سیاچن گلیشیئر آج کل پاکستانی
سیاست کا اہم موضوع بن چکا ہے۔ ویسے بھی جس خطے میں سیاچن گلیشیئر واقع ہے،
وہ پہلے سے ہی موضوعِ بحث ہے۔ ایک طرف قدرتی آفات پریشانی اور مسائل کا سبب
بنی ہوئی ہیں تو دوسری طرف عصبیت کی آگ اور میڈیا کا منفی کردار خطے کی
تباہی میں معاون ثابت ہورہا ہے۔
سیاچن گلیشیئرکے گیاری سیکٹر میں 7 اپریل2012ءکو بوقت صبح سطح زمین سے11400
فٹ بلند ی پر واقع پاکستان آرمی کے بیس کیمپ پر13200 فٹ بلندی سے ایک تودہ
آگرا ۔ جس کے نتیجے میںپاک فوج کے 140 سے زائد سپاہی اور سول افراد دب
گئے،جنہیں تاحال نکالا نہیں جاسکا ہے ۔ گرنے والے تودے میں بڑے بڑے پتھر،
مٹی اور برف ملی ہوئی ہے۔ جب کہ درجہ حرارت منفی 12سے 20 سینٹی گریڈ تک
ہونے کی وجہ سے یہاں پر موجود برف کسی پتھر کی چٹان سے کم نہیں ہوتی۔ دوسری
جانب آمد ورفت کے راستے بھی بند ہیں ،کیوں کہ ان علاقوں میں آمد ورفت کے
راستے مئی کے آواخر یا جون کے ابتدائی عشرے میں کھلتے ہیں۔ جس مقام پر
برفانی تودے نے پاک آرمی کیمپ کو تباہی کا نشانہ بنایا ،وہاں سے تقریباً 30
کلومیٹر نیچے کی جانب ”گوما “نامی سول آبادی ہے جو تقریباً 9 ہزار فٹ بلندی
پر واقع ہے۔ برف تلے دبے فوجیوں کو نکالنے کے لیے اور بھی کئی مشکلات کا
سامنا ہے۔
سیاچن پاکستانی سیاست میں اس وقت موضوعِ بحث بنا،جب مسلم لیگ (ن) کے قائد
میاں محمد نواز شریف نے 17 اپریل 2012ءکو متاثرہ مقام کا دورہ کیا۔ پاک فوج
کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بعدیہ پہلی سیاسی یا حکومتی شخصیت
تھی، جس نے یہاں کام کرنے والے سینکڑوں افراد اور متاثرہ خاندانوں کی حوصلہ
افزائی کے لیے خود پہنچنا ضروری سمجھا۔ یقینا نواز شریف کا یہ اقدام قابلِ
تحسین ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 7 اپریل2012ءسے ہی صدر، وزیراعظم اور سیاسی
قیادت گیاری میں نہیں تو سکردو میں ہی ڈیرے ڈال دیتی، لیکن کیا کریں مفاد
پرستی، موقع پرستی اور انا پرستی ہماری سیاست اورحکومت کاخاصہ بن چکی ہے۔
نواز شریف کے دورے کے بعد صدر زرداری کو بھی جوش آیا اور 18 اپریل2012ءکو
انہوں نے بھی متاثرہ مقام کا زمینی اور فضائی دورہ کیا۔ صدرزرداری کو
بلتستان کے صدر مقام سکردو کے ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
البتہ میاں محمد نواز شریف نے بلتستان میں مجموعی طور پر 2 دن گزارے اور ان
کے دورے کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ گلگت بلتستان اس وقت فرقہ وارانہ
آگ میں جل رہا ہے۔ 3 اپریل2012ءسے تاحال خطے میں شدید مذہبی کشیدگی اور
بداعتمادی پائی جارہی ہے، جب کہ خطے کے دارالحکومت گلگت میں 3 اپریل سے
تاحال کرفیو نافذ ہے۔ شاہراہ قراقرم 2 اپریل سے آمد ورفت کے لیے مکمل طور
پر بند ہے، جس کی وجہ سے خطے میں اشیائے خورونوش اور ادویہ کی شدید قلت
پیداہوچکی ہے۔
نواز شریف نے گیاری کے دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان اور
بھارت سے اپیل کی کہ وہ سیاچن سے اپنی افواج واپس بلالیں اور اس ضمن میں
انہوں نے پاکستان پرزوردیا کہ وہ پہل کرے۔ جس کا جواب ایک روز بعد ہی پاک
آرمی کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے یہ کہہ کر دیا کہ سیاچن میں فوجی محاذ
قائم کرنے کی ابتدابھارت نے 1984ءمیں پہل کرکے کی اور پاکستان مجبوراً اپنے
دفاع کے لیے گیا ہے۔ یقینا آرمی چیف کا یہ بیان بالکل درست ہے ۔اس لئے کہ
اپریل 1984ءسے قبل یہ علاقہ مکمل طور پر پاکستان کے زیر کنٹرول ریاست جموں
وکشمیر کے اس حصے میں شامل تھا جس کو گلگت بلتستان کہا جاتا ہے ۔ غیر فوجی
علاقہ ہونے کی وجہ سے فوجی سرگرمیوں کی نقل وحمل موسم گرما تک ہی محدود سطح
پر رہتی تھی۔ بھارت نے اپریل 1984ءمیں سیاچن کے اکثر حصے پر غاصبانہ طریقے
سے قبضہ کیا جس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان خلاءپیدا کرنے کی کوشش
کی تھی اور مجبوراً پاکستان کو بھی اپنی فوجیں اس مقام پر اتارنی پڑیں۔
