ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

انتہائی محترم رضا ربانی صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کی سفارشات پیش کر رہے تھے اور میری آنکھیں نیند سے بند ہوتی چلی جا رہی تھیں ۔اس لئے نہیں کہ میں کئی راتوں کی جاگی ہوئی تھی ،بلکہ اس لئے کہ ان کی سفارشات سن کر انتہائی بوریت ہو رہی تھی۔ لیکن ہم لکھاریوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ جتنی دیر تک اِدھر اُدھر سے مواد اکٹھا نہ کریں کالم کا پیٹ نہیں بھرتا۔

ہمارے معاشرے کا ایک کردار ”کانگڑی پہلوان“ بھی ہے۔ انتہائی نحیف و نزار ، جسم میں جان نہیں ، تیز ہوا اُڑا کر کسی درخت کی ٹہنی پر لٹکا دے لیکن باتیں بڑی بڑی اور اکڑ خوں حد سے زیادہ ۔ ہمیشہ طاقتور سے پنگا اور خوب مرمت ہو جانے کے بعد زمیں سے کپڑے جھاڑتے ہوئے اُٹھنا اور کہنا ”ہن مار کے وخا“ ۔ سچی بات ہے کہ مجھے تو اپنے سیاست دان ، جن کا تعلق حکومت سے ہو یا حزبِ اختلاف سے سبھی ”کانگڑی پہلوان ہی نظر آتے ہیں ۔ بڑھک بازی میں یدِ طولیٰ لیکن وقتِ آزمائش :۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا

ہر سال یہ پارلیمنٹ متفقہ قرارداد پیش کرتی ہے اور متن سب کا ایک ” ہُن مار کے وخا“ ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جب 22 اکتوبر 2008 کی ان کیمرہ بریفنگ سے لے کر آج تک امریکہ نے کسی قرار داد کو جوتے کی نوک پہ نہیں رکھا تو 13 اپریل کی قرار داد سے کیا فرق پڑے گا ۔ بجٹ آنے والا ہے اور ان بھکاریوں نے آخر کار اپنے آقا سے بھیک مانگ کر ہی آتشِ شکم کو بجھانا ہے ۔ پھر اکڑ خوں کاہے کی ؟۔ مان کیوں نہیں لیتے کہ تم بھکاری تھے ، بھکاری ہو اور اگر کوئی معجزہ رونما نہ ہوا تو بھکاری ہی رہو گے ۔لیکن معجزوں کا دور تو لد چکا ۔

جب اپوزیشن سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا امریکہ یہ کڑی شرائط مان لے گا ؟ تو ان کا واضح جواب ہوتا ہے کہ یہ سوال حکومت سے کریں ہمارا کام قوم کے بہترین مفاد میں متفقہ قرار داد پیش کرنا تھا ۔ آپ اتنا دیکھیں کہ ہم کیسی زبر دست قرار داد لے کر آئے ہیں ۔رہی اربابِ اختیار کی بات تو وہ بھی جو کچھ کرتے ہیں قوم کے بہترین مفاد میں ہی کرتے ہیں لیکن اگر کوئی مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے تو صرف یہ کہ ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟“۔ یہ بجا کہ ہمارے چوہے حرام کھا کھا کے بہت موٹے ہو گئے ہیں لیکن چوہا تو چوہا ہوتا ہے ۔ اگر یقین نہ آئے تو پیچھے مُڑ کر دیکھ لیجیے کہ جب ”پاکستانی ساس “ ہیلری کلنٹن نے 2010 ءمیں پاکستان میں صحافیوں کے ایک پینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا ”اگر امداد نہیں لینی تو نہ لو ، ہم کوئی زبر دستی دے رہے ہیں “ ۔ تب سارے صحافی ایک دوسرے کا مُنہ تکنے لگے ۔ ہیلری نے پاکستان میں بیٹھ کر ہماری غیرتوں کے مُنہ پہ جو تمانچہ رسید کیا تھا اُس کی ہلکی سی گونج بھی اگر بھٹو کے ان وارثوں کو سنائی دیتی تو کہہ دیتے کہ ”گھاس کھا لیں گے لیکن امداد نہیں لیں گے“ ۔ لیکن ایسا ہوا نہیں اور نہ ہی ہونا تھا ۔

