ذوالفقار علی بھٹو....تاریخی حقائق کے آئینہ میں - دوسری قسط

16دسمبر1971امت ِمسلمہ کی تاریخ کا ایک اندوہناک ترین دن تھا،اس دن عالم ِ اسلام کی سب سے بڑی ریاست اپنے نااہل حکمرانوں کی وجہ سے دولخت ہوگیا تھا،20دسمبر1971کو بھٹو نے مغربی پاکستان کی باگ دوڑ سنبھال لی،یوں وہ اس دل شکستہ قوم کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے،قوم اس وقت جینے کی صلاحیت کھوچکی تھی،قوم کا مورال بلند کرنااولین ضرورت تھی،بھٹو نے اپنی صلاحیت،لیاقت اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اعلانات اور اقدامات کیے ،جن سے قوم کو کچھ حوصلہ ملا،سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 90ہزار سے زائد پاکستانی فوج کے جوان بھارت کی قید میں چلے گئے تھے،ان کی واپسی بھی ایک بہت اہم مسئلہ تھی،ہزاروں افراداپنے عزیزوں سے دور خلیج ِ بنگال کے اِس پار امید و بیم کی کیفیت میں جی رہے تھے،بھٹو نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ہم وطن بھائیوں کو ضرورچھڑالیں گے،چنانچہ جب وہ 1972میں”شملہ معاہدہ “کے لیے اندرا گاندھی سے ملنے بھارت گئے تو ڈنر کے بعد یہ دونوں ڈائننگ ٹیبل سے اٹھے اور لان کی طرف چہل قدمی کرنے نکل پڑے،بھٹو صاحب کو ان سے بات چیت کے لیے تنہائی مطلوب تھی،انہوں نے اندرا گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”مسزاندرا!آپ میرے قیدیوں کو میرے حوالے نہ کرنا چاہیں تو نہ کریں،ان کو آپ اپنے پاس ہی رکھیں،ان 90ہزار قیدیوں کے کھانے،لباس اور دیگر اخراجات کا ذمہ آپ کی حکومت پرہے،ان کے ساتھ اچھا سلوک کیجیے گا،اگر ان کے ساتھ ظلم ہوا تو پوری عالمی برادری آپ کے خلاف ہوجائے گی کہ یہاں انسانی حقوق کو روندا جارہا ہے،سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس معاملہ میں بالکل بھی انٹرسٹڈنہیں ہوں کیونکہ میں اگر ان کو اپنے ملک لے کر جاﺅں گاتو یہ ہزاروں لوگ میرے لیے ایک نیا مسئلہ بنیں گے،ان کے لیے روزگار وغیرہ ایک نیاچیلنج ہوگا،ان میں تو بے شمار افراد لولے ،لنگڑے اور معذور ہونگے،ان کا میں کیا کروں گا،یہ میری حکومت پر بوجھ بنے رہیں گے....“یہ سن کر اندرا گاندھی چونک اٹھیں،وہ بھانپ گئیں کہ اگر یہ قیدی رہا نہ ہوئے تو یہ مسئلہ خود میرے لیے ایک گمبھیرکیفیت اختیار کرجائے گا،چنانچہ فوری طور پر میڈم نے اپنے سیکریٹری کو بلاکر میٹنگ بلوانے کا کہا اور اسی اجلاس میں پاکستان کے 90ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کردیا گیا،یہ دراصل بھٹو کی چال تھی،وہ اپنی قوم سے وعدہ کرگئے تھے کہ وہ اپنے قیدی بھائیوں کو ضرور رہاکروالائیں گے،چنانچہ وہ اپنی چال میں کامیاب رہے۔

