اِن معاملہ میں عوام کے ساتھ تعاون کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری بلکہ فرض ہے۔میری اِس تجویز میں کمی بیشی کر کے مسئلہ کو مزید مناسب طریقہ سے حل کیا جا سکتا ہے۔
Hafiz Ameen Nafees
About the Author: Hafiz Ameen Nafees Read More Articles by Hafiz Ameen Nafees: 13 Articles with 14586 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.