تنازعہ کشمیر کا پر امن حل

صدر مملکت زرداری نے حال ہی میں بھارت کا ایک روزہ دورہ کیا جہاں انہوں نے ایک طرف بھارتی منتری من موہن سنگھ کے ساتھ جامع مذاکرات کئے تو دوسری جانب صدرنے اجمیر شریف میں معروف اولیا اللہ صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر اپنی عقیدت اور الفت کا بے لوث اظہار کیا۔ زرداری اور من موہن سنگھ 40منٹ تک راز و نیاز کا مقالہ پڑھتے رہے۔ ملاقات اور من موہن کے ظہرانے میں دونوں منتریوں کے چہروں پر طمانیت اور خوشی رقص کررہی تھی جو خوشگوار اور دوستانہ ڈائیلاگ کی غمازی کررہی تھیں۔ میڈیا کی چکا چوند میں محو گفتگو من موہن نے تفاصیل کو کوزے میں یوں بند کیا انڈو پاک کی قیادت وقت کی نزاکت کا ادراک رکھتی ہے اور ہم تمام تنازعات کے عملی حل کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ زرداری نے ڈائیلاگ سے مثبت نتائج کی مگ پیشین گوئی کی مگر ائے بسا ارزو کہ خاک شد کے مصداق مثبت نتائج کی توقع کرنے والوں کے عقل پر ماتم پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ کیاانڈو پاک کے پالیسی میکرز یا تھنک ٹینکس یا دانشور اس کڑوے سچ کا جواب دینے کی زحمت کریں گے کیا67 سالوں سے ایک دوسرے کو کھا جانیوالی نظروں سے دیکھنے والوں کے مابین تنازعات اختلافات اور رنجشوں کو یک دم بھلایا جا سکتا ہے؟ کیا پاک بھارت ایسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کو پائیدار اور دوستانہ ریلیشن شپ کی راہ پر چلنے یا دوڑنے کی اجازت دے گی؟ کیا برصغیر پاک و ہند میں امریکہ اسرائیل اور مغرب پاک بھارت ریلیشن شپ کے استحکام کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرسکتا ہے۔ امریکی صہیونی وار ٹریڈ انڈسٹریز ہر سال کھربوں ڈالر کا بارود اورغیر قانونی اسلحہ اور جنگی ہتھیار جنوبی ایشیا میں فروخت کرتی ہیں۔ اسی تناظر میں سی آئی اے را موساد اور انکے کارندے سارا سال سرحد کے ار پار فسادات تخریب کاری دہشت گردی اور لسانیت کو فروغ دینے کی سازشوں کے تانے بانے بنتی رہتی ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ تقسیم ہند کے ابتدائی مہینوں میں پاک بھارت اختلافات کا اغاز ہوگیا۔ دونوں کی تاریخ تلخیوں رنجشوں اور جنگوں کی وحشت سے بھری پڑی ہے۔پاک بھارت بارڈر لائن کی لکیر 20 لاکھ پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے خون انسانیت سے کھینچی گئی۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگوں کا اغاز1947 کے ابتدائے افرینش سے اس وقت شروع ہوا جب بھارتی فورسز نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو پامال کرتے ہوئے کشمیر کی دلفریب اور جنت نظیر وادی کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جمالیا۔ بابائے قوم قائد اعظم نے پاکستان کے انگریز چیف آف ارمی سٹاف کو کشمیر میں بھارتی فورسز کا بھرکس نکالنے اور آزادی کشمیر کوعملی بنانے کا حکم صادر کیا مگر انگریز نے نہ صرف قائد اعظم کے احکامات کی تکذیب کی بلکہ اس نے بھارت کے خلاف کسی قسم کے فوجی آپریشن کی مخالفت کا اعلان کردیا۔پاک بھارت کے مابین1947 سے کشمیر کے چناروں سے اٹھنے والی مخاصمت روز بروز بڑھتی رہی۔UNO نے5 اکتوبر1948 میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے قراداد پاس کی جس میں uno کی سلامتی کونسل نے بھارت کو پابند بنایا کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کروائیں۔