ہفتے کی صبح ایک عجب سانحہ ہوا
جو کہ آج تک ہماری فوج اور ملک کے ساتھ پیش نہیں آیا تھا۔ گزشتہ روز سیاچن
گیاری سیکٹر میں ایک مربہ کلو میٹر پر پھیلا ہوا برفانی تودہ آرمی کے ہیڈ
کوارٹر پر گر گیا تھا جس کے نتیجہ میں ایک سو چوبیس فوجی اہلکار اور گیارہ
سویلین پر ملبہ گرا، بشمول بٹالین ہیڈکوارٹرز کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل
تنویر الحسن کے سب کے سب برف تلے دب گئے۔ جن کو نکالنے کے لئے ریسکیو
آپریشن جاری ہے۔ ادھرسیاچن پر برفانی تودے کی لپیٹ میں آنے والے پاکستان کے
ایک فوجی اڈے پر تعینات ایک سو پینتیس افراد کی تلاش کا کام اتوارکو دوسرے
روز بھی جاری رہا مگر تاحال حکام نے تقریباً اسی فٹ گہری اور ایک مربع
کلومیٹر پر پھیلی برف کے نیچے سے کسی کو زندہ یا مردہ نکالنے کی اطلاع نہیں
دی ہے۔سینکڑوں پاکستانی فوجی بھاری مشینری اور کھوج لگانے والے کتوں کی مدد
سے امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
یاد رہے کہ سکستھ ناردرن لائٹ انفنٹری کا بٹالین ہیڈکوارٹرز دو پہاڑوں کے
درمیان پندرہ ہزار فٹ کی بلند پر ایک وادی میں قائم ہے اور سیاچن پر اگلے
محاذوں کو کمک و رسد بھیجنے کے لیے ایک مرکزی گزرگاہ ہے۔ اس کے قریب ہی
پاکستانی فوج کا ایک اسپتال بھی موجود ہے۔دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ سیاچن
گلیشئر کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے شمالی سرے پر واقع ہے
اور اس کی لمبائی اٹھہتر کلومیٹر ہے۔دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی گلیشئر پر
بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر تعینات ہیں جہاں درجہ حرارت ستر ڈگری سینٹی گریڈ
سے بھی کم ہوتا ہے۔ خراب موسم، تیز برفانی آندھیوں اور برفانی تودوں کے
گرنے کے باعث فوجیوں کا مہینوں آپس میں رابطہ نہیں ہو پاتا۔ بھارت اور
پاکستان دونوں ہی گلیشئر پر اپنی فوجوں کی تعیناتی پر ہر سال اربوں روپے
خرچ کرتے ہیں۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سیاچن گیاری سیکٹر میں تودہ تلے
دبنے والے فوجی اہلکاروں کو نکالنے کے لئے جاری ریسکیو آپریشن کی نگرانی کے
لئے سکردو کا دورہ کیا۔ آرمی چیف کے ہمراہ کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ
جنرل خالد نواز خان بھی ہمراہ تھے۔ دوسری جانب راولپنڈی سے ریسکیو کے لئے
استعمال ہونے والے جدید آلات کو تودہ گرنے کی جگہ پہنچا دیا گیا ہے جبکہ
آرمی چیف خود ریسکیو آپریشن کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔اگرچہ اس حادثہ سے
چوبیس گھنٹہ پہلے ہمارے صدر پاکستان حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ اجمیری
کے دربار پر حاضری اور سلام کا پروگرام فائنل کر چکے تھے لیکن اتنے بڑے
حادثے کے بعد اس منت اور حاضری کی کوئی ویلیو نہیں رہتی۔ صدر آصف زرداری نے
کہا ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری کے بعد ان کی خوشی
کی انتہا نہیں جبکہ بلاول بھٹو نے مہمانوں کی کتاب میں درج اپنی ماں شہید
