امریکہ نے جماعت الدعوة کے
سربراہ حافظ سعید کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے کے لیے ایک کروڑ
ڈالر کی رقم بطور انعام رکھ دی ہے۔ حافظ محمد سعید پر بھارت 2008ءکے ممبئی
حملوں سمیت دہشتگردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتا آیا
ہے لیکن اس حوالے سے اب تک بھارت کی طر ف سے پاکستان کو کوئی ثبوت پیش نہیں
کیا گیا ۔امریکہ کی طرف سے حافظ سعید پر رکھی جانے والی اتنی بڑی رقم اور
امریکہ کی طرف سے ان کو اتنی اہمیت دیناحیرت انگیز ہے۔ پاکستان میں بغیر
کسی رکاوٹ کے گھومنے پھرنے والے کسی شخص پر اس بڑی انعامی رقم کا اعلان
تعجب خیز ہے۔ انہیں امریکیوں نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کے بعد
دوسرے نمبر پر رکھا ہے۔ ڈاکٹر ایمن الظواہری پر اڑھائی کروڑ روپے کا انعام
رکھا گیا ہے۔حافظ سعید کے خلاف بڑا کیس2008ءکے ممبئی حملے میں ملوث ہونے کا
الزام ہے۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے ڈیڑھ سو سے زائد افراد میں پانچ
امریکی بھی شامل تھے۔ جماعت الدعوة اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتی ہے۔
جماعت الدعوة بھی زیادہ تر بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں اس
اعتبار سے یہ امریکہ کے لیے اتنا بڑا مقدمہ نہیں بنتا تاہم امریکہ کی طرف
سے حافظ محمد سعید کے خلاف بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں میں
ملوث ہونے کاثبوت تلاش کرنے کے لئے انعامی اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ
بھارتی دباؤ برداشت نہیں کر سکا ہے۔بھارت گزشتہ بیس برس میں ہندوستان میں
ہونے والے شدت پسندی کے تقریبا تمام بڑے واقعات میں حافظ محمد سعید کو مورد
الزام قرار دیتا چلا آ رہا ہے۔بھارت ممبئی حملوں سے لیکر پارلیمنٹ پر حملے
تک بنگلور اور حیدر آباد سے لیکر گجرات اور کلکتہ تک شدت پسندی کے ڈیڑھ سو
سے زائد واقعات میں انہیں ملوث قرار دیتا آیا ہے لیکن وہ یا ان کی جماعت
پاکستان میں کسی ایک بھی پر تشدد واقعہ میں ملوث نہیں پائی گئی اور بھارت
یا کسی بھی ملک کی طرف سے ان کے خلاف ایک بھی ایسا ثبوت عدالت میں پیش نہیں
کیا جا سکا جس کی بنیاد پر انہیں ان کے گھر پر ہی نظر بند کیا جاسکتا۔
ممبئی حملوں کے بعدجب پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ (خصوصاامریکی دباؤ)
پڑاتو پاکستان نے حافظ سعید کو ان کے پانچ ساتھیوں سمیت نظر بند کردیا تھا
لیکن یہ نظر بندی چھ مہینے سے زیادہ نہیں چل سکی کیونکہ حکومت پاکستان نے
عدالت میں ایسا کوئی ٹھوس جواز پیش نہیں کیا جو ان کی نظر بندی برقرار
رکھنے کا جواز بن سکے۔امریکہ میں پاکستان اور انڈیا کے وزرائے خارجہ کی
ملاقات سے پہلے اس سال ستمبر میں حافظ سعید کے خلاف چندہ مانگنے کے الزامات
کے تحت دو مقدمات اس بنیاد پردرج کیے گئے کہ ان کی جماعت کالعدم ہے۔یہ
فوجداری مقدمات عدالت عالیہ میں گئے تو میڈیا پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کی
جماعت تو کالعدم ہی نہیں ہے اور اس بارے میں پاکستانی وزیر داخلہ کے بیان
کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔یہ مقدمات بھی خارج ہوگئے۔جون2011ء کو بھارتی
ہائیکورٹ نے حافظ سعید سمیت بائیس پاکستانیوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے
اور بھارتی حکومت نے ان کی حوالگی کامطالبہ بھی کیا لیکن پاکستان نے صاف
انکار کردیا۔ لاہور ہائی کورٹ انہیں پہلے ہی بے گناہ اور معصوم قرار دیکر
ان کی نظر بندی ختم کرنے کے احکامات جاری کرچکی ہے اور حکومت پاکستان کے
ترجمان کے بقول بھارت نے ایسے کوئی ثبوت ہی ان کے حوالے نہیں کیے جن سے یہ
ثابت ہوسکے کہ وہ کسی بھی معاملے میں ملوث ہیں۔حافظ محمد سعید کے خلاف
انٹرپول نے ریڈ وارنٹ جاری کیے ہیں اور ان کے وکیل اے کے ڈوگر کا کہنا ہے
کہ حافظ سعید کے خلاف ریڈوارنٹ کا اجراءاپنی جگہ لیکن یہ اختیار حکومت
پاکستان کے پاس ہے کہ وہ حافظ محمد سعید کو گرفتار کرے یا نہ کرے اور ظاہر
ہے کہ اب تک حکومت کا فیصلہ انہیں گرفتار نہ کرنے کا ہے۔
بھارت کے بعد امریکہ نے بھی حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے ۔
پاکستان کے ساتھ ان دونوں ممالک کا مجرموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہ
ہونا ایک طرف اصل بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان حافظ محمد سعید کو مجرم نہیں
سمجھتی اور حکومت کا کہنا ہے کہ حافظ سعید کے خلاف اب تک کوئی بھی ثبوت پیش
نہیں کیا گیا ہے۔یوں بھارتی الزام اور امریکی انعام کے باوجود نہ صرف انڈیا
بلکہ امریکہ بھی اس معاملے میں بظاہر بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں یہ
دیکھنا بھی ضروری ہے سابق مشرف دور حکومت میں بڑی تعدا د میں پاکستانیوں کو
پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اعتراف کیا ہے کہ
ان کے دور میں سینکڑوں پاکستانیوں اور غیر ملکیوں کو پکڑ کر امریکہ کے
حوالے کیا گیا۔پاکستان سے پکڑے جانے والے یوسف رمزی کو امریکہ میں سزائے
موت ہوئی جبکہ عافیہ صدیقی کا مقدمہ آج بھی امریکی عدالت میں زیر سماعت ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ حافظ سعید پاکستان میں ایک آزاد اور معزز شہری کی
حیثیت سے زندگی بسر کررہے ہیں ان کے خلاف تمام مقدمات ختم ہوچکے ہیں۔ان کے
گھر کے باہر پولیس کی نفری تعینات ہے لیکن ان کے وکیل اے کے ڈوگر کا کہنا
ہے کہ یہ ان کی سکیورٹی کے لیئے ہے اور اگر حکومت انہیں کسی مقام پر خطبہ
دینے سے منع کرتی ہے تو بھی ان کی حفاظت مقصود ہوتی ہے۔
اس تمام صورتحال کے بارے میں مغربی میڈیا کیا کہتا ہے؟مغربی میڈیا کے
مبصرین کس رائے کا اظہار کرتے ہیں؟غیر ملکی میڈیا کے مبصرین کہتے ہیں کہ”
حافظ سعید اور ان کی جماعت کے بارے میں پاکستان ہر ملکی غیر ملکی دباؤ کو
بالآخر اس لیے جھٹک دیتا ہے کہ وہ اس پاکستانی سٹیبلشمنٹ کی سوچ کی عملی
شکل ہے جس پر پنجابی سول وملٹری بیوروکریسی کا غلبہ ہے اور جس کی گھٹی میں
انڈیا دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔وہ پاکستان کی تاریخ میں ایسی پہلی
جہادی تنظیم کے پنجابی سربراہ ہیں اور جو بین الاقوامی ایجنڈا رکھتی
ہے۔انہیں امریکہ یا شیعہ آبادی والے ایران سے براہ راست کوئی دشمنی نہیں ہے
