پارلیمنٹ نے بالآخر قومی سلامتی
کمیٹی کی ملکی خارجہ پالیسی، قومی سلامتی، پاک امریکا تعلقات اورنیٹو
سپلائی کے حوالے سے14 سفاشات کی متفقہ منظوری اس وقت دی، جب قوم کے 140 سے
زائد عظیم سپوت وطن کا دفاع کرتے ہوئے سیاچن کے محاذ پر ہزاروںٹن برف تلے
دبے تھے اورعوام میں حکومتی کرپشن کی داستانیں اور عدالتی احکام کی حکم
عدولی کے چرچے زبان زد عام ہیں۔
12اپریل2012ءکواسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی صدارت میں ہونے والے پارلیمنٹ
کے مشترکہ اجلاس میں نیٹو سپلائی کی مشروط بحالی، امریکا کے ساتھ آیندہ
تعلقات اور نئی خارجہ پالیسی کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کے 14نکاتی مسودے کی
متفقہ طور پر منظور ی دی گئی۔ یہ سفارشاتی مسودہ پارلیمانی کمیٹی کے
چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے پیش کیا۔ مسودے میں کہاگیا ہے کہ پاکستان کی
خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا،حکومت آئین پاکستان کے آرٹیکل 40 اور
اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آزاد خارجہ پالیسی یقینی بنا ئے۔ پاکستان
میں امریکی موجودگی پر نظرثانی اورپاکستانی سرحدوں کے اندر ہرطرح کے ڈرون
حملے فوری بند ہونے چاہئیں۔ کسی بھی بہانے پاکستان کی علاقائی حدود کی خلاف
ورزی ہوگی اور نہ ہی پاکستان کے زمینی وفضائی راستے افغانستان میں اسلحہ
اور دیگر گولا بارود لے جانے کے لیے استعمال ہوں گے۔ پاکستان کے جوہری
پروگرام اور اثاثوں اور ان کے تحفظ وسلامتی پرکوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے
گا۔ امریکا اوربھارت کے سول جوہری معاہدے نے خطے میں اسٹرٹیجک توازن کو بدل
کررکھ دیاہے، اس لیے پاکستان امریکا یادیگرممالک سے ایسا ہی معاہدے کرے۔
ایف ایم سی ٹی کے معاملے پربھارت کے حوالے سے پاکستان کے اسٹرٹیجک موقف
پرکوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔ سلالہ میں 24پاکستانی فوجی جوانوں کی
شہادت نیٹو/ایساف کا قابلِ مذمت عمل ہے اور یہ عالمی قوانین،پاکستان کی
خودمختاری اورعلاقائی سلامتی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حکومت امریکا سے
غیرمشروط معافی طلب کرے، حملے کے ذمہ داروں کوانصاف کے کٹہرے میں لایا جائے
اور یقین دہانی کرائی جائے کہ ایسے حملے یاپاکستان کی خودمختاری کوپامال
کرنے والی کوئی اورکارروائی آیندہ نہیں ہوگی۔ حکومت اور دیگر تمام ادارے
قومی سلامتی کے حوالے سے کسی غیرملکی حکومت یا اتھارٹی کے ساتھ کوئی زبانی
معاہدے نہیں کریں گے اور پہلے سے موجود ایسے تمام معاہدے اور یاداشتیں
آیندہ قابل عمل نہیں ہوں گی۔ اگرچہ اس طرح کی سفارشات پہلے بھی پارلیمنٹ
میں متعدد بار پیش کی گئی ہیں، تاہم اس مرتبہ معاہدوں، یاداشتوں کے حوالے
سے وا ضح طریقہ کار بیان کیا گیا ہے۔
وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے سفارشات کو حکومت کے لیے رہنما اصول قرار
دیتے ہوئے کہا اگر ہم اکٹھے ہوں گے تو سب ہمارا احترام کریں گے۔ اپوزیشن
لیڈر چودھری نثار علی خان نے کہا کہ قراردادکو من و عن عمل درآمد تک تاریخی
