بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے - قسط اول

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے جب اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری دینے کا اعلان کیا تو ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے نئی دہلی میں ان کے اعزاز میں ظہرانہ کاا ہتمام کرڈالا ۔ ایسے میں ان دونوں کا مشترک دوست نما دشمن امریکہ کیونکر خاموش رہ سکتا تھا سو اس نے کباب میں حافظ سعید کے نام پر۱۰ ملین ڈالر کے انعام کا اعلان کرکے کباب میں ہڈی ڈال دی ۔امریکی انتظامیہ کو توقع تو یہ تھی دونوں ہم سایہ ممالک کباب کو بھول کر ہڈی کیلئے آپس میں لڑ پڑیں گے لیکن ہوا اس کے بالکل بر عکس دونوں رہنماؤں نے ہڈی کو ایک طرف کیا اورکباب چٹ کر گئے۔ اب صورتحا ل یہ ہےکہ حافظ سعید امریکا کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں ۔امریکہ کے اس اعلان کو پاکستانی سفیر کرامت اللہ غوری نے بے مقصد اور بے موقع قرار دیا جبکہ حافظ سعید نے الجزیرہ کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہم غاروں میں چھپے ہوئے نہیں ہیں جو ہماری تلاش کیلئے انعام کا اعلان کیا جائے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے خیال میں امریکہ ان کے ذریعہ سے ناٹو کی سپلائی لائن کو دوبارہ بحال کرنے خلاف اور ڈرون حملوں کی مذمت میں چلائے جانے والے ملک گیر احتجاج سے حواس باختہ ہو چکا ہے ۔حافظ سعید کے مطابق امریکہ کی معلومات بہت کم ہے اور اس نےہندوستان کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے ۔اس اعلان کے بعد حافظ سعید نے روپوش ہونے کے بجائے جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا اور آصف علی زرداری سے اپنا مجوزہ دورہ ہند منسوخ کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔سچ تو یہ ہے امریکہ کی اس حماقت نے حافظ سعید کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے ۔

چائے سے گرم کیتلی امریکہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے اس داؤں کا کوئی اثر نہ حافظ سعید پر پڑا اور نہ ہی زرداری یا منموہن پر تو کھسیانی بلی کی مانند اپنے زخمی پنجوں سے نیا راگ الاپنے میں لگ گیا ۔امریکی وزارتِ داخلہ کے ترجمان مارک ٹونر نے اعلان کیا کہ یہ انعام حافظ سعید کا محل و وقوع معلوم کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ ایسی معلومات کی فراہمی کیلئے ہے جن کی بنیاد پر ؁۲۰۰۸ میں ہونے والے ممبئی حملوں کے سرغنہ کو عدالت کے ذریعہ سزا سنوائی جاسکے ۔اس کے ذریعہ نہ تو امریکی فوجیوں کو انہیں نشانہ بنانے کا یاان پر ڈرون حملہ کرنے کا لائسنس ملتا ہے اور نہ امریکی غارتگروں کو انہیں گرفتار کرکے سیاہ ہیلی کاپٹر میں لے اڑنے کا پروانہ بلکہ اس کے مقصد پاکستانی حکمرانوں کو انہیں گرفتار کرنے کی ترغیب دینا ہے ۔ امریکی انتظامیہ کے اس بیان نے سارے کئےکرائے پر پانی پھیر دیا ۔پہلی حماقت نے پاکستان کے اندر غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی دوسری نے ہندوستانی میڈیا کی خوشیوں پر اوس ڈال دیا ۔ویسے ہمندی ذرائع ابلاغ پر تو فی الحال شوکت واسطی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
بڑے وثوق سے دنیا فریب دیتی ہے
بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے ہیں