تاہم ان میں بھارت کی مخالفت اس قدرشدید ہے اس دشمن کا دوست بھی ان کا دشمن
ہے چاہے وہ امریکہ جیسی سپر پاور ہی کیوں نہ ہو۔
حافظ محمد سعید انڈیا کے ٹکڑے کرکے اس ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنے
تئیں آزاد کرانا چاہتے ہیں، انڈیا کی حکومت انہیں دہشت گردقرار دیتی ہے اور
بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد انہیں ایسا ہی سمجھتی بھی ہے لیکن یہ بھی حقیقت
ہے کہ پاکستان میں مذہبی ذہن رکھنے والے جہاد پسند طبقے میں وہ ایک
ملنساراور ایسی انسان دوست شخصیت ہیں جن کے ہزاروں کارکن ہر آفت میں عوام
کی مدد کرنے اور ان کی جانیں بچانے میں سب سے آگے ہیں۔انہیں اور ان کے
کارکنوں کوپاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں خاص سوچ رکھنے والے ملک کی دوسری دفاعی
لائن قرار دیتے ہیں۔
دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کی پراکسی وار میں ان سے منسوب کارکن انڈین
’را‘ کا منہ توڑ ’آئی ایس آئی جواب‘ ہیں۔ان کے بیشتر کارکن ایسے پنجابی
باشندے ہیں جو انڈیا پر ایک خدا کی حکمرانی کے قیام کے لیے جان لے بھی سکتے
ہیں اور دے بھی سکتے ہیں۔ایسے ہی کچھ شدت پسندوں نے کارگل کی پہاڑیوں میں
پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ انڈین آرمی سے لڑائی کی اور ہلاکتیں پیش کیں۔ یہ
وہ وقت تھا جب دونوں ملکوں میں ایک وسیع جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔اس کے علاوہ
انڈین پارلیمان پر حملہ اور ممبئی کاقتل عام دوایسے بڑے واقعات ہیں جن کا
الزام حافظ سعید پر لگا اور جن کے نتیجے میں دو ملک ایک خوفناک جنگ کے
دہانے تک پہنچ گئے تھے۔پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے
جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ہر طرح کی مذہبی
جہادی تنظیموں کی بیخ کنی ضروری ہے۔انہی لوگوں کا خیال ہے کہ لشکر طیبہ
جیسی شدت پسند تنظیم کے بانی کی اگر سرکاری سرپرستی ہورہی ہے تو اس
کاخمیازہ اسی طرح بھگتنا ہوگا جیسے افغان جہاد کے اثرات آج سامنے آرہے
ہیں۔بعض مبصرین کے نزدیک حافظ سعید اور ان کی جماعت ایک ایسے ٹائم بم کی
طرح ھیں جو جوکسی بھی وقت پاکستان اورہندوستان میں تباہی کا سبب بن سکتے
ہیں لیکن بعض دیگر مبصرین کے خیال میں مسئلہ صرف حافظ سعید کی ذات کا نہیں
ہے بلکہ اصل مسئلہ وہ زہریلی سوچ ہے جو دونوں ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ میں ایک
دوسرے کے خلاف پائی جاتی ہے۔ “
حافظ سعید نے گزشتہ دنوں غیر ملکی میڈیا کو ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ
”بھارت کو پاکستان پر شدت پسندی میں ملوث ہونے کے الزمات لگانے کی بجائے
اپنے داخلی معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔ بھارت کو کشمیر سے اپنا قبضہ
چھوڑنا چاہیے اور اگر بھارت کشمیر چھوڑ دے تو سارے مسئلے حل ہو سکتے
ہیں۔بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت ضروری ہے لیکن اس کے لیے پہلے
بھارت کشمیر سے اپنا قبضہ ختم کرتے ہوئے جارحانہ رویہ ترک کرے۔ پاکستان میں