نہ کہا جائے، اس کی کیا گارنٹی ہے کہ ان سفارشات کا حشر پہلے جیسی
قراردادوں جیسا نہیں ہوگا؟ حکومت واضح کرے کہ اگر دوبارہ ڈرون اور چیک پوسٹ
پر حملہ ہوا یا بھارت کی طرح سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں پیش رفت نہ ہوئی
اور امن مذاکرات میں شامل نہ کیا گیا تو اس کا کیا رد عمل ہوگا؟ اگر امریکا
کو اپنے لوگوں کا خیال ہے تو ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ اپنے عوام کا تحفظ
کریں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمنٹ سے سفارشات کی منظوری کے بعد
حکومت کسی بھی ملک سے پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر معاملات طے نہیں کر سکے
گی،ماضی کا قصہ ختم ہوچکا، نئے سفر کا آغاز کررہے ہیں، آزاد خارجہ پالیسی
کی تشکیل کے لیے یہ پہلا قدم ہے، اگر پارلیمانی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش
کی گئی تو مخالفت کریں گے۔
پارلیمنٹ نے نیٹو سپلائی کی بحالی کو مشروط کیاہے، لیکن کیا امریکا ان
سفارشات کو من و عن تسلیم کرے گا یا ہماری حکومت ان سفارشات کو بنیاد بناکر
امریکی دباﺅ کے سامنے کھڑی ہوگی؟بظاہر دونوں باتیں مشکل دکھائی دے رہی ہیں۔
کیوں کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے حکمراں ذاتی خواہشات اور خوف کی وجہ سے
امریکی دباﺅ کا شکار رہتے ہیں اور امریکا بھی اس طرح کی سفاشات کو خاطر میں
نہیں لاتا وہ تو ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا ماہر ہے۔
اقوام متحدہ کی اسی طرح کی قراردادوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردی کے
خلاف جنگ کے نام پر اس نے افغانستان پر حملہ کیا اور 50 ہزار سے زائد
افغانوں کو شہید اور لاکھوں کو شدید زخمی و متاثر کیا اور پورے خطے کو
میدان جنگ بنادیا، کیمیائی اسلحہ کی موجودگی کے جھوٹ کو بنیاد بنا کر عراق
پر حملہ کیا اور اس کی آزادی کو غلامی میں بدل دیا۔ پاکستان آج جن مسائل
اور پریشانیوں کا شکار ہے اس کاذمہ دار بھی امریکاہے۔ بظاہر پارلیمنٹ کے
تمام نکات انتہائی مناسب ہیں، لیکن سوال یہی ہے کہ ان پر عمل درآمد کی
ضمانت کیا ہے؟ قوم اس بات کی ضمانت چاہتی ہے کہ سفارشات کی منظوری کے بعد
امریکا اور اس کے ایجنٹوں کی پاکستان میں بے جا مداخلت مکمل طور پرختم ہو۔
امریکاایک طرف دوستی کا راگ الاپتا ہے تو دوسری طرف وہ سازشی اور وار کرنے
سے بھی نہیں چوکتا۔ اس کی واضح مثال بلوچستان کے معاملات میں بے جا مداخلت
اور کشمیر کے حوالے سے بھارت کی سرپرستی ہے۔
ڈاکٹرغلام نبی فائی کا جرم صرف اتنا تھاکہ ان کا موقف پاکستانی موقف کے
قریب تر اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق تھا۔کشمیر کا یہ عظیم سپوت
کشمیریوں کے حق ِخود ارادیت کی بات کرتا تھا اس کو ملنے والی سزا اسی جرم
کی ہے۔ اس عظیم مجاہد نے کشمیر کی آزادی کے لیے قربانی دی اور امریکامیں رہ
کر کشمیریوں اور پاکستان کے موقف کی بھرپور تائید کی۔ امریکا اور اس کے
ایجنٹوں کو اس کی یہ جدوجہد پسند نہیں آئی اور اسے قید کردیا گیا۔