میڈیا میں اس بات کے چرچے زوروں پر تھے کہ اس سے پاکستان پر زبردست دباؤ پڑے گا اور منموہن سنگھ خوب ڈٹ کر حافظ سعید کی گرفتاری بلکہ حوالگی کا مدعا اٹھائیں گے کہ یہ بیان آ گیا جس نے پاکستانی موقف کی تصدیق کر دی ۔ اس معاملے میں پاکستانی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان کے پاس حافظ سعید کے خلاف ایسے ثبوت موجود نہیں ہیں جن کی بنیاد پر ان پر کوئی قانونی چارہ جوئی کی جاسکے امریکی انتظامیہ نے بھی بلا واسطہ یہ تسلیم کر لیا کہ شواہد کا فقدان ہے اور ان کی فراہمی کے پیش نظر اس انعام کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ مقدمہ میں جان ڈالی جاسکے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ آخر یہ انعام و اکرام کا چکر کیا ہے ؟اس کا نام انعام برائے انصاف ہے اور اسے بین الاقومی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومتِ امریکہ کا ایک نہایت ہی قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے ، اس کا قیام؁۱۹۸۴کےاندر قانون سازی کے ذریعہ عمل میں آیا اس وقت نہ ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کوئی حملہ ہوا تھا اور نہ ہی القائدہ کا کوئی وجود تھا اس کے باوجود فی الحال تقریباًتمام انعامات مسلمانوں کے سروں پر ہیں ۔تاحال اس کے تحت دس کروڈ ڈالر کے انعامات ۷۰ افراد کے اندرتقسیم ہو چکے ہیں اس کے باوجودکامیابی کے طور پر صرف تین نام گنوائے جاتے ہیں جن میں سے ایک رمزی یوسف ہے اور دو صدام حسین کے بیٹے جنھیں انعام کے اعلان کے محض ۱۸ دنوں کے اندر گرفتار کر لیا گیا تھا اس لئے ممکن ہے ان کی گرفتاری کے بعد اس انعام کا اعلان کر کے امریکیوں نے اپنے ہی خزانے پر ڈاکہ ڈالا ہو ۔

اس انعام کامقصدیہ بیان کیا جاتا ہے اس سےایسے شخص کو نوازہ جائے جوخفیہ معلومات کے ذریعہ کسی دہشت گرد کو گرفتار کروانے یا اس کو سزا دلوانے میں مدد کرے ۔اس دہشت گردبین الاقوامی سطح پر امریکی افراد یا املاک کے خلاف دہشت گردی کی منصوبہ بندی یا اس کےنفاذ میں ملوث ہو۔ حافظ سعید کے خلاف امریکی سرزمین پر کسی حملے کا کوئی الزام نہیں ہے ۔ممبئی حملے میں امریکہ کا صرف یہ نقصان ہوا کہ اس کے ۶ شہری مارے گئے لیکن ایسی بات نہیں ہے کہ انہیں خاص طور پر نشانہ نہیں بنایا گیا تھا بلکہ وہ تو ہوٹل میں رہنے والے دیگر زائرین کے ساتھ حملے کی زد میں آگئے اس لئے اس کو امریکہ پر براہِ راست حملہ قرار دینے کا کوئی جواز نہیں پایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ممبئی حملے میں ملوث افراد پربھی اس کالے قانون کا سرے سے اطلاق ہی نہیں ہوتا کجا کہ محض وہم و گمان کی بنا پر انعام کا اعلان کردیا جائے ۔حافظ سعید کے خلاف اس قانون کا استعمال سانپ کے بجائے رسی کو پیٹنے کی مصداق ہے جس سے حاصل تو کچھ نہیں ہوتا ہاں لاٹھی ضرور ٹوٹ جاتی ہے۔اس معاملے میں امریکہ ہندوپاک دونوں کو ناراض کر کے اپنی ایسی حالت بنا لی ہے گویا ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

ہندو پاک تعلقات کے درمیان امریکہ کا کردار بڑا عجیب سا ہے ۔اس کی اپنی ایک مجبوری تو یہ ہے کہ دونوں کے ساتھ خود اپنےدوستانہ تعلق رکھے اسی کے ساتھ اس کی دوسری مجبوری یہ ہے ان دونوں کے درمیان باہم دشمنی پیدا کرے ۔جہاں تک پہلی مجبوری کا سوال ہے پاکستان کے ساتھ دوستی ماضی کی غلطیوں کے سبب ضروری ہے اور ہندوستان سے بہتر تعلقات مستقبل کے خطرات کے پیش نظر ضروری ہیں ۔ جارج ڈبلیو بش نے۱۱ ستمبر کے بعد ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہو کر افغانستان پر حملہ کرنے کی جو حماقت کی تھی اس کی قیمت امریکی ابھی تک چکا رہے ہیں ۔افغانستان کے اندر اپنے فوجیوں کو اسلحہ اور غذائی رسد پہنچانے کا واحد بری راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے ۔ اس کے باوجود براک اوبامہ نے افغانستان کے اندر اپنی ناکامیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر پاکستان میں ڈرون حملوں کا آغاز کر دیا یہ ایساہی احمقانہ اقدام ہے جیسے کوئی لکڑہارا اسی شاخ کو کاٹنے لگ جائے جس پر کہ وہ بیٹھا ہوا ہے۔ براک اوبامہ نے یہ اقدام ایک ایسے نازک وقت میں کیا جبکہ افغانستان سےفوجیوں کے انخلاکی تاریخ قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے ۔ ایسے وقت میں اپنے نکاسی کے راستوں کو غیر محفوظ کر دینا کسی خودکشی سے کم نہیں ہے خیر یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک امریکہ کا ایک فوجی دستہ بھی افغانستان میں موجود ہے وہ پاکستان سے پنگا نہیں لے سکتا ۔اس کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت اس شعر کی مصداق ہے
دوستی دشمنی ایک ہی شخص سے ، وہ ہی دلدار ہے وہ ہی قاتل مرا
چشم بے تاب ہے ، جسم بے خواب ہے ، دل تو آگے ہی تھا نیم بسمل مرا