بھٹو کا ایک اور کارنامہ کبھی بھی بھلائے نہیں بھولتا،انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک متفقہ آئین بناکر دیا،1973کا یہ آئین حقیقت میں قومی امنگوں کا مظہر تھاجو کہ اب تک نافذالعمل ہے،اس کی سب سے اہم خاصیت اسلامی دفعات ہیں،اس میں اہم ترین اسلامی اصولوں کو پاکستانی دستور کی بنیاد بنایا گیا،بھٹو کا تیسرا بڑا کارنامہ”مسئلہ قادیانیت“کو حل کرانا ہے،یہ فتنہ برسوں سے امت ِمسلمہ کے لیے وبالِ جان بنا ہوا تھا،قوم کو پہلی دفعہ ایک متفقہ آئین دینے والی پارلیمنٹ نے تمام مکاتبِ فکر کے علما ءکی سرکردگی میں قادیانیوں کو ”غیرمسلم اقلیت“قرار دے کر امتِ مسلمہ کوایک دیرینہ مسئلہ سے چھٹکارا دلایا،بھٹو کا چوتھا بڑا کارنامہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی ہے،اس پلیٹ فارم کے تحت بھٹو نے عالمِ اسلام کو متحد کرنے کی بڑی کوشش کی،اس وقت کے اہم ترین مسلم حکمرانوں کو ایک صف میں کھڑا کردکھایا، عرب ممالک کو سامراج کے خلاف پیٹرول کو بطورِ ہتھیار استعمال کرنے کا آئیڈیا بھٹو نے ہی دیا تھا، اسی طرح مسلمانوں کے لیے عالمی اسلامی بینک کا خواب بھی بھٹو نے ہی دیکھا تھا،”ایٹمی پاکستان “کا آغاز بھٹو نے کیا تھا،ایٹمی ہتھیار کے حصول کاخواب ان کے سر پر جنون کی حد تک سوار تھا،جس پرانہوں نے ہنری کسنجر کی”ڈانٹ“بھی سنی تھی،پر سُدھرے نہیں اور عبرت کا نشان بنادئے گئے۔

بھٹو میں بے شمار خامیاں تھیں،ان کے خیالات،تصورات اور نظریات سے ہزار اختلاف کیاجاسکتاہے لیکن انہوں نے امتِ مسلمہ کے مفاد میں کچھ اقدامات ایسے کیے ہیں ،جن کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی،اسلامی دفعات پر مشتمل آئین دیا،قادیانیوں کوغیرمسلم اقلیت قراردیا،اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقادکیا،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے طرز پر عالمِ اسلام کا اپنا عالمی بینک کا تصور دیا،عربوں کو پیٹرول بم کا تخیل بخشا،یہ بھٹوکے وہ اہم ترین کارنامے ہیں جن کی وجہ عالمِ اسلام میں بھٹو کو ایک عظیم لیڈر مانا جاتا ہے،اسی وجہ سے شاہ فیصل نے بھٹو کو”اسلام کا فرزند“قرار دیا تھا،ان کے علاوہ 1973میں بھٹو نے عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی مدد کے لیے پاکستان ائیر فورس کو دمشق بھیجا،1974میں یونان اور ترکی کے درمیان قبرص کے مسئلہ پر ہونے والی جنگ میں ترکی کی مدد کے لیے اپنی فوج بھجوائی،کشمیر کی خود ارادیت کے لیے بے حد کام کیا،انہوں نے ہمیشہ مغرب سے پینگیں بڑھانے کے بجائے برادر اسلامی ممالک سے تعلقات استوار کیے،سعودیہ کے شاہ فیصل،لیبیا کے معمر قذافی،انڈونیشیا کے سوئیکارنو،مصر کے جمال ناصراورفلسطین کے یاسر عرفات وغیرہ سے انہوں نے اچھے مراسم قائم کیے،اس کے علاوہ اگر پاکستان کے لیے ان کی خدمات دیکھیں تو انہوں نے قومی سطح پر بھی نہایت اچھے اقدامات کیے ہیں،ہرشعبہ میں مثبت اصلاحات کیں،تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے کئی پروجیکٹس شروع کیے ،سب سے زیادہ اصلاحات تعلیمی پالیسی میں کی ،جس کے تحت کئی کالجزاوریونیورسٹیز کا قیام عمل میں آیا،شناختی کارڈ کا اجراکیا،جہیز کی لعنت کوختم کرنے لیے قراردادمنظورکرائی،فریضہ حج کی ادائیگی پر عائد پابندی ہٹائی۔

ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو دیکھیں تو وہ پہلوانتہائی شرمناک ہے،ان کی حکومت آمرانہ طرز کی تھی،ان کے اس پہلو کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتاہے کہ وہ ایک فاشسٹ،ظالم اور ڈکٹیٹر تھے،وہ سرِمُواختلاف کسی صورت برداشت نہیں کرتے تھے،مخالفین کو ایسی دردناک سزادیتے تھے کہ سننے والے کی روح تک کانپ اٹھتی تھی،FSF(فیڈرل سیکیورٹی فورس)کے نام سے دہشتگردوں کی بدنامِ زمانہ فورس بنائی،جس کے ذریعہ انہوں نے مخالفین کو ٹھکانے لگائے،خواجہ رفیق،محمداحمدقصوری،عبدالصمد اچکزئی ،مولوی شمس الدین اور ڈاکٹر نذیر وغیرہ کے خون کا الزام بھٹو ہی کے سر ہے،انہوں نے جبروتشددکے نت نئے انداز متعارف کرائے،کراچی،لاڑکانہ اور نوڈیرو کی اپنی کوٹھیوں میں سرکاری دولت کا بے جا اور بے دریغ استعمال کیا،احتجاج کرنے والے طلبہ تک کے ساتھ انتہائی بدسلوکی کی گئی،”اسلامی سوشلزم“کی راہ میں رکاوٹ بننے والے ” ملااِزم“ کو روکنے کے لیے علما دین کے ساتھ نازیباہتھکنڈے استعمال کیے،جے اے رحیم،میاں طفیل محمداور مولوی شیرگل کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا،ملک سلیمان کی بیٹیاں اغوا کیں،FSFکے کارندوں کے ذریعہ باپردہ خواتین کے دوپٹے نوچے گئے،بجلی،گیس،تیل،فولاد اور سیمنٹ وغیرہ کی صنعتوں کو نیشنلائزکرکے ملکی معیشت کی لٹیا ہی ڈبودی تھی ،اپنے اور جیالوں کے اللے تللے کی وجہ سے قومی خزانہ تقریبا خالی ہوچکا تھا،ان کے آخری ایام میں ان کے جیالوں نے ملکی معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی،روٹی،کپڑا اور مکان کا نعرہ ایک نہایت بھدا مذاق بن گیا تھا،لوگوں کو منہ اندھیرے گھروں سے اٹھواکر عقوبت خانوں میں ڈالا گیا،ملک کے اہم سیاسی ارکان جیلوں میں گلتے سڑ تے رہے،بلوچستان میں ملٹری آپریشن کی وجہ سے پورا صوبہ دہکتارہا،جس میں سینکڑوں افراد کو قتل کیا گیا،بے شمار افراد لاپتہ بھی ہوئے،فوج کے بھی 300سے زائد جوان مارے گئے،ملک کی کرنسی بے وقعت ہوچکی تھی،مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا،بدامنی ،لوٹ مار اور کرپشن کا راج تھا،ایسے ہی حالات تھے جن کی وجہ سے پی این اے اور نظامِ مصطفی کی تحریک چلائی گئی، نظامِ مصطفی کی تحریک کے دوران سینکڑون افراد کو بھٹو صاحب کی ہی ایما پر بھون ڈالا گیاتھا،بھٹو صاحب نے اس دوران مودودی صاحب سے رحم کی اپیل بھی کی،انہوں نے معافی دینے سے انکار کیا توکبیدہ خاطربھٹونے نفازِ اسلام کا ڈھونگ رچایا،شراب پر پابندی لگادی،جمعہ کی چھٹی منظور کرالی،بالکل ”سچے مسلمان “بن گئے تھے،لیکن حالات ہی ایسے دگرگوں تھے کہ چندسیاست دانوں نے خودفوج کوحکومت پر قبضہ کی دعوت دی،یوں جنرل ضیا نے 4جولائی1977کوسیاسی رہنماﺅں کی دعوت قبول کرتے ہوئے عنانِ اقتدار سنبھال لیااور بھٹو صاحب کو جیل بھیج دیا۔

اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ بھٹو ایک ذہین،باصلاحیت اور صاحبِ بصیرت لیڈر تھے لیکن دوسری طرف ان میں کچھ ایسی شخصی خامیاں بھی تھیں جنہوں نے ان کی سحر انگیز شخصیت کو گہنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا،20دسمبر1971سے لے کر4جولائی1977تک ان کے دور میں جہاں ملتِ اسلامیہ کے مفاد میں بے شمارکام ہوئے ہیں ،وہیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے ان سے کچھ ایسی نادانیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جنہوں نے انہیں آخرکارتختہ دار تک پہنچادیا،ا ب یہ قوم کی مرضی ہے ،قوم ان کو ان کے کارناموں کی بدولت ”عظیم ہیرو“گردانے یا ان کی غلطیوں کے عوض انہیں ”قومی مجرم“ٹھہرائے۔
Muhammad Zahir Noorul Bashar
About the Author: Muhammad Zahir Noorul Bashar Read More Articles by Muhammad Zahir Noorul Bashar: 27 Articles with 28924 views I'm a Student media science .....
as a Student I write articles on current affairs in various websites and papers.
.. View More