اگرچہ اس حقیقت سے کوئی بھی
مسلمان اور محب وطن پاکستانی راہِ مفر اختیار نہیں کرسکتا کہ ''یہود و
نصاریٰ کبھی تمھارے دوست نہیں ہوسکتے''کے تحت دنیاکی عظیم مملکت خداداد
پاکستان کے خلاف اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی سرگرمیاں کبھی بھی ڈھکی
چھپی نہیں رہیں لیکن ان مکروہ سازشوں کی آبیاری کیلئے جس قدر سازگار بلکہ
مددگار ماحول اِن ملک دشمنوں کو گزشتہ ایک عشرے میں ملا ہے ایسا یقیناََ
انہیں پہلے کبھی میسر نہ آیا تھااس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ قوموں کی
زندگی میں کبھی کبھار انتہائی کٹھن مرحلے بھی آتے رہتے ہیں جن سے قوموں کے
اجتماعی شعور اور اعلیٰ حکومتی حکمتِ عملی سے باآسانی نپٹا جاسکتا ہے بلکہ
اس بارے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ''مصائب و پریشانیاں قوموں کو جگانے
کیلئے آتی ہیں ''اس ضمن میں ہم جاپان کی مثال دے سکتے ہیں جب دوسری جنگ
عظیم میں امریکی بربریت کے بدترین مظاہرے نے ہیروشیمااورناگاساکی کوتباہ
برباد کرکے رکھ دیا جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ لقمہءاجل بن گئے اوربے شمار
اپاہج ہوگئے یہ سانحہ اگرچہ جاپان کیلئے ایک قیامت سے کم نہ تھا لیکن اس
بربادی اور قیامت نے آگے چل کر ایک نئے جاپان کو جنم دیا کیوں کہ اس واقعے
کے بعد جاپانیوں نے یہ عہد کرلیاکہ جاپان میں اس وقت وزیرِ اعظم ہاؤس یا
صدارتی محل تعمیر نہیں ہوگا جب تک ہم اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل نہیں
کرلیتے اور پھر وہی ہوا اس کے بعد جاپان کے ایک عام شہری سے لے کر وزراء تک
جاپان کی تعمیروترقی کیلئے جُت گئے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہی جاپان دنیا
میں ایک قابلِ رشک اکانومی کا مالک ہے ۔جبکہ دوسری جانب ہمارایہ حال ہے کہ
پہلے ہم نے سیاسی بلوغت کے فقدان اور ڈکٹیٹر شپ کی بدولت آدھاملک گنوایا
لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے اس گہرے گھاؤ کے باوجود ہمارے سیاستدان نے کوئی سبق نہ
سیکھا جس کی نااہلی نے ڈکٹیٹرز کو ملک میں کھل کھیلنے کا موقع دیا
خصوصاََجنرل پرویزمشرف نے تو ملک کی بنیادوں تک کو ہلاکے رکھ دیا کمال
اتاترک کا شیدائی یہ بدکرداراور طبلہ نواز ڈکٹیٹر تمام سیاسی جماعتوں کی
موجودگی میں نوسال تک ملک میں سیاہ و سفید کا مالک رہا اور اِن نوسالوں میں
اُس نے ملک کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی مفادات کی جنگ میں
جھونکنے سے لے کر اکبر بگٹی کے قتل اور جامعہ حفصہکی عفت مآب بیٹیوں کو
فاسفورس بموں سے نہلانے سمیت کیا جرم نہیں کیااورستم بالائے ستم یہ کہ اس
بردہ فروش نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوامریکہ
کے ہاتھ فروخت کیا جب ایم ایم اے اس کے ساتھ اقتدار میں شریک تھی ۔اورآج
بھی یہی عالم ہے کہ ملک کو اس وقت کئی چیلنجوں کا سامنا ہے مثلاََنیٹو
سپلائی کی بحالی کیلئے امریکہ پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالے ہے،ڈرون حملے
رکنے میں نہیں آرہے ، اوراب امریکہ نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے
معروف فلاحی تنظیم جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمدسعید کے سرکی قیمت ایک
