اب یہاں کوئی نیا جذبہ ابھرتا نہیں بلکہ....ڈوبتا ہے سب کچھ

تنقید کے کلہاڑے سے تہذیب کے ٹکڑے کرنے والے ، 1947 ءکی ہجرت اور 1971 ءکے سانحے سے داستانِ رنگ و لہو رقم کرنے والے ، زخموں سے چور اس تاریخ کی یادوں سے ابھی تک اس پاکیزہ خون کی مہک آتی ہے مگر ہمارے معاشرے کو نہیں ،بلکہ اس انسانی معاشرے کو جن کے سینوں میں صرف دل دھڑکتا ہے ۔ ہمارے معاشرے کی پرورش کچھ اس انداز سے کی گئی ، ان کی ذہنی سطح کو اس طریقے سے ہموار کیا گیا کہ اب ان کے سینوں میں صرف نفرتیں ، عداوتیں اور کدورتیں دھڑکتی ہیں۔ اس معاشرے کے رگ وریشہ میں صرف مال وزر کاراج ہے۔ ان کے چھوٹے ذہنوں میں صرف انتقام کی آگ بھڑکتی ہے ۔ کیوں؟کیا یہ سب کچھ اس وجہ سے تو نہیں کہ اس.... مظلوم .... قوم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہر سطح پر احساس ِ کمتری کا شکار رکھا گیا ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہمیں حالات کے بے رحم تھپیڑوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے جان نہیں چھوٹتی کہ اشیاءخوردونوش کابحران پیدا ہوجاتا ہے۔گرائے جانے والے پیٹرول بموں کا زخم ابھی مندمل نہیں ہوتا کہ سی این جی اسٹیشنز کی بندش کا عندیہ مل چکا ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹروں کی جانب سے ہڑتال کی کال پر غریب طبقے کی بے بسی ہی دیکھی نہیں جاتی تو ادھرمختلف سیاسی ....بلکہ لسانی پارٹیوں ....کے یومِ سوگ کے سائرن کانوں میں بجنے لگتے ہیں۔ دوسری جانب دیکھیں توبے روزگاری کی شرح دن بدن بڑھ رہی ہے۔جدید ریسرچ کے مطابق ہر پانچواں آدمی بے روزگار ہے ۔ گردشِ ایام کی ماری ہوئی اس قوم کے دل کی جگہ اب دلدل میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ اب یہاں کوئی نیا جذبہ ابھرتا نہیں بلکہ ۔ڈوبتا ہے سب کچھ۔۔۔!

شہر میں موت کا خونی رقص جاری ہے۔ روشنیوں کا شہر سوگ کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے۔غریب اور بے گناہ معصوم شہریوں کی زندگیوں کے روشن چراغوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کیا جارہا ہے۔ خوشیوں بھرے گھروں کو غم کدوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ نئی نویلی دلہنوں کے سہاگ کو اجاڑا جا رہا ہے ۔ گھر سے صحیح سلامت نکلنے والے باپ بیٹے کو جب کندھا دے کر ان کے گھر کی دہلیز پر رکھا ہوگا اور خون میں لتھڑی لاشوں کے تحفے ان کے گھر پہنچے ہوں گے توکیا آپ سوچ سکتے ہیں قیامت صغریٰ کے اُس منظر کو؟ سینے میں گوشت کا دل رکھنے والی اس ماں اور بیوی کا کیا حال ہوا ہوگا ؟دو جوانوں کے اس اندوھناک قتل پر ، بیوی بچو ں کی آہ وبکا ءپر تو شاید آسمان بھی رویا ہوگا ، ناکردہ جرم کی پاداش میں جنہیں موت کی گہری نیند سلایا گیاان کے خاموش لاشوں پر بین کرتی ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی آہوں اور سسکیوں پر تو عرش بھی لرز گیا ہوگا۔ لیکن شہر کے امن کو تباہ کرنے والے ، مال وزر کے پجاری ، لاشوں کا بیوپار کرنے والے ان بے رحم درندوں کے ہاتھ تک نہ کانپے ، ان کے پتھر سے سخت دل پر لرزہ طاری نہ ہوا۔ لمحہ بھر کے لیے ان درندوں کے ذہنوں میں یہ سوال تک نہ اٹھا کہ ان معصوم بے گناہوں کاآخر قصور ہی کیا ہے؟