ہندوستان سے امریکی دوستی کی بنیادی وجہ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اقتصادی و فوجی طاقت ہے ۔آئی ایم ایف کے مطابق چین کے اقتصادی ذخائر امریکہ کے ۸۰ فیصد کے برابر ہیں اور ؁۲۰۱۶ میں چین اقتصادی میدان کے اندر امریکہ سے آگے نکل جائیگا ۔دیگر ذرائع سے جواعدادو شمار سامنے آرہے ہیں ان کے مطابق کئی معاملات میں چین امریکہ کو پیچھے چھوڑ چکا ہےمثلاً گاڑیوں کی کھپت میں ؁۲۰۰۹ کے اندر وہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا۔صنعتی پیداوار اور برآمدات میں وہ امریکہ سے بہت آگے نکل چکا ہے ۔چین میں فون اور انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد امریکہ سے دوگنا ہے ۔اس کچھ ماہرین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ چینی معیشت فی الحال امریکہ سے ۲۰ فیصد بڑی ہے اور آئندہ دس سالوں میں امریکہ سے دوگنی ہو جائیگی ۔ ایک طرف چین میں خوشحالی آرہی ہے تو دوسری جانب امریکہ بدحال ہوتا چلا جارہا ہے ۔ایک مطالعہ کی روشنی میں ؁۱۹۷۰کے اندر امریکہ میں فی فرد آمدنی ۲۰ ڈالر فی گھنٹہ تھی جبکہ ۴۰ سال بعد وہ ۵ء۸ ڈالر فی گھنٹہ تک لڑھک گئی ہے گویا ۵۷ فی صد کی کمی واقع ہوئی ہے ۔اس کے بر عکس ؁۱۹۹۲ سے لے کر ؁۲۰۰۷ سالوں کے درمیان ۴۰۰ امریکی خوشحال ترین لوگوں کے اثاثے میں ۷۰۰ فیصد اضافہ ہوا ہے ۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام منصوبہ بند طریقے پر امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب ترین بنائے جارہا ہے ۔ایسے میں امریکہ کے سورج کا غروب ہونا طے ہو چکا ہے لیکن اسے محسوس نہیں کیا جارہا ۔پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کایہی حشرہوا تھا لیکن ساری دنیا کو اس کے کھوکھلے پن کا احساس تقریباً پچیس سال بعد ہوا۔اس صورتحال میں چین کا مقابلہ کرنے کیلئے ہندوستا ن کا ساتھ امریکہ کی بہت بڑی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کو بھی چین کے بڑھتے ہوئے فوجی بجٹ سے تشویش لاحق ہے ۔آئندہ سال کیلئے ہندوستان کا دفاعی بجٹ ۴۰بلین ڈالر ہے جبکہ چین نے ۱۰۶ بلین ڈالر کے بجٹ کا اعلان کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا ہے ۔ایسے میں چین کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ کو ساتھ لینا خود ہندوستان کی بھی ایک مجبوری ہے ۔