بھارت نے اسے درخود اعتنا نہ سمجھا یوں اس قرارداد کا مسودہ دفتری فائلوں کے انبار میں گم ہوگیا۔ بھارت کے نیتاؤں پر جنگی دھنون چھایا ہوا ہے ۔ بھارت جنوبی ایشیا کا ڈان اور علاقے کا سپرپاور تھانیدار بننے کی دھن میں غرق ہے۔ بھارت نے فوجی بالادستی کی خاطر روز اول سے جنگی سازو سامان کے انبار لگانے کی جس مہم کا اغاز کیا تھا وہ چھ صدیوں بعد پوری جولانیوں کے ساتھ جاری ہے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ بھارت اس وقت ایشیا میں جنگی سازوسامان اور ہیبت ناک ہتھیار خریدنے والا بڑا گاہک بن چکا ہے۔بھارت روز اول سے پاکستان کے وجود کا دشمن رہا ہے ۔ بنگلہ دیش کی آزادی اور بنگالیوں کی علحیدگی میں سب سے قابل نفریں کردار بھارت نے ادا کیا۔ اندرا گاندھی نے ہی تو سقوط ڈھاکہ پر خوشیوں کا دھمال ڈالا تھا کہ ہم نے آج دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ ہندوستان کی توسیع پسندانہ پالیسی اور پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خواہشات کے تناظر میں پاکستان کو اپنے بجٹ کا ستر فیصد افواج پاکستان پر خرچ ہوتا ہے۔ ہندوانہ عزائم کے جارہانہ نتائج کی روشنی میں پاکستان دفاع و سلامتی کی خاطر بے پناہ مالی وسائل کو ہتھیاروں کی تجارت پر خرچ کیا جاتا ہے۔۔ دونوں ملکوں میں غربت استحصال بھوک مفلوک الحالی اور پسماندگی ہر گلی ہر قرئیے اور کوچے میں رقص بسمل کرتی ہے۔ بھارت پاک دونوں جوہری قوت سے لیس ہیں مگر بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ قائد اعظم اور گاندھی کے دیس میں طبقاتی نظام نوکر شاہی کی لوٹ مار کرپشن بے روزگاری کے کارن روزانہ لاکھوں لوگ غربت کی لکیر کے نیچے تنگدست طبقات میں شامل ہورہے ہیں۔ اسلام آباد اور نیو دہلی نے شاہی و سرکاری خزانوں کی جس دولت کو عوامی خوشحالی اور ہریالی کی خاطر خرچ کرنا تھا وہ بارود اور موت کی خریداری پر لٹائی جارہی ہے۔ پاکستان اور بھارت تین جنگیں لڑ چکے ہیں دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں ایک عجب ہیجان انگیز صورتحال پائی جاتی ہے کہ دونوں ملکوں میں ہونے والی دہشت گردانہ وارداتیں isiاور انڈین را کے کھاتے میں جمع کی جاتی ہیں۔ بھارت جنوب ایشیا میں فوجی برتری اور بالادستی کا خواہاں ہے۔ پاک بھارت تعلقات کو بہتر منظم اور پائیدار بنانے کے لئے ماضی میں بھی اعتماد سازی کی کوششیں کی جاتی رہیں ہیں مگر نتیجہ ندارد۔ طرفین کی اعلٰی سیاسی حکومتی اور دفاعی شعبوں میں کئی ایسے بازیگر موجود ہیں جو انڈو پاک دوستی اور قربت داری کا نام سننا گوارہ نہیں کرتے ۔ نواز شریف دور میں اٹل بہاری واجپائی مینار پاکستان کی چھتر چھاؤں تلے نظریہ پاکستان کی توثیق کررہے تھے تو دوسری جانب چیف آف آرمی سٹاف جنرل مشرف کارگل کی چوٹیوں پر بھارتی پوسٹوں پر قبضہ کررہے تھے ۔جنرل مشرف نے12 اکتوبر1997 میں نواز حکومت کو راندہ درگا بنایا اور خود تخت نشین ہوگئے۔ جرنیل جب تک وردی کے حسن سے لطف اندوز ہوتے ر ہیں انکا لہجہ ترش ہوتا ہے مگر جب کوئی جرنیل حکومتی بساط لپیٹ کر صدر بنتا ہے تو تب اسے جرنیلوں والی اکڑفوں اور زبان کے کھردرے پن کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ 12کتوبر کے انقلاب مشرف کے بعد ارمی چیف مشرف ہی پاکستان کا مختیار کل بنا تو اسے پڑوسیوں کی اہمیت کا اندازہ ہوا تو مشرف نے بھارت کا دورہ کیا۔ ۔2007 میں سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والی دہشت گردی نے دوبارہ رنجش کا منہ دیکھا۔زرداری صدر بنے تو وہ فوری طور پر بھارت کے ساتھ میوچل انڈر اسٹینڈنگ قائم کرنا چاہتے تھے مگر بمبئی بم بلاسٹ نے سارا مزہ کر کرا کردیا۔صدر زرداری نے بھارت کے ساتھ دوستی پیار و امن کے احیا کی خاطر مخلصانہ کاوشیں کی ہیں۔ موجودہ سرکار نے ایک طرف بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے کئے ہیں تو دوسری جانب حکومت نے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دیا حالانکہ حکومت کو مذہبی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔بھارتی قیادت کی جانب سے تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کا اعلان خوش آئند تو ہے مگر انڈو پاک کی6 صدیوں پر مشتعمل سیاسی دفاعی جنگی اور علاقائی ہسٹری کو ٹٹولا جائے تو بغل میں چھری منہ میں رام رام والا معاملہ سامنے آتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ س بھارت کے ساتھ دوستی قائم رکھنے کی کوشش کی ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ بھارتی قیادت نے ہمیشہ سرد مہری کا ثبوت دیا۔ زرداری نے بھارت یاترا سے قبل حافظ سعید کے متعلق کہا تھا کہ وہ من موہن سے اس معاملے پر کوئی بات نہیں کریں گے مگر دوسری جانب بھارتی قیادت نے صدر کے سامنے حافظ سعید والا معاملہ زور شور سے اٹھایا۔ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے بعد نیو دہلی سے فراخ دلی کی توقع تھی مگر یہاں معاملہ الٹ ہوگیا ۔بھارت نے امریکہ کی چاپلوسی کرکے حافظ سعید کو دور حاضر کا خطرناک ترین دہشت گرد ڈیکلیر کروا کر پاکستان کے مسائل میں اضافہ کیا۔ بھارتی ڈپلومیسی کا اصل رخ دیکھنے کے بعد ایک حقیقت تو یہ بھی مترشح ہے کہ بھارت ایک طرف دوستی کے بلند بانگ دعوؤں کا شور مچاتا ہے تو دوسری جانب پاکستان کو زچ کئے بغیر اسے سکون نہیں ملتا۔ بھارت پاکستانی دریاؤں پر ڈیمز تعمیر کرکے ہماری خوشحالی کو بے آب و گیاہ و بنجر صحرا میں بدلنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ پاکستان کو درپیش جاں گسل اور سنگین مصائب میں سے ایک غیر ملکی ایجنسیوں کی دراندازی ہے جو یہاں امن و امان کے خوشبودار گلستان کو راکھ بنانے کی سازشیں کرتی رہتی ہیں۔ عالمی برادری نے بھارت کو آنکھوں کا تارا بنا رکھا ہے ۔ امریکہ اور یورپ کی تابعداری اور پیروکاری کی خاطر بھارتی وجود مسلم مخاصمت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔زرداری یک روزہ دورے کی تھکان ابھی نہیں اتری تھی کہ بھارتی سپریم کورٹ نے ایک انتہاپسند آدم خور کو وقار و اعجاز سے بری کردیا جو مسلم دشمنی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ نریندر مودی گجرات کے چیف منسٹر ہیں جسکے دہشت گردوں نے 28 فروری2001 میں سابر متی ٹرین کی ان بوگیوں کو آگ لگادی جس میں سینکڑوں مسلمان سفر کر رہے تھے۔ نریندر مودی کی آدم خوری سے سارے مسلمان مسافر جل کر خاکستر بن گئے۔ اٹل بہاری واجپائی جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں نے نریندر مودی کو سانحہ گودھرا کے تین دن بعد جون2002 میں خط لکھا جس میں نریندر مودی کو انسانیت کا دشمن کہا اور سانحہ گودھرا کی ذمہ داری کا ملزم ٹھرایا۔ کیا ایسے انتہاپسندوں کی موجودگی میں من موہن سنگھ اپنے اعلانات کی تکمیل کو یقینی بناسکتے ہیں؟ بھارت اس وقت تک انڈو پاک دوستی برادرانہ تعلقات کو مستحکم نہیں کرسکتا جب تک کشمیریوں کو یو این او کی قرارداد کے مطابق حق خود ارادیت سے زیور نہیں کرتا۔ صدر زرداری نے خواجہ معین الدین کے مزار اقدس پر پھولوں کی چادر بچھائی۔ مزار پر من موہن سنگھ کے وزیر مہمانداری نے چادر چڑھائی۔ بھارتی قائدین اور من موہن سرکار خواجہ معین الدین کے قول کی روشنی میں خطے میں جاری اسلحے کی دوڑ کا خاتمہ کریں تاکہ اربوں ڈالرز کی خطیر رقم ex برصغیر کے لاکھوں عسرت زدہ بلکتے بچوں تڑپتے مریضوں اور ذی احتیاج کروڑوں باشندوں کے پیٹ کو روٹی کا ایندھن مہیا کرنے اور صحت و تعلیم کی سہولیات بہم پہنچانے پر صرف کی جاسکے۔ بھارت کے جنگی جنون نے پاکستان کو ملکی سلامتی و دفاع کی خاطر اربوں کا اسلحہ حاصل کرنے پر مجبور کررکھا ہے۔ انڈو پاک کے چپے چپے پر بھوک ننگ اور جہالت کی وحشت کا راج ہے۔سابق برصغیر کے کروڑوں انسان بے روزگاری بے بسی و بے کسی کے عالم میں نڈھال ہیں۔ من موہن سنگھ زرداری اور اصحاب اقتدار پالیسی میکرز خواجہ معین چشتی کی تعلیمات کی روشنی میں جنگی ہتھیاروں کے صہیونی سمگلرز کی جیبوں میں ٹھونسنے کی بجائے اربوں ڈالرز فلاح انسانیت پر خرچ کرنے کا معاہدہ کریں۔ خواجہ معین الدین نے فرمایا تھا بھوکی غریب قوم کی اہیں اور اہ و فغاں عرش کا مالک رب العالمین بھی نہیں سہہ سکتا کیونکہ مردہ کھال کے پھونکنے سے لوہا بھی پگھل جاتا ہے۔ کیاجنوبی ایشیا کی سپر پاور بننے کے خبط میں مبتلا بھارتی تھنک ٹینکس تاریخ سے نابلد ہیں ؟روئے ارض کا کوئی معاشرہ امن و امان کی کارفرمائی کے بغیرسپرپاور کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں یہ خطہ امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔ شائد عظیم فلسفی تلسی داس نے انڈو پاک کی موجودہ شعلہ آفریں صورتحال کی خاطر صدیوں پہلے کہہ دیا ہو سورج خود بخود پھول کھلا دیتا ہے۔چندرما آپ ہی اپ چاندنی کو پھیلا دیتا ہے۔بادل بغیر مانگے پانی برساتا ہے۔ اسی طرح انسانیت کے بہی خواہ حکمران انسانیت کی فلاح و عظمت کا بیڑہ اٹھانے میں دیر نہیں کرتے۔کیا اقوام عالم میں کوئی ایک ادھا لیڈر فلاسفر موجود نہیں جو سابق برصغیر کی معاشی تہذیبی صنعتی اور سیاسی بالادستی کی خاطر مسئلہ کشمیر کو حل کروانے کا نعرہ لگا کر کشمیریوں کو غصب شدہ آزادی کا تحفہ دینے کے لئے میدان عمل میں کود پڑے۔ من موہن سنگھ کو اپنے ہم مذہب روحانی پیشوا تلسی زاد کے محولہ بالہ جملے کی اتباع میں مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی آرا میں حل کرنے کی جرات و ہمت کا بے لوث مظاہرہ کرنا ہوگا یوں وہ تاریخ کے روشن ابواب میں ہمیشہ تابندہ رہیں گے اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو انکا نام وقت کے کوڑے دان میں ہمیشہ کے لئے گل سڑ جائیگا۔ من موہن کس راہ کے مجاور بنتے ہیں اسکا کلی اختیار صرف من موہن کو حاصل ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140621 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.