کروڑ ڈالرمقررکردی ہے ،امریکہ میں بلوچستان کی علیحدگی کی سازشیں تیار کی
جارہی ہیں،عوام غربت بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں اور
خودسوزیاں کر رہے ہیں،ہمارے ملکی و غیر ملکی قرضے اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ
پاکستان میں پیدا ہونیوالا ہر بچہ چالیس ہزارروپ کا مقروض ہوتا ہے جبکہ
ہمارے صدر اور وزرائے کرام کروڑوں ڈالر غیرملکی دوروں پر اڑارہے ہیں اورایک
ایسے وقت میں جب کہ ہرکوئی جانتا ہے کہ حافظ سعید پر مقرکیے جانیوالے انعام
کے پسِ پردہ بھارت ہی کا ہاتھ کارفرما ہے جو پاکستان کو ناکام ریاست ثابت
کرنے کیلئے دِن رات پوری دنیا میں لابنگ کررہا ہے جبکہ ہم اسی بھارت کوmost
favourite nation قرار دلانے کیلئے انتہائی بے چین ہیں اور ایسے میں صدر کے
دورہ بھارت کو کیا معنی پہنائے جا یہں یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے اورسب
سے بڑھ کر یہ کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ملکی
فضا پر چھائے خطرات کے اِن بادلوں میں ملکی سلامتی کیلئے متحد ہونے اور
پاکستان کے دشمنوں کو مشترکہ اور طاقتور پیغام دینے کی بجائے ایک دوسرے پر
الزام تراشیوں میں مصروف عمل ہیں اوراب تو انہوں نے ایک دوسرے کے مُردوں کو
بھی نہیں بخشا اوراُن کے جنازے کے شرکاءکی گنتی کو مقبولیت کا میعار بنا کر
ایک دوسرے کو طعنے دینے شروع کردئیے ہیں حالاں کہ اگر جنازے کے شرکاء کو
عوامی مقبولیت کا معیار تسلیم کرلیا جائے تو جنرل ضیاءکے جنازے میں تو
لاکھوں لوگوں نے شرکت کی تھی ؟توکیااس جنازے کی بنا پر پیپلزپارٹی جنرل ضیا
کو محب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے پرتیار ہوجائےگی ؟ بات پھر وہی ہے کہ اس
ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں ہماری سیاسی پارٹیوں کی غیرسنجیدگی نے بھی
اہم کرداراداکیاہے جن کی ناکامی نے نہ صرف ہر ڈکٹیٹر کو اقتدار پر قبضے کا
موقع دیا بلکہ پھر یہی سیاستدان'' نظریہ ضرورت''کے تحت ملک کے ''وسیع تر
مفاد''میں انہی ڈکٹیٹرز کے دست و پا بھی بن جاتے ہیں اور پھر جب اِن
سیاستدانوں کی اپنی حکومت آتی ہے تو یہ بھی ملک کیلئے اِن ڈکٹیٹرز سے کچھ
کم خطرناک ثابت نہیں ہوتے جس کا ایک ادنیٰ اندازہ پرویزمشرف کے دور اور
موجودہ جمہوری حکومت کے مابین ضروریات ِ زندگی کی قیمتوں کے موازنے سے ہی
ہوجاتا ہے اور ملکی سلامتی کے خلاف جتنی سازشیں اور کرپشن کا بازار اس
جمہوری حکومت میں گرم ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوااب بھی وقت ہے کہ تمام
سیاسی پارٹیاں الیکشن میں کامیابی کیلئے پوائنٹ سکورنگ اور ایک دوسرے
پرالزام تراشی کرنے کی بجائے سب سے پہلے اس ملک کیلئے سوچیں کیوں کہ ملک ہو
گا تو سب کچھ ہو گا ورنہ مجھے واضح نظرآرہاہے کہ عوام کا ایک بار پھراِن
سیاسی پارٹیوں پر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور سب سے اہم ترین بات یہ ہے
عوام سب سے پہلے خود کی اصلاح کریں اور اپنا احتساب کرتے ہوئے اپنے اعمال
درست کرلیں کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے ''جیسے تم ویسے ہی تمھارے حکمران''- |