کوئی دہشت گرد نہیں ہے، نہ اس کی کوئی حقیقت ہے اور نہ بھارت کے پاس اس کا
کوئی ثبوت ہے لیکن افسوس ہے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے تو پاکستان پر الزام لگا
دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جو بھارت پر حملہ کرے۔
بھارت کو اپنا روئیہ ٹھیک کرنا چاہیے اور اپنے داخلی معاملات پر توجہ دینی
چاہیے۔اگر بھارت اپنا فوجی قبضہ جاری رکھے گا اور تشدد کا راستہ اختیار کرے
گا تو پاکستان اس کے ہر قدم کو تسلیم نہیں کرے گا۔ کیا بھارت کے کسی حصے یا
علاقے پر پاکستان نے قبضہ کیا ہے؟ نہیں کیا۔ اگر کشمیر کے لوگ ایک دوسرے کے
پاس آتے ہیں اور جاتے ہیں تو یہ دراندازی بالکل نہیں ہے کیونکہ وہ بین
الاقوامی سرحد نہیں ہے بلکہ کنٹرول لائن ہے۔دراندازی تو وہ ہے جو بین
الاقوامی سرحد پار کر بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان میں کیا تھا اور پھر
مشرقی حصے کو پاکستان سے الگ کر دیا۔ بھارت نے ممبئی حملوں کے سلسلے میں
حکومتِ پاکستان کو کئی بار ثبوت بھیجے ہیں، جب وہ یہاں آئے تو پاکستان کی
عدالتوں میں وہ سب کچھ پیش کیا گیا۔ تقریبا چھ ماہ تک لاہور ہائی کورٹ میں
یہ معاملہ چلتا رہا اور عدالت نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کی کوئی تنظیم اس
میں ملوث نہیں ہے اور جماعت الدعوة کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ بھارت نے
بھی پاکستان کے خلاف ہمیشہ سے منصوبے بنائے اور سازشیں کیں، مشرقی پاکستان
کو علیحدہ کیا اور بعد میں پاکستان میں اپنے خوفناک منصوبے جاری رکھے خاص
طور پر نائن الیون کے بعد جب امریکہ افغانستان میں آیا تو اس کے بعد بھارت
کو پاکستان کے خلاف اپنے منصوبے بروئےکار لانے کا موقع ملا۔“
حافظ محمد سعید نے فروری میں چند صحافیوں سے ہونے والی ایک غیر رسمی ملاقات
میں کہا کہ ” پاکستان کو اندرونی سے زیادہ بیرونی خطرات درپیش ہیں۔
افغانستان سے مجوزہ امریکی انخلا کے باوجود جب تک پاکستان اور کشمیر کے
بارے میں بھارتی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی پاکستان ایک سیکورٹی سٹیٹ ہی
رہے گا۔ خطے کے حالات کے سبب اس کا فلاحی ریاست بننا فی الحال ممکن نہیں۔
ہندوستان کو موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ اگر دیا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ فوج
کی رضامندی بھی شامل ہے جو کہ افسوسناک بات ہوگی۔ امریکہ اور بھارت پاکستان
کا گھیراؤ کر کے اس کا گلا گھونٹنا چاہتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو واحد
مسلمان ایٹمی طاقت ہونے کی سزا دینا چاہتا ہے۔ جبکہ بھارت تو پاکستان کا
ازلی و ابدی دشمن ہے اور اب وہ کشمیر کے دریاؤں پر72 ڈیم تعمیر کے پاکستان
کو سکھا سکھا کر مارنا چاہتا ہے اور پاکستان ہے کہ انڈیا کو موسٹ فیورٹ
نیشن کا درجہ دے کر اس کے آگے بچھا چلا جارہا ہے“ ۔اس ملاقات میں حافظ سعید
نے بتایا کہ وہ بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے کے مضامین پڑھتے رہتے ہیں
کیونکہ وہ کھری اور سچی بات کرتی ہیں۔ برطانوی صحافی رابرٹ فسک بھی پسند
ہیں اور ان سے مل چکے ہیں۔ لیکن امریکی سکالر نوم چومسکی کا بس نام سنا ہے۔
