امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک پادری عمر کے آخری حصے میں تھا اس کی
داڑھی بھی روئی کی طرح سفید ہو چکی تھی۔ ایک عارف نے اس سے دریافت کیا کہ
تو عمر میں بڑا ہے یا تیری داڑھی پادری نے جواب دیا میں کیونکہ میں اٹھارہ
بیس سال کی عمر کو جب پہنچا تو داڑھی تب اگی ۔ اولاً یہ سیاہ بعد میں سفید
ہو گئی داڑھی اس طرح عمر میں مجھ سے چھوٹی ہے اس عارف نے کہا کہ اس سے سبق
سیکھو کہ یہ داڑھی تو سیاہی چھوڑکر سفید ہو گئی اس نے اپنی رنگت تبدیل کر
لی مگر تو اپنی عادات اور اطوار میں اسی طرح پرانا ہے۔ تو نے اپنی زات میں
کوئی تبدیلی نہ کی تو نے اپنے اندر کوئی بہتری پیدا نہ کی بلکہ عمر کے ساتھ
ساتھ اپنی عادات اور اطوار کو اور پختہ کر لیا گھاس کی طرح تو نے مٹی میں
پاﺅں جما رکھے ہیں اور حرص و ہوس کی ہوا سے سرگردان ہے ۔امام رومی ؒ اس
حکایت کے سبق میں لکھتے ہیں کہ انسان کو اپنی بری عادات سے چھٹکارا حاصل کر
کے اپنی ذات میں اصلاح کرنی چاہیے نہ کہ ان بری عادات میں اور پختگی پیدا
کرنی چاہیے۔
قارئین ہم بھی ایک عجیب قوم ہیں ایسی عجیب قوم کہ جس کو کچھ خبر نہیں کہ اس
کا محسن کون ہے اور اس کے دشمن کون کون ہیں۔ 1947 ءمیں مسلمانان برصغیر نے
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ محمد اقبال ؒ کے دوقومی نظریہ کی
بنیاد پر خواب و خیال میں بسنے والی ایک مملکت کو عملی روپ دینے کے لیے
اپنا ٰخون پیش کر دیا وہ شہید ہونے والے لاکھوں مسلمان خود بھی سچے تھے اور
ان کے جذبے بھی صادق تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم ان محسنوں کے خون کے صدقے
میں معرض وجود میں آنے والی ”پہلی نظریاتی اسلامی سلطنت“ کی قدر کرتے،
ہمارے لیڈرز اس وطن کو اس وسیع تر بامعنی منطقی مقام تک پہنچاتے کہ پاکستان
پوری اسلامی دنیا کی قیادت کا فریضہ انجام دیتا لیکن ہوا کیا کہ ہم نے بانی
پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کو ایک خراب ایمبولینس میں سڑکوں پر اس
طرح کھڑا کیا کہ ہمارے محسن اور قائد پاکستان بننے کے ایک سال کے عرصے میں
ہم سے روٹھ کر چلے گئے۔ تاریخ کے صفحات میں ”شہاب نامہ“ سے لے کر دیگر
درجنوں کتب میں یہ بات درج ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ محسن امت مسلمہ
کی وفات ایک ”مسٹری“ ہے۔ اسی طرح نواب زادہ لیاقت علی خان کو کمپنی باغ جسے
آج کل لیاقت باغ کے نام سے پکارا جاتا ہے دن دیہاڑے جلسہ عام کے دوران شہید
کر دیا گیا اور ان کے قاتل کو موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، ہتھیار
تو تلف کر دیا گیا لیکن ہتھیار کو استعمال کرنے والے خفیہ ہاتھ آج تک منظر
عام پر نہیں آ سکے۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو ایک سازش کے تحت شہید کر
دیا گیا ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے دنیا کی پہلی اسلامی نظریاتی سلطنت
کو ایٹمی قوت بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کی، بھٹو شہید کا
جرم یہ تھا کہ انہوں نے محسن امت مسلمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ”ایٹمی
پاکستان “ بنانے کے لیے فرائض منصبی سونپے اور جوہری پروگرام شروع کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے منکرینِ ختم نبوت یعنی
قادیانیوں کو کافر قرار دیا اور عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کے لیے پاکستان کے
آئین کو بہتر بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا یہ بھی جرم تھا کہ انہوں نے
عرب دنیا کو یہ سمجھایا کہ تیل کی طاقت اسلحے کی طاقت سے بڑھ کر ہے اور
اسلامی ممالک کو جوائنٹ اکانومی کا راستہ اپنانا چاہیے ان کے ان جرائم کے
نتیجے میں ملک میں مارشل لاءآیا اور ذوالفقار بھٹو جیسا ایک عظیم لیڈر
پاکستانی قوم سے چھین لیا گیا۔ ہم نے اپنے محسن کو پہچانا لیکن بہت دیر سے
۔۔۔۔۔ٹرکوں کے پیچھے ایک شعر لکھا ہوتا ہے جو شاید کسی دوگانے کا حصہ ہے
اور وہ کچھ یوں ہے
تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
قارئین دل کے دکھڑے روتے روتے تھوڑآ گے چلتے ہیں تو امیر المومنین جنرل
ضیاءالحق کا دس سالہ دورِ اقتدار سامنے آتا ہے۔ جنرل ضیاءالحق کے معترضین
ان کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں کرتے ہیں اور جذباتیت کے عالم میں بعض
اوقات نازیبا گفتگو پر بھی اتر آتے ہیں لیکن ہم آج کے کالم میں مختلف
شخصیات کے ان احسانوں کا زکر کر رہے ہیں کہ جو ان کی طبیعت اور شخصیت کا
روشن پہلو ہے۔ روس نے جب افغانستان پر یلغار کی تو اس بات کا واضح خطرہ
موجود تھا کہ روس پاکستان کی جانب بھی آئے گا۔ گرم پانیوں کی تلاش میں آنے