امریکہ کیلئے چونکہ ہندوستان اور پاکستان کا ساتھ نا گزیر ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ ان دونوں ہم سایوں کے درمیان دوستی کو فروغ دینے کے بجائے ان میں دشمنی کیوں لگاتا ہے ؟ اس سوال کے جواب حاصل کرنے کیلئے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری رسہ کشی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کا سب سے بڑا محافظ ہے اور اس کیلئے سب سے بڑا خطرہ ایران ہے اس لئے امریکاکی ایران سے مخاصمت ایک فطری امر ہے ۔اسی لئے اسے گھیرنے کی اور الگ تھلگ کرنے کی کوشش میں امریکہ ہمیشہ لگا رہتا ہے۔ ایران پر مختلف معاشی پابندیاں آئے دن لگتی رہتی ہیں لیکن اس سے ایران کا نقصان کم اور امریکا و مغرب کا زیادہ نقصان ہو جاتا ہے ۔ایک توخام تیل قیمتوں میں اضافہ سے ایران کے نقصان کی بھر پائی ہو جاتی ہے دوسرے ایران ڈالر کے بجائے مختلف ممالک سے ان کی اپنی کرنسی میں کاروبار کرنے کو ترجیح دیتا ہے جس سے برطانیہ اور امریکا کا کمیشن غرقاب ہو جاتا ہے۔ایران کے دو بڑے گاہک چین اور ہندوستان ہیں چین پر تو امریکا کی ایک نہیں چلتی ہاں ہندوستان پر دباؤ بنانے کی کو شش امریکہ کی جانب سے ہوتی رہتی ہے لیکن اب وہ بھی بارآور ثابت نہیں ہورہی ہیں اس لئے کہ حکومتِ ہند کیلئےاپنی عوام کی فلاح و بہبود بہر حال امریکی مفادات سے زیادہ قیمتی ہے۔ہندوستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کا منصوبہ زور و شور سے آگے بڑھ رہا ہے اور اسے روکنے کی ساری بالواسطہ امریکی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔چونکہ اس پائپ لائن کو پاکستان سے ہو کر آنا ہے اس لئے اسے بلاواسطہ روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کرکےپائپ لائن کو بندکروادیا جائے لیکن شاید اب یہ ممکن نہیں ہے اسی لئے کہ حافظ سعید کے شوشہ چھوڑنے کے باوجودونوں سربراہانِ مملکت کی یہ مختصر سی ملاقات نہایت دوستانہ اور خوشگوارماحول میں ہوئی ۔ آصف علی زرداری یا منموہن سنگھ نے پرانے زخموں کو ادھیڑنے کے بجائے باہمی مفادات اور تجارتی معاملات پر اپنی توجہات کو مرکوز رکھا اور اشتراک عمل کی راہوں پر غور کیا ۔ اس لحاظ سے ایک غیر رسمی ملاقات کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اس نے منموہن سنگھ کے پاکستانی دورے کی راہ ہموار کردی ہے ۔

ہندوستان ٹائمز اخبار نے اس دورے کے بعد ایک سروے کیا اور منموہن سنگھ کے مجوزہ دورے سے متعلق عوام کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا ۶۲ فیصد لوگوں کے خیال میں دونوں ممالک کے درمیان اختلافات اس قدرشدید نوعیت کے ہیں اس سے زبانی جمع خرچ کےعلاوہ کسی اور چیز کی توقع نہیں ہے ۔ اس کے برعکس ۳۴ فیصد لوگ پر امید ہیں اور ان کے خیال میں منموہن سنگھ کے پاکستانی دورے سے سنجیدہ اور مثبت پیش رفت ہوگی ۔۴ فیصد نے کسی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کیا ۔ہندپاک تعلقات میں ہوتا یہ رہاہے کہ یہ دونوں جب بھی ایک دوسرے سے قریب آتے ہیں کوئی نہ کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوجاتا ہے جس سے ساری محنت و کاوش پر یکسرپانی پھر جاتا ہے ۔ جیسا کہ فراق فرماتے ہیں
بارہا برخلاف ِ ہر اميد
دوستي دشمني ہو گئي ہے

عوام کے اندر پائی جانے والی اس مایوسی کو ختم کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہی ہے کہ ان لوگوں کو بے نقاب کر کے کیفر ِ کردار تک نہیں پہنچایا جائے جو ہم سایوں کے درمیان دشمنی کی آگ لگا کر اس اپنی سیاسی ومعاشی روٹیاں سینکتے ہیں جب تک یہ نہیں ہوتا اس وقت تک پائیدار امن کے امکانات معدوم ہی رہیں گے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ غیروں کے مفاد کے بجائے اپنوں کا درد محسوس کیا جائے کہ یہی جذبہ اخوت دشمنی کو دوستی میں بدل سکتا ہے بقول بیخود دہلوی
دردِ دل میں کمی نہ ہو جائے
دوستی دشمنی نہ ہو جائے
۰۰۰۰۰جاری
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226569 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.