یہی صورت حال افغانستان کی بھی ہے۔ ہم اپنی سرزمین نیٹو سپلائی کے استعمال
کے لیے فراہم کرتے ہیں مگر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ایما پرافغانستان
کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن
ملک کا کہناہے کہ افغانستان میں بلوچستان کے حالات خراب کرنے والے عناصر کے
کیمپ پھر سے قائم ہوئے ہیں جب کہ دوسرے کچھ عناصر بھی سرگرم دکھائی دے رہے
ہیں۔
ان حالات میں محسوس ہوتا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی درحقیقت سیاسی قوتوں
کاگٹھ جوڑ ہے۔ کچھ قوتوں نے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں اپنا کردار ادا
کیا اور کچھ قوتوں نے ان سفارشات کی منظوری دلا کر اپنی نوکری پکی کرلی ہے۔
تاہم مسلم لیگ (ن )کے قائد میاں نواز شریف اور جمعیت علماءاسلام کے امیر
مولانا فضل الرحمن کا پہلے سفارشات کی مخالفت بعد ازاں حمایت ایک سوالیہ
نشان ہے کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان کی حمایت دراصل سخت دھمکیوں کا نتیجہ
ہے،دونوں قائدین قوم کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کریں۔
مولانا فضل الرحمن کادعویٰ ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سفارشات کی
منظوری کے بعد نیٹو سپلائی کی بحالی ممکن نہیں رہی ہے اور اگر نیٹو سپلائی
بحال کی گئی تو مزاحمت کریں گے۔ غالباً ان کا اشارہ شرائط پر عمل کے بغیر
کا ذکر ہے، کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ امریکا ان شرائط کو پورا نہیں کرے گا
اور اس کے بغیر سفارشات پر عمل اور سپلائی بحال نہیں ہوسکے گی۔ پارلیمنٹ کے
مشترکہ فیصلے کے بعد اب بال حکومت کے کورٹ میں ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے سفارشات کی منظوری کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے اور
کابینہ میں 17 ویں مرتبہ ردوبدل کرکے10اور12اپریل کو مجموعی طور پر 12 وزرا
کو کابینہ میں شامل کرلیا ہے۔ اس طرح وفاقی کابینہ کے ارکان کی مجموعی
تعداد60ہوگئی ہے، جن میں34وفاقی وزرا، 14وزرائے مملکت، 6مشیر اور6معاونین
ہیں جب کہ تقرباً10دیگر افراد کو وفاقی وزیر کا درجہ حاصل ہے۔ موجودہ حالات
میں حکومت اور اس کے اتحادی انتہائی خوش نظر آرہے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف
انہوں نے امریکا کو خوش کرنے کی منزل پالی، تو اور دوسری طرف کابینہ میں ان
کی نمایندگی بڑھ رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق اتحادیوں کی خوشی کے لیے کابینہ
میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہورہا ہے۔
لیکن یہ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ جب حکومتی ایوانوں میں خوشی کے
شادیانے بج رہے ہیں عین اسی وقت سیاچن گلیشیر کی وادی گیاری میں پاکستان
کے140 سے زائد سپوت وطن کا دفاع کرتے ہوئے 7اپریل2012ءکو صبح 4 بجے سے تادم
تحریر (14اپریل)ہزاروں ٹن برف تلے دبے ہوئے ہیں۔ کوشش کے باوجود ان سپوتوں
کو نکالا نہیںجاسکا ہے،ہرگزرتے لمحے کے ساتھ ان بہادر فرزندانِ وطن کے زندہ