بینظیربھٹو کے پیغام کی تصویر اتاری اور ٹویٹر پر جاری کی۔پیغام میں کہاکہ
انہیں خواجہ غریب نواز کی زیارت پر بیحد خوشی ملی ہے اور ان کے پاس الفاظ
نہیں کہ وہ اس کو بیان کرسکیں۔
بھارت کا کہنا ہے کہ دلی میں وزیر اعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے صدر آصف
علی زرداری کے درمیان ملاقات میں باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے مسئلہ
کشمیر، سرکریک، سیاچن، دہشتگردی کے خاتمے اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے
جیسے مسائل پر بات چیت ہوئی ہے۔وزیراعظم من موہن سنگھ اور صدر زرادری نے
ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سب ہی اہم باہمی مسائل
پر ہونے والی بات چیت ’تعمیری‘ رہی ہے۔
کسی بھی ملک کا صدر وہاں فیڈریشن کی علامت ہوتا ہے اور ایسے مواقع پر ملکی
لیڈر ملک سے باہر نہیں جایا کرتے۔کئی ممالک میں چھوٹے چھوٹے اور معمولی
واقعات پر بھی وہاں کے صدور اور وزرائے اعظم نے اپنے دورے نہ صرف منسوخ کئے
بلکہ خود جاکر ان حادثات کے بعد بنیادی امداد فراہم کرنے کی کڑی نگرانی بھی
کی۔کئی لوگ اپنی منتیں مانتے ہیں اور درباروں پر حاضری بھی دیتے ہیں لیکن
حقیقتاً یہ فعل ذاتی نوعیت کا ہے اوراس کے لئے چالیس افراد کا اجتماع پھر
لاہور سے اتنا بڑا پروٹوکول لے کر سرکاری دو جہاز لیکر جانا اور وہاں
ہندوستان میں ہندوستانی سرکار کی طرف سے بھی اتنا پروٹوکول لیکر اپنی منت
پوری کرنا نہ صرف غریب ملک کی دولت ضائع کرنے کے مترادف ہے بلکہ ایک غریب
اور مقروض ملک کا صدر اگر احمدی نژاد کی طرح باغیرت ہو کے جاتا اور بغیر
کسی پروٹول کے ایک آدمی کی طرح جاتا تو زیادہ معتبر ہوتا۔ حضرت خواجہ معین
الدین چشتی ؒ اجمیری کے مزار پر جتنے ہزاروں لوگ موجود تھے اور اپنی ”منت“
سے فیض یاب ہو رہے تھی انہیں ایک گھنٹہ پہلے ہی وہاں سے ہٹا دیا گیا اور
صدر کے جانے کے آدھا گھنٹہ بعد عوام کو دوبارہ مزار پر جانے کی اجازت ملی
یعنی درمیان میں صدر پاکستان مخل ہوئے، ورنہ جس کے مزار پر جناب محترمی صدر
پاکستان منت ماننے گئے تو وہ تو غریب نواز تھے اور غریب نواز اس طرح کی”
پروٹوکول“ کہاں پسند فرماتے ہیں۔محب وطن ہونے کا تقاضا یہی ہے کہ ہمارے
آرمی چیف کی طرح صدرپاکستان اور وزیراعظم پاکستان ملبے کے نیچے دبے افراد
کے نکلنے تک وہاں کا مستقل دورہ کریں اور شہید یا زخمی ہونے والے ملک کے
بہادر فوجیوں اور آفیسرزکو پروٹول دیں۔پاکستانی عوام کی نظر میں ”منت “اتنی
ضروری نہیں کیونکہ یہ صدر پاکستان ریٹائرڈ ہوجانے کے بعد بھی پوری کر سکتے
تھے جتنا کہ ملکی عوام کی نظر میں کراچی تا گلیشئر سمیت تمام عوام کی
زندگیوں کی فکر ضروری ہے۔ہاںشاید ان کو یہ ڈر ہوگا کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد
میں اتنی پروٹوکول اور چالیس افراد کا ماحول نہیں ملے گا اور شاید ہمارے
حکمران پاکستانی عوام کے مفاد کے لئے کوئی قدم اٹھانا پسند بھی نہیں فرماتے
تاکہ غریب عوام کو بھی کچھ فائدہ ہو جائے۔ |