پڑھنے کا موقع اب تک نہیں ملا۔
گزشتہ سات دہائیوں سے بھارت سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف کشمیری حریت پسند
رہنماﺅں کی یہ عمومی رائے ہے کہ لال قلعہ اور بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے
واقعات سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو براہ راست نقصان پہنچا۔ان کا کہنا
ہے کہ اس وقت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو عالمی سطح پر جدوجہد آزادی کے طور
پر محسوس کیا جا رہا تھا لیکن ان دونوں حملوں سے عالمی سطح پر کشمیریوں کی
اصولی جدوجہد کو دہشت گردی کا الزام سہنا پڑا اور اس سے تحریک آزادی کشمیر
کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔
22دسمبر2000ءلال قلعہ حملہ۔2بھارتی فوجی ایک سویلین ہلاک۔(بھارتی اعلان)
13دسمبر2001ءانڈین پارلیمنٹ پر حملہ۔5حملہ آور مارے گئے۔ایک بھارتی سیکورٹی
اہلکار اور ایک مالی ہلاک،18زخمی۔(بھارتی اعلان)
26نومبر 29 نومبر2008 ء ممبئی پر حملہ ۔164ہلاک،308زخمی۔ ایک حملہ آوراجمل
قصاب زخمی حالت میں گرفتار۔(بھارتی اعلان)
بھارت تواتر سے اپنے ملک میں ہونے والے تمام مسلح حملوں کی ذمہ داری حافظ
محمد سعید اور ان کی تنظیم پر عائید کرتا آ رہا ہے۔بھارت میں ہونے والے ان
تمام حملوں میں کشمیریوں اور پاکستان کا کوئی بھی فائدہ کسی طور بھی نظر
نہیں آتا بلکہ الٹا ان واقعات کا کشمیریوں اور پاکستان کو براہ راست نقصان
اٹھانا پڑ رہا ہے۔ان حملوں میں جتنے بھارتی افراد ہلاک ہوئے اگر اس سے کئی
گنا زیادہ بھی ہلاک ہو جاتے تو اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ؟حافظ محمد سعید
اور ان کی تنظیم کی طرف سے بھارت میں ہونے والے ان حملوں سے مسلسل لاتعلقی
ظاہر کی جاتی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سے ایسے عناصر ہیں جو بھارت میں
دہشت گردی کے بے مقصد واقعات کے ذمہ دار ہیں اور ان حملوں کو پاکستان کے
خلاف عالمی سطح کی پابندیوں اور کاروائی کے لئے استعمال کرنا چاہتے
ہیں۔حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو بھارت میں ہونے والے ان حملوں کا فائدہ
سراسربھارت کو اور بھرپور نقصان پاکستان کا ہے اور یہ صورتحال بھارتی خفیہ
ایجنسیوں کی طرف اشارے کرتی نظر آتی ہے۔تاہم حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری
بنتی ہے کہ پاکستان کی خلاف اس طرح کے واقعات میں کون سے عناصر ملوث
ہیں؟ایسے عناصر کا پردے میں رہنا ان خطرات کو ہوا دیتا ہے کہ بھارت میں
ایسے ہی مزید بیوقوفانہ ،بے کار و بے مقصد دہشت گرد حملوں کو پاکستان کے
خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔امریکہ کے پاس بھارت میں ہونے والے ان حملوں
کے بارے میں کوئی اطلاع نہ ہونا نہایت تعجب انگیز ہے اور امریکہ کا بھارتی
فرمائش پر حافظ سعید کی خلاف ثبوت کی فراہمی کے لئے گراں انعام، اس سلسلے
میں پاکستان کے خلاف نئے ہتھکنڈے معلوم ہو رہے ہیں لہذا حکومت کی ذمہ داری
ہے کہ وہ ان چھپے گوشوں کو بے نقاب کرے جو پاکستان کے لئے سنگین خطرات
کاموجب بن سکتے ہیں۔ |