نکلنے کی امیدیں، نا امیدی میں بدل رہی ہیں۔ جو لوگ برفانی علاقوں میں رہتے
ہیں انہیں ادراک ہے کہ یہ کتنا مشکل مرحلہ ہے۔ کیوں کہ ایک طرف چٹانوں سے
بھی سخت ہزاروں ٹن برف کی کھدائی مشکل کام ہے، تو دوسری طرف منفی 25 سے33
ڈگری تک کی سردی بھی کام میں رکاوٹ ہے۔ قوم کے سپوتوں نے اپنی جانیں وطن کے
دفاع پر قربان کی ہیں اور ایسے مرحلے پر قوم کی قیادت کو چاہئے تھا کہ وہ
اسلام آباد کی بجائے سکردو میں ڈیرے ڈال دیتی تاکہ بھرپور توجہ ہوتی، لیکن
قیادت کو اسکی فرصت کہاں؟ انہیں تو اپنی کرپشن سے لتھڑی سیاست بچانے سے
فرصت نہیں ہے۔ گزشتہ سال چلی کی ایک کان میں مزدور پھنسے ان کے سربراہِ
مملکت نے وہیں ایک چھوٹے ہوٹل میں اپنا صدارتی کیمپ آفس قائم کیا اور وہ
آخری کان کن کے نکلنے تک وہاں موجود رہے۔ ہمارے صدر زرداری کا جزبہ دیکھئے
کہ جب قوم کے 140 سے زائد سپوت برف تلے دبے ہوئے تھے صدر موصوف بھارت یاترا
پر چلے گئے۔ شاید اجمیر کے خواجہ سے ان کی زندگی کی بھیک مانگنے گئے
یاپھراقتدار بچانے کی فکر تھی۔ اس ضمن میں بھارتی انتہاپسند تنظیم کے
رہنماکا یہ تبصرہ دلچسپ ہے کہ ”2007ءمیں سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے بھی
اجمیر کا دورہ کیا تھا، جس کے بعد انہیں کرسی سے محروم ہونا پڑا، زرداری
بھی فکر کریں“۔
صدر زرداری نے بھارت یاترا میں کیا کھویا اور کیا پایا فی الحال واضح طور
پر کچھ نہیں کہا جاسکتاہے، تاہم صدرزرداری اور ان کی ٹیم کو یہ معلوم ہونا
چاہئے کہ کشمیریوں کی مرضی اور منشا کے بغیر کیے گئے کسی بھی فیصلے سے صدر
کو سیاسی زندگی ملے گی اور نہ ہی بھارت سے دوستی بڑھ سکتی ہے۔
ہزاروں ٹن برف میں دبے قوم کے سپوتوں کے ساتھ اسی طرح کا رویہ وزیراعظم
یوسف رضاگیلانی کا بھی رہا۔ انہوں نے وطن کے محافظوں پر توجہ دینے کے بجائے
ججوں پر چڑھائی شروع کی اور اپنے بیٹے کا رونا رویا۔ یہ کتنی ستم ظریفی ہے
کہ ایک طرف قومی ادارے وزیراعظم کے بیٹے کو ڈرگ اسکینڈل میں ملزم ٹھہراتے
ہیں، تو دوسری طرف وزیراعظم بغیر کسی عدالتی فیصلے کے اسے بے گناہ قرار دے
رہے ہیں۔
وزیراعظم خود بھی اس وقت توہین عدالت کے کیس میں جکڑے ہوئے ہیں اور اب ان
کا کام بھی آخری مرحلے میں نظر آتا ہے۔ ویسے بھی اب عدالتوں کو چاہئے کہ وہ
فیصلہ کر ہی لیں، کیوں کہ حکومت کے تاخیری حربوں اور تاریخیں دینے کے عمل
پر قوم نے بہت زیادہ صبر کیا اب گنجائش نہیں ہے۔ فیصلہ وزیراعظم کی نااہلی
کا ہو یا پھر میمو اسکینڈل کا اب ہوناہی چاہیے، وزیراعظم تو حسین حقانی کی
مفروری کا الزام بھی عدالت پر لگا رہے ہیں،کیوں کہ لگ رہا ہے کہ حقانی و طن
واپس نہیں آرہے ہیں، ویسے تو پوری قوم باخبر تھی کہ حسین حقانی وطن واپس
نہیں آئیں گے کیوں کہ میمو اسکینڈل میں وہ ملوث ہیں۔ منصور اعجاز کی
پاکستان دشمنی، جھوٹ، فریب اور مکاری اپنی جگہ درست ہے، لیکن حسین حقانی
بھی کم نہیں ہے۔قوم کی مجموعی صورت حال کو مدنظر رکھاجائے تو ہر طرف مایوسی
ہے۔ جس کے خاتمے کے لیے، اب قوم کے نوجوانوں اور مخلص افراد کو سر پر کفن
باندھ کر میدان عمل میں کودنا پڑے۔ |