تاریخ اور تقدیر

دو دروازہ کشمیری محلہ سے تھوڑاپیچھے ایک سڑک پراچانک ایک تانگہ رکا، تانگے پر سوارایک شخص نے فٹ پاتھ پرپیدل چل رہے ایک نیم مدہوش نوجوان سے حضرت اقبال ؒ کاایڈریس پوچھا تواس نے بڑی بیزاری سے جواب دیا اور ان کے حوالے سے نامناسب الفاظ کااستعمال کیا ،کچھ دورجاکراس سوار نے ایک باریش دکاندارسے حضرت اقبال ؒ کے بارے میں دریافت کیا تواس نے بڑے ادب واحترام سے حضرت اقبال ؒ کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے انہیں ان کا ایڈریس سمجھادیا ۔وہ لوگ حضرت اقبال ؒ کی خدمت میں پیش ہوئے توساراماجرابیان کردیا جس پرحضرت اقبالؒ نے فرمایا جوبراہے اس کیلئے سبھی برے ہیں اورجوخوداچھا ہے اس کے نزدیک دوسرے بھی اچھے ہیں۔لہٰذااگرکوئی برا شخص کسی دوسرے فرد کوبراقراردے تو فوراً اس کی بات پریقین نہیں کرناچاہئے ۔کیونکہ ایک انسان کے بارے میں دوافرادکی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتی ہے۔

عہدحاضرمیں کوئی انسان مکمل نہیں ہے لیکن اگرکسی انسان کوپرکھنا ہوتواسے کچھ خانوں میں تقسیم کرنے سے آسانی ہوجاتی ہے کیونکہ انسان کئی رشتوں میں بندھاہوتااوران کونبھاتا ہے۔دیکھنا یہ چاہئے کہ انسان مجموعی طورپرکس طرح کاہے کیونکہ ہرنارمل انسان خوبیوں اورخامیوں کامجموعہ ہے لیکن اگرکسی انسان کے بارے میں کچھ پوچھنامقصود ہوتوپہلے اس بات کی تسلی کرلی جائے کہ آپ جس شخص سے پوچھ رہے ہیں وہ اس کادوست یادشمن تونہیں،دونوں صورتوں میں آپ کے گمراہ ہونے کاغالب امکان ہے۔لہٰذاکسی ایسے شخص سے دریافت کریں جونہ تواس کادوست ہواورنہ دشمن ہو۔ہمارے ہاں کسی کے بارے میں رائے قائم کر تے وقت بھی انتہائی عجلت اورتعصب سے کام لیا جاتا ہے اورہم اپنی رائے کی روشنی میں فیصلہ تک سنادیتے ہیں۔کسی بھی انسان کے ماضی اورحال کودومختلف خانوں میں تقسیم کرنے کے بعد کوئی نتیجہ اخذ کرناچاہئے ۔کسی انسان کے ماضی یاحال کوبنیادبناکراس کی سابقہ یاموجودہ حیثیت،خاصیت اورخامی سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔تاہم ماضی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں جھانک کرلوگ اپنے حال اورمستقبل کاچہرہ سنوارسکتے ہیں۔

پاکستان کے ایک منجھے ہوئے ممتازسیاستدان اورسابق وفاقی وزیررانانذیراحمدخاں جوان دنوں بھی پارلیمنٹ کے سینئرممبراورمیاں نوازشریف کے معتمدساتھی ہیں۔وہ مسلسل کئی برس تک نیب کے آسیب کانشانہ بنے رہے ہیں اورحالیہ دنوں میں انہیں باعزت بری کردیا گیا ہے اوروہ اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ انہیں یہ خوشخبری پیپلزپارٹی کے دوراقتدارمیں ملی ہے اگرمسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ملتی توان کے سیاسی دشمن ان کی بریت کوڈیل یاڈھیل کاشاخسانہ قراردے کران کیخلاف ایک زوردارپروپیگنڈا شروع کردیتے ۔رانانذیراحمدخاں کوبھی اگرمختلف خانوں میں بانٹا جائے تومجموعی طورپروہ ایک اچھے انسان اورمخلص سیاستدان ہیں۔انہوں نے 1979ءمیں وائس چیئرمین ضلع کونسل گجرانوالہ کی حیثیت سے عملی سیاست کاآغاز کیا اوراپنے سیاسی ویژن کی بدولت کامیابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے۔