مواچھ گوٹھ کا رہائشی ” ہاشم “ دہاڑی دار مزدور تھا ۔اس کی ڈیڑھ سال قبل ہی شادی ہوئی تھی ۔ شہر میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے باعث تین دن سے دہاڑی نہ لگا سکا ۔ بالآخر ہفتہ کو شہر کی کشیدہ صورت حال کے باوجود ہاشم نے کام پر جانے کا ارادہ کیا تاکہ تین دن سے بجھے گھر کے چولہے کے لیے کچھ ایندھن کا بندوبست کرسکے ۔ لیکن ہاشم کا یہ خواب ادھورا ہی رہ گیا ۔ بے رحم دہشت گردوں نے اس سے جینے کا حق ہی چھین لیا کہ اس نے ہڑتال اور سوگ کے اعلان کے باوجود دہاڑی کمانے کافیصلہ کرکے سوگ میں شرکت نہ کرنے کا عزم کیا ہی کیسے؟۔ نئی نویلی دلہن کے ہاتھوں سے مہندی کا رنگ ابھی صحیح سے نہ اترا تھا کہ اس کے سہاگ کو اجاڑدیا گیا۔ ہاشم کی بیوی اور تین ماہ کی بلکتی بچی کا ....اشرافیہ ، سیاسی پنڈتوں ، حکمرانوں اور انتظامیہ سے....سوال ہے کہ کیاحلال کی روزی روٹی کمانا اس شہر بے اماں میں اتنا بڑا جرم ہے کہ ایسے شخص سے جینے کا حق ہی چھین لیا جائے ؟ کیا گھر سے نکلنے ، اپنی محنت مزدوری کی کمائی حاصل کرنے کے لیے بھی عوام ان سیاسی پنڈتوں سے پوچھ پوچھ کر نکلے گی ؟اگر جواب ہاں میںہے تو پھر سیاسی چندے میں سے عوام کے گھر بھی سوگ اور ہڑتال والے ایام میں راشن ڈلوایا جائے تاکہ ہاشم جیسے غریب لوگوں کی جان بخشی ہوسکے اورغربت کی چکی میں پستی عوام کے گھروں کا چولہا تو کم از کم نہ بجھے۔۔۔!

وہ آنسو بڑے اذیت ناک ہوتے ہیں جو آنکھ کے بجائے دل سے ٹپکتے ہیں، وہ آگ بڑی خطرناک ہوتی ہے جو انتقام کے لیے بھڑکائی جاتی ہے ۔ کبھی کسی نے سوچا کہ ان اذیت ناک آنسوؤں کو کیوں بہایاجارہا ہے ، اس خوفناک آگ کو کیوں ہوا دے کر سلگایا جارہا ہے ۔ نفرت کی اس چنگاری کو فلک بوس شعلوں اور بگولوں میں کیوں تبدیل کیا جارہا ہے ۔ انتقام کی اس بھٹی کو ٹھنڈا ہونے سے قبل ہی لاشوں کے ایندھن سے کیوں گرمایا جارہا ہے ۔ سیاسی وڈیرے ، قابض جاگیردار اور موروثی حکمران مل بیٹھ کر اس کا حل کیوں تلاش نہیں کرلیتے ؟۔ وراثت میں سیاست چھوڑ جانے والے عظیم سیاسی راہنماؤں سے قوم کی ہمدردانہ اپیل ہے کہ خدارا اپنی سیاست کو جلا بخشنے کی خاطر ، اپنا سیاسی نام اور ساکھ برقرار رکھنے کے لیے خون ریزی کے اس کھیل کو مزید فروغ نہ دیں ۔ اس گھناؤنے کھیل کو مزید تقویت نہ دیں۔ اس بے بس قوم کی غم والم کی کیفییات کو محسوس کیجیے ۔اس دکھی قوم کی اشک شوئی کیجیے وگرنہ تاریخ کے چہرے سے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔کوئی بھی نہیں۔۔۔!
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.