سیاچن گلیشیئرانتہائی سرد اور انسان دشمن واقع ہوا ہے۔ مختلف ذرائع سے حاصل
کردہ اعداد وشمار کے مطابق اب تک سیاچن میں دونوں ممالک کے ،سرد موسم کی
وجہ سے 8 ہزار سے زائد فوجی لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔اوران میں سے 3 چوتھائی
کا تعلق بھارتی افواج سے ہے۔ 1984ءسے قبل کا ناقابل تردید ریکارڈ یہ ثابت
کرتا ہے کہ سیاچن گلیشیئر آنے والے سیاح پاکستان کی اجازت سے ہی سفر کرتے
تھے۔ لیکن بھارت نے موسم سرما میں پاک فوج کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے بلاوجہ مداخلت کی اور دونوں ممالک کے لیے جانی ومالی نقصان کا ایک بڑا
ذریعہ پیدا کردیا۔ سیاچن گلیشیئر میں سالانہ دونوں ممالک تقریباً 23 ارب
روپے خرچ کرتے ہیں، جن میں سے بھارت تقریباً 18 اور پاکستان 5 ارب روپے خرچ
کرتا ہے۔یہاں رہنے والے فوجی زیادہ سے زیادہ 90 دن گزار سکتے ہیں ،اس کے
بعد انہیں مجبوراً نچلے علاقوں میں منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے ایک بڑی
تعداد بعد میں مختلف امراض کا شکار ہوتی ہے۔ بھارتی جارحیت ، ہٹ دھرمی ،
مذموم عزائم اور ماضی کے تلخ تجربات کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کا یہ مطالبہ
بالکل غلط ہے کہ پاکستان یکطرفہ طور پر سیاچن خالی کرے۔جب کہ بھارت کی
خواہش بھی یہی ہے کہ وہ سیاچن پر کلی طور پرقبضہ کرے۔ بھارت کی سیاسی اور
فوجی قیادت کو یہاں کے حالات اور مشکلات کا ادراک ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان کے بعد دونوں ممالک کو
اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ، لیکن یہ فیصلہ یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہونا
چاہیے ۔ پاکستان سالانہ تقریباً پانچ ارب روپے سیاچن کے محاذ پر خرچ کرتا
ہے۔ اگر ہم پاکستان میں موجود غربت اور معاشی مسائل کو دیکھتے ہیں تو یہ
رقم بہت زیادہ ہے، لیکن دوسری جانب اگر پاکستان میں ہونے والی کرپشن کو
دیکھا جائے تو ملکی دفاع پر خرچ ہونے والی یہ رقم کچھ بھی نہیں ہے،کیوں کہ
پاکستان میں سالانہ 6 سے 10 کھرب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ۔ تاہم دونوں ممالک
اگر 1984ءسے پہلے کی پوزیشن پرواپس چلے جائیں تو بڑے پیمانے پر جانی ومالی
نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ا گرچہ بھارت کی بھی یہ خواہش ہے کہ سیاچن پر دونوں
ممالک کے مابین کوئی معاہدہ ہو ،لیکن اس کے لیے وہ ایسا معاہدہ چاہتا ہے جس
میں موجودہ فوجی قبضے کی بنیاد پر حد بندی کی جائے جو یقینا پاکستان
بالخصوص ریاست جموں وکشمیر کے باسیوں کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہوگی۔ اگر
پاکستان نے ایسا کیا تو تنازعہ کشمیر کے حوالے سے اس کا موقف شدید متاثر
ہوگا۔ دونوں ممالک کے پاس سیاچن میں ہونے والی جانی ومالی تباہی سے بچنے کا
واحد ذریعہ 1984ءسے قبل کی پوزیشن میں واپس جانا ہے،مگر بھارتی فوجی قیادت
ایسا نہیں چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1989ءمیں بےنظیر بھٹو اور راجیو گاندھی
کے مابین سیاچن کے حوالے سے معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔بھارتی آرمی ایک طرف
اپنی حکومت سے سیاچن کی وجہ سے کئی مالی فوائد حاصل کرتی ہے تو دوسری طرف
پاکستان اور چین کو کمزور کرنے کے لیے اس مقام پر اپنی موجودگی کوبھی اہم
سمجھتی ہے۔
پاکستانی سیاست دانوں اور حکومت کو جلد بازی اور بغیر سوچے سمجھے بیان بازی
کی بجائے سیاچن اور گلگت بلتستان کے معاملات پر، انتہائی سنجیدگی اور سوچ
وبچار کے بعد بات کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف نے دورہ گلگت بلتستان کے
دوران خطے میں مذہبی عصبیت اور فسادات کے حوالے سے بھی تفصیلی گفتگو
کی،جویکطرفہ اور جانبدارانہ تھی۔ ممکن ہے نواز شریف نے خطے کی مجموعی صورت
حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بات چیت کی ہو، لیکن میڈیانے اپنا رنگ دکھایا ہو
اورنواز شریف کے یک طرفہ ردعمل کاعوام میں منفی تاثر قائم ہوا ہے۔ نواز
شریف اور دیگر قومی سیاست دان اگر خطے سے مخلص ہیں تو انہوں نے جہاں پر
بلتستان کے باسیوں کی حقیقی آواز سننے اور اسے دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی
ہے، وہاں انہیں خطے کے دارالحکومت گلگت اور زیر عتاب حصے دیامر ، چلاس میں
بھی جا کر عوامی موقف سننا چاہیے ۔رہی بات پیپلزپارٹی کی تو لوگ ان پر یقین
کرنے کے لیے تیا ر نہیں ہیں،کیوں کہ خطے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے
جانبدارانہ اور متعصبانہ اقدام نے عوام کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ ایک
طرف یکطرفہ گرفتاریوں، استحصال، متعصبانہ رویوں کا ایک طبقہ شکار ہے تو
دوسری طرف گرفتاریوں سے بچاﺅ، حکومتی پروٹوکول اور امداد کی ریل پیل نظر
آتی ہے ۔ ایک مکتبہ فکر گرفتاریوں اور حکومتی عتاب کا شکار ہے تو دوسرے
مکتبہ فکر کو ہرطرح کی آزادی حاصل ہے۔ایک طرف 34 مغویوں کو رہا کرنے والے
نگر کے اغوا کاروں کو ہیرو قرار دیا جارہا ہے تو دوسری طرف 456 مسافروں کی
زندگیاں بچا کر، انہیں محفوظ مقامات تک منتقل کرنے والے چلاس اور دیامر کے
باشندوں کو قاتل ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ایک طرف شہید ملت روڈ پر
شناختی کارڈ دیکھ کر قتل اور پر امن ریلی پر بم حملہ کرنے والوں کو کوئی
پوچھنے کے لیے تیار نہیں تودوسری طرف چلاس اور دیامر میں شناختی کارڈ دیکھ
کر قتل کرنے والوں کی گرفتاری کی آڑ میںپورے ضلع میں آپریشن کی تیاریاں
ہورہی ہیں۔ یقینا دونوں کارروائیوں میں حصہ لینے والے قومی مجرم ہیں اور ان
کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک ہونا چاہیے۔ ایک کو ہیرواور دوسرے کو زیرو کا
کرداردینے سے خطہ مزید مسائل کا شکارہو گا۔
گلگت بلتستان کونسل اور گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ارکان بھی تعصب
کاشکار ہوگئے ہیں۔ خطے میں حکومت اور انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں،اگر ہے
بھی تو چند متعصب افسران ہیں۔ یہ تو بھلا ہوپاک فوج کا جس نے خطے کو ایک
بڑی تباہی سے بچالیا۔ اگر پاکستان گلگت بلتستان کے مستقبل کو بچانا چاہتا
ہے تو وہ 2009ءکے پیکیج کو فوری ختم کرکے عوام کی مرضی ومنشاکے مطابق
تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ،ایسا نظام رائج کیا جائے جو سب کے لیے
قابلِ قبول اور سب کے حقوق کا ضامن ہو۔ بصورت دیگر تباہی وبربادی سے بچنا
ممکن نہیں۔
گلگت بلتستان میں اہل سنت جو کل آبادی کا ایک تہائی سے زائد حصہ ہےں،اپنی
مظلومیت اور حکومتی تعصب پرستی کا رونا رو رہے ہیں لیکن اہل سنت کو اپنی
قیادت کے رویے پر بھی غور کرنا ہوگا۔ اگر ایک طرف قاضی نثار احمد کی
سربراہی میں اہل سنت کی اکثریت موجودہ پیکیج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں
تو دوسری طرف جمعیت علماءاسلام کے مولانا عطاءاللہ شہاب اس نظام کو بچانے
کے لیے پیش پیش ہیں۔ تیسری طرف مسلم لیگ (ن) کے حافظ حفیظ الرحمن کا موقف
قاضی نثار احمد کے قریب تر مگر سیاسی مصلحتوں کا شکار ہے ۔ چوتھی جانب
پیپلز پارٹی میں موجود اہل سنت کے راہ نما میڈیا اور حکومت کی سطح پر پارٹی
موقف کی تائید اور عوام میں جا کر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ دوسرے مکاتب فکر
کی یہ خوبی ہے کہ ان کا پارٹی، نظریاتی اور سیاسی موقف ایک ہی ہوتا ہے جس
پر وہ ہر سطح پر قائم رہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے سیاسی عمائدین کا کہنا ہے
کہ خطے کو بچانے کے لیے 2005ءکے امن معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے۔ گلگت
بلتستان کا حل سیاسی ہونا چاہیے ۔ اگر لسانی، مذہبی اور طاقت کی بنیاد پر
حل نکالنے کی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوگا۔ |