ڈھلتی عمر کے لوگ تومضمحل قویٰ کے ساتھ بہت سی مصلحتوں کا شکار ہو ہی جاتے ہیں لیکن میرا سوال تو اقبال کے ان شاہینوں سے ہے کہ کیا تم بھی اپنی اپنی زندگیاں یوں ہی ذلتوں کے غارِ عمیق میں غرق کر دو گے ؟۔ اقبال کے یہ لاہوتی طیور جو دورِ جدید میں تیز تر میڈیا اور انٹر نیٹ کی بدولت بہت با خبر ہیں ، کیا نہیں جانتے کہ ”بد دیانتی “ کے علمبرداروں نے محض چار سالوں میں اتنی رقم ہڑپ کر لی ہے کہ جس سے اگلے کئی سالوں کا ٹیکس فری بجٹ پیش کیا جا سکتا تھا ؟۔یہ رقم ان ”جونکوں “ کے باپ دادا کی کمائی نہیں بلکہ ہماری ہی رگوں سے نچوڑا ہوا لہو ہے ۔ ہماری چھوڑیے کہ ہم تو بھلی بُری گزار چکے لیکن کیا تم بھی ۔۔۔۔؟ سبق زندگی کا ہمیشہ یہی سنا ، لکھا اور پڑھا کہ باپ دادا کے نقشِ قدم پہ چلو لیکن میں کہتی ہوں ، ببانگِ دُہل کہتی ہوں کہ اگر ہمارے نقشِ قدم پر چلے تو ذلتیں اور رُسوائیاں ہی مقدر ٹھہریں گی ۔ کسی خارش زدہ کتے کی طرح سسک سسک کر مرنے سے کہیں بہتر ہے کہ شیر وں کی طرح دھاڑتے ہوئے نکلو اور ان خائنوں، بد دیانتوں ، رسہ گیروں ، بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں کی شہ رگ سے وہ سارا خون نچوڑ لو جس سے بے شرمی ، بے حمیتی اور بددیانتی کی باس آتی ہے ۔ آخر کب تک یہ اربوں روپئے ڈکار جانے والی پارلیمنٹ ایسی متفقہ قرار دادوں کی صورت میں قوم کا مذاق اُڑاتی رہے گی ؟۔

محترم عمران خاں صاحب نے فرمایا ہے کہ پیپلز پارٹی ، نواز لیگ اور مولانا فضل الر حمٰن سبھی آپس میں مل گئے ہیں ۔ بجا ارشاد لیکن دعویٰ آپ کا بھی تو تھا کہ نیٹو سپلائی بحال نہیں ہونے دیں گے ۔مجھے تو چیچہ وطنی کے جلسہ عام میں آپ کی پُر جوش تقریر میں کہیں نیٹو سپلائی روکنے کا اعلان سنائی نہیں دیا ۔ اب موقع ہے ، قدم بڑھائیے اور اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیجیئے ۔ کون بد بخت ہو گا جو آپ کا ساتھ نہیں دے گا ۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ ایسا ہو گا نہیں اور نہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جہاں امریکہ سامنے آ جائے وہاں سب کی گھگی بندھ جاتی ہے ۔پارلیمنٹ اپنی قرار دادیں پیش کرتی رہے گی ، حکمرانی کے امید وار اپنی بڑھکیں لگاتے رہیں گے لیکن ہونا وہی ہے جو امریکہ چاہے گاکیونکہ ہمارے حکمران اور امریکی زر خرید لکھاری ہمیشہ قوم کو یہی سبق تو پڑھاتے چلے آ رہے ہیں کہ کیا ہوا جو سلالہ میں ہمارے چوبیس جوان شہید ہو گئے ، کیا ہوا جو بیچ چوراہے تین شہریوں کو قتل کرنے والے ریمنڈ ڈیوس کو ہم نے دست بستہ واپس کر دیا ، کیا ہوا جو ایبٹ آباد میں امریکی اسامہ کو شہید کرکے لاش بھی ساتھ لے گئے ، کیا ہوا جو پاکستانیوں کو امریکی ہوائی اڈوں پہ برہنہ کر دیا جاتا ہے اور بھارتی اداکار کو دو گھنٹے روکنے پر بھی معافی مانگ لی جاتی ہے ، کیا ہوا جو ڈرون ہمارے بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کا شکار کرتے رہتے ہیں ۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا اپنے آقا کے حکم سے رو گردانی کے بعد ہم پتھر کے دور میں جانا پسند کریں گے؟۔ بتقاضا ئے عقل بہتر یہی ہے کہ ان روز روز کے ڈراموں کو چھوڑیں اور اپنے آقائے ولی نعمت کے حضور زانوئے تلمذ تہ کر دیں ۔۔۔۔ سب کچھ بجا لیکن شاید وہ یہ مسلمہ اصول فراموش کر بیٹھے کہ
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642672 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More