ان کے سیاسی مخالف ان کے استاد ہونے کوپروپیگنڈے کے طورپراستعمال کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے ایک دن کیلئے بھی سرکاری ٹیچر کی حیثیت سے کام نہیں کیا بلکہ وہ 1967سے1970تک ایک این جی او کے فعال ممبر کی حیثیت سے رضاکارانہ طورپرسائنس کی کلاس میںبچوں کولیکچر دیا کرتے تھے کیونکہ ان دنوں سائنس ٹیچرز کی کافی کمی تھی ۔ میرے نزدیک ایک اعزازی استاد کی حیثیت سے بچوں کوزیورتعلیم سے آراستہ کرنا بری نہیں بلکہ بڑی بات ہے ۔اگر سرمایہ دار،سرداراوروڈیرے حکمران بن سکتے ہیں توایک اعزازی معلم ممبرپارلیمنٹ یاوزیرکیوں نہیں بن سکتا۔کیا سیاست میں آنااورملک وقوم کی قسمت کے فیصلے کرنا صرف بڑے بڑے جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کاحق ہے۔رانانذیراحمدخاں نے زندگی بھرکبھی کوئی شارٹ کٹ یاچورراستہ استعمال نہیں کیا بلکہ بلدیاتی سیاست سے اپنے سفرکاآغازکیااورقومی سیاست میں اپنا منفردمقام بنایا ۔رانانذیراحمدخاں پہلی بار1979ءمیں ضلع کونسل گجرانوالہ کے وائس چیئرمین جبکہ1983ءمیں بلامقابلہ وائس چیئرمین منتخب ہوئے1985ءمیں ایم این اے اورضلع کونسل گجرانوالہ کے چیئرمین بنے ۔1988ءاور1990ءمیں ایم این اے منتخب ہوئے جبکہ1993ءمیں انہیں پہلی اوراب تک آخری بار شکست ہوئی1997ءمیں پھرایم این اے بنے جبکہ2002ءمیں رانانذیراحمدخاں کی بجائے ان کے بڑے فرزندراناعمرنذیرخاں ایم این اے بنے جبکہ2008ءمیں رانانذیراحمدخاں ایک بارپھرکامیاب رہے ۔رانا نذیر احمد خاں سمیت پاکستان میں ایساکوئی سیاستدان نہیں جس سے سبھی لوگ خوش ہوں۔ اگر رانا نذیر احمد خاں مجموعی طورپربہتراورمخلص نہ ہوتے توبار باراہلیان کامونکے انہیں اپنانمائندہ منتخب نہ کرتے۔نیب نے تورانانذیراحمدخاں کی بیگناہی کافیصلہ سنادے دیا مگرعوام کافیصلہ آناابھی باقی ہے مگرعوامی عدالت کے فیصلے کیلئے آئندہ عام انتخابات تک انتظارکرناہوگا۔اگررانانذیراحمدخاں کے دامن پرکرپشن کاداغ ہوا تو یقینا اہلیان کامونکے انہیں مستردکردیں گے کیونکہ جس وقت تک عوام نے اپنے سیاسی شعور کامظاہرہ نہ کیا اس وقت تک ملک سے بدعنوانی کاصفایانہیں کیا جاسکتا ۔

رانانذیراحمدخاں نے پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹوکلب میں کالم نگار حضرات کے اعزازمیں ایک پروقارعشائیہ کااہتمام کیا ۔پنجاب یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹر مجاہدکامران اورسٹیل ملز کے سابق چیئرمین جنرل (ر)محمد جاویدبھی خصوصی طورپرشریک ہوئے،ان حضرات کی آمدنے محفل کوچارچاندلگادیے ۔ملک عزیز کے ممتازکالم نگاروںسیّد ارشاد احمدعارف ،رحمت علی رزای،ڈاکٹرمحمداجمل نیازی، اکبر عالم، ایڈیٹر''نئی بات''پروفیسرعطاءالرحمن ،پروفیسر توفیق بٹ،فرخ سعیدخواجہ ،میاں حبیب ،نصراللہ ملک ،نجم ولی خان ،اشرف شریف،ہمایوں سلیم اور صوفیہ بیداربھی تقریب میں شریک تھے۔ڈاکٹراجمل نیازی جہاں بھی ہوں ان کی شان بے نیازی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ،وہ ایک درویش اوردبنگ شخصیت ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹرمجاہدکامران نے جہالت کیخلاف جہادکاعلم اٹھایاہوا ہے،ان کی شخصیت بجا طور پر ان کے نام اورکام کے مطابق ہے۔ وہ ایک باصفا، با ضمیر اورباکردار انسان ہیں۔ ان کی کامرانیاں چارسوخوشبو کی طرح پھیل رہی ہیں،وہ بلاشبہ اپنے منصب کیلئے ایک بہترین انتخاب ہیں۔انہوں نے گفتگوکے دوران اسلام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے طریقہ واردات اوراس کے منفی اثرات کااعدادوشمار کے ساتھ بہت مہارت سے نقشہ کھینچا ۔ان کی با توں نے تقریب میں شریک مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات کوجھنجوڑ دیا مگر نہ جانے ہمارے مسلم حکمرانوں کو کب ہوش آئے گا ۔پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین جنرل (ر)محمدجاوید نے بڑے دردبھرے اندازمیں بلوچستان کی سلگتی صورتحال کامنظر پیش کیا ،ان کی باتیں نہ صرف غورطلب بلکہ فوری ایکشن کی متقاضی تھیں۔بلاشبہ دوریاں مٹانے سے تلخیاں ختم ہوسکتی ہیں ۔ہمارے اوربلوچ عوام کے درمیان دکھ دردکی سانجھ ہے ،ہمیں ان کے پاس جانااورانہیں اپنے پاس بلاناہوگا۔پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی ترجمان برادرم اکرم چودھری جواہل قلم کواپنا گرویدہ بنانے کاہنرجانتے ہیں۔وہ ایک سیاسی پارٹی سے زیادہ پاکستان کے ترجمان ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ اگرہم نے پاک فوج کادفاع نہ کیا توخدانخواستہ پاکستان کادفاع کمزورہوگا۔دوستی اوردشمنی دونوں صورتوں میں اکرم چودھری کھرے انسان ہیں۔بلوچستان اورفوج کے حوالے سے ان کااحترام اوردردان کی آنکھوں میں صاف جھلکتا ہے ۔وہ بلوچستان کی صورتحال کوپاک فوج کیخلاف ایک سازش قراردیتے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اوورسیز کے مرکزی سیکرٹری جنرل شیخ قیصرمحمودجوان دنوں اپنے قائدمیاں نوازشریف کی ہدایت پر این اے 86چنیوٹ میں زوروشورسے اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں وہ بھی خصوصی طورپرتقریب میں شریک ہوئے۔ شیخ قیصرمحمود این اے86چنیوٹ سے اپنی کامیابی کے حوالے سے بہت پرامیداور اہلیان چنیوٹ کو ڈیلیور کرنے کیلئے بڑے پرعزم اورپرجوش ہیں ۔ شیخ قیصر محمودکاکہنا ہے کہ میاں نوازشریف کے سواکوئی لیڈربلوچ عوام کی اشک شوئی اوردلجوئی نہیں کرسکتا۔بلوچ قیادت کومیاں نوازشریف کے سواکسی لیڈر پراعتماد نہیں ۔مسلم لیگ (ن) یوتھ ونگ پنجاب کے بانی صدرمیاں غلام حسین شاہدبھی جام صحت نوش کرنے کے بعد پہلی تقریب میں شریک ہوئے۔انہیں بانیان پاکستان اور نظریہ پاکستان سے عشق ہے ،نوجوانوں میں نظریہ پاکستان کی آبیاری کیلئے میاں غلام حسین شاہد کی کمٹمنٹ اور کاوش قابل قدر ہے۔یہ بات طے ہے اگرہم نے قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد کوفراموش کردیا توتاریخ اورتقدیرہم سے روٹھ جائے گی۔بلوچ عوا م کے زخموں پرمرہم رکھنا ہوگااوربڑے بھائی کی حیثیت سے پنجاب پربڑی اہم ذمہ داری عائدہوتی ہے ۔فوج ایک منظم ادارہ ہے ،مگراس کانظم ونسق حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔آپریشن کرنے یانہ کرنے کافیصلہ حکمران کرتے ہیں لہٰذاکوئی بھی فوج کے کردارپرانگلی نہیں اٹھاسکتا۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139566 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.