والا روس طاقت، غرور، دولت اور ٹیکنالوجی سے لیس تھا۔ 1980 ءمیں جنرل
ضیاءالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان کی ٹیم نے روس کے خلاف جہاد کو منظم
کرنا شروع کیا اور قصہ مختصر روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اس سب جدوجہد کو سعودی
عرب سمیت تمام اسلامی دنیا اور امریکہ سمیت تمام Capitalistممالک نے فنڈنگ
کے ساتھ ساتھ تکنیکی ، فوجی اور تربیتی امداد دی۔ یہ بحث ہم یہاں نہیں کریں
گے کہ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان میں اسلحہ، منشیات اور دیگر خرابیاں
درآمد ہوئیں، فرقہ واریت پروان چڑھی، مذہبی گروہ بندوقیں اور بم لے کر ایک
دوسرے پر چڑھ دوڑے، کراچی سمیت پورے ملک میں لسانیت پروان چڑھی ہم مثبت رخ
کی بات کرتے ہیں مثبت رخ یہ تھا کہ پاکستان میں جنرل ضیاءنے آئی ایس آئی
اور افواج پاکستان کے تعاون سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں ”جوہری
پروگرام“کو ریکارڈ ترقی دی اور بعض شواہد کے مطابق جنرل ضیاءالحق کے دورِ
حکومت میں پاکستان میں ایک سوسے زائد ایٹم بم بنا چکا تھا۔ جنرل ضیاءکے اس
جرم کی پاداش میں بہاول پور کے قریب ان کے طیارے کو ایک سازش کے تحت مار
گرایا گیا اور پاکستان کی آج تک کی تاریخ کا سب سے بڑا عسکری نقصان اسی
حادثے کو کہا جاتا ہے۔
بقول غالب یہاں ہم کہتے چلیں
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
اک چھیڑہے وگرنہ مراد امتحا ں نہیں
کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں
ہم کو ستم عزیز ستم گر کو ہم عزیز
نامہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں
پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے سخن کی میں
روح القدس اگرچہ مراہم زباں نہیں
جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالب کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں
قارئین اس کے بعد کا سفر دیکھیے تو یوں لگتا ہے کہ قیامت کے مناظر ہیں میاں
محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید کی حکومتوں کی بساطیں لپیٹنے کا ایک
دل خراش سفر، 1998میں ایٹمی پاکستان کا عملی اعلان کرنے والے میاں محمد
نواز شریف کی جلاوطنی ، جنرل پرویز مشرف المعروف طبلے والی سرکار کا عجیب و
غریب دورِ حکومت، اپنے ہی ہم وطنوں پر بم برسانے کی اجازتیں دینے والی
حکومت اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی شہادت کے خون رلا دینے والے مناظر
۔۔۔۔۔
قارئین آئیے اب نتیجے کی طرف چلتے ہیں آگ اور خون کے ان تمام مناظر کا خالق
مصور اور منصوبہ ساز صرف اور صرف ایک ہی ملک ہے جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انکل سام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔امریکہ بہادر نے دوستی کے نام پر پاکستان کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے
جو کوئی دشمن بھی نہیں کرتا لیکن افسوس ہم اندھے، بہرے اور گونگے لوگ ہیں۔
ہم نے اپنے ہیرے جیسے لوگوں کو مٹی میں ملا دیا اور بار بار ڈسنے والے سانپ
کو باربار گلے لگایا۔ راقم سے گزشتہ روز برطانوی دارالامراءکے پہلے تاحیات
مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد نے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اپنے دل کا دکھ اور
درد ایسے بیان کیا کہ اپنی کیفیت ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ لارڈ نذیر احمد
کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ کشمیر کی آزادی، فلسطین کی آزادی اور امت
مسلمہ کی سربلندی کے لیے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی
درخواست پر انہوں نے سکاٹ لینڈ یار ڈ اور دیگر اہم برطانوی اداروں سے ان کی
میٹنگ کروائی اور اس کا مقصد صرف ایک تھا کہ پاکستان میں قتل و غارت گری
بند ہو ۔ اس جرم پر ان کے خلاف آزاد کشمیر حکومت نے وہ کام کر دکھایا جو
بھارتی حکومت سے متوقع تھا۔ انہیں ناپسندیدہ شخصیت کا سرٹیفکیٹ تھمادیا گیا۔
لارڈ نذیر احمد کا کہنا تھا کہ وہ آزاد کشمیر حکومت سے صرف اتنا کہتے ہیں
کہ دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کرنا سیکھیں ان کے دل میں کوئی رنجش نہیں
ہے۔لارڈ نذیر احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کا بہترین مفاد اس میں ہے
کہ وہ چین کو پسندیدہ ترین ملک قرار دے اور امریکہ کی دغا باز دوستی سے بچے۔
لارڈ نذیر احمد ہم آپ سے شرمندہ ہیں قائداعظم محمدعلی جناح ؒ سے لے کر
ذوالفقار علی بھٹو شہید اور لارڈ نذیر احمد تک ہم نے اپنے محسنوں کی قدر
نہیں کی ہمیں معاف کر دیں۔ |