آج کل ہمارے نوجوان وزیرِ اعظم
کچھ بوڑھے بوڑھے سے دکھائی دینے لگے ہیں ۔ ہمیں تو فخر ہوتا تھا کہ ہمارے
خوش لباس وزیرِ اعظم صاحب نے تو اپنے آپ کو ایسے فلمی ہیروز کی طرح سُپر
فِٹ رکھا ہوا ہے جو پچاس کے پیٹے میں ہونے کے باوجود کسی کالج کے شریر طالب
علم کا کردارنبھاتے نظر آتے ہیں ۔میں نے کئی دفعہ ان کا موازنہ عامر خاں
اور شاہ رُخ خاں سے کیا لیکن مجھے وہ ہمیشہ ان سے کچھ زیادہ ہی سمارٹ
نظرآئے۔لیکن اب شاید انہیں کچھ غمِ جاناں اورکچھ غمِ دوراں نے بوڑھا کر دیا
ہے ۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کے لندن پلٹ چیئر مین بلاول زرداری ہیں جنہوں نے
انہیں سوئس حکومت کو خط نہ لکھ کر ”بھٹوز“ سے وفا کا ثبوت فراہم کرنے کا
حکم دے رکھا ہے جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ لٹھ لے کر پیچھے پڑی ہے ۔اعتزاز
احسن کی وکالت بھی کام نہ آئی حالانکہ خیال یہی تھا کہ سپریم کورٹ جنابِ
چیف جسٹس کے سابقہ ”ڈرائیور“ کا کچھ تو خیال کرے گی لیکن ”اے بسا آرزو کہ
خاک شُدی“ سپریم کورٹ نے بھی آنکھیں پھیر لیں اور عدلیہ بحالی تحریک میں دی
گئی قُربانیوں کو بھی فراموش کر دیا ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ عدلیہ کو ان کی
صرف ایک نظم ”دھرتی ہو گی ماں کے جیسی“ کا عوض بھی نہیں دے سکتی باقی
قُربانیاں تو الگ ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر دُکھ میں آ کر اعتزاز صاحب نے ایک
ایسی ہی نظم عدلیہ کے خلاف لکھ دی تو کہیں سب کچھ الٹ پُلٹ نہ ہو جائے ۔
”عدل بنا جمہور نہ ہو گا“ کے نعرے لگانے والے اعتزاز احسن نے حقِ نمک ادا
کرتے ہوئے عدل اور جمہور دونوں کو ”طلاق“ دے دی لیکن وائے قسمت کہ وہ بھی
کسی کام نہ آئی ۔چار و ناچار انہوں نے سات رُکنی بنچ پر ہی اعتراض کر دیا
لیکن بنچ نے ان کی چیخ و پُکار پہ کوئی کان نہیں دھرا۔ان دنوں انہیں اعتراض
تو خیر ہر کسی پر ہے کہ کورٹ بات نہیں مانتا ، میڈیا چھیڑ چھاڑ کرتا رہتا
ہے اور وکلاءطنز کے تیر برساتے رہتے ہیں۔ اس لئے بھلا وہ اعتراض نہ کریں تو
اور کیا کریں ؟۔سنا ہے کہ لوگوں نے انہیں ”اعتزاز صاحب “ کی بجائے ”اعتراض
صاحب“ کہنا شروع کر دیا ہے لیکن ہمیں اس سے کیا لینا دینا ، ہمیں تو گیلانی
صاحب کی بے بسی دیکھ کر کچھ کچھ ترس بھی آنے لگا ہے ۔ وہ بار بار دہائی
دیتے ہیں کہ انہیں صدر سے وفا کی سزا مل رہی ہے لیکن ”بکرے جان گوائی ،
کھان والے نوں سواد نہ آیا“ کے مصداق زرداری صاحب نے یہ کہہ کر ان کی ساری
قُربانیوں پر پانی پھیر دیا کہ ”گیلانی کو میری وفا کی نہیں بلکہ ”تختِ
لاہور“ سے دشمنی کی سزا مل رہی ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ گیلانی صاحب کو حکم
عدولی کی سزا کا سامنا تو سپریم کورٹ کی طرف سے ہے تختِ لاہور کی طرف سے
نہیں۔ کیا سپریم کورٹ تختِ لاہور کے پایوں کے نیچے ہے جو اس کے حکم سے
سرتابی نہیں کر سکتی؟۔ زرداری صاحب تو خیر ٹھہرے بادشاہ کیا پتہ کل کلاں یہ
بھی کہہ دیں کہ بابر اعوان کا ”دھڑن تختہ“ بھی تختِ لاہور نے ہی کیا ہے اور
روتی بسورتی فردوس عاشق اعوان سے اطلاعات کی وزارت چھیننے کی سازش بھی تختِ
لاہور نے ہی رچائی تھی۔ یہ وزارت سے یاد آیا کہ میں چار پانچ دنوں سے
انسائیکلو پیڈیا سامنے رکھ کے بیٹھی ہوں ، مجھے ان نئے محکموں کی ہر گز
سمجھ نہیں آئی جو کابینہ میں پندرہ نئے وزراءکی شمولیت کے بعدپیدا کئے گئے
ہیں ۔ محکموں تو ماریے گولی کہ ہمارے وزراء نے کون سا کام کرنا ہوتا ہے
لیکن کم از کم ان محکموں کا مطلب تو انسائیکلو پیڈیا میں درج ہونا چاہیے
تھا لیکن وہ بھی نہیں ۔ تسلی ہوتی ہے تو صرف اتنی کہ جب جاوید چوہدری جیسے
بہت پڑھے لکھے لکھاری اور اینکر کو سمجھ نہیں آئی تو ہم کس کھیت کی مولی
ہیں ؟۔
بات گیلانی صاحب کی پریشانی کی ہو رہی تھی ، نکل کسی اور طرف گئی ۔ تو میں
کہہ رہی تھی کہ گیلانی صاحب اپنی قُربانیاں رائیگاں جاتے دیکھ کر پریشان
ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں ”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق وہ یہ نہ کہہ
دیں کہ
وفا کیسی ، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاںکیوں ہو
تو نہیں اور سہی ، عمران خاں کے سونامی کی لہریں بھی پُکا رہی ہیں اور شریف
برادران کی شرافت بھی ۔ سونامی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہاں کرسیوں کی
لوٹ ما ر کی کھُلی چھُٹی ہے اور گیلانی صاحب ٹھہرے پیدائشی ”کرسی“ کے
شوقین۔ ویسے گیلانی صاحب بھی بھولے بادشاہ ہیں جو ایک کرسی کے پیچھے مارے
مارے پھر رہے ہیں ، تحریکِ انصاف میں شامل ہو کر جتنی جی چاہے کرسیوں پہ
ہاتھ صاف کر لیں ۔سنا ہے کہ کل کوئٹہ کے جلسے میں قصورکے جلسے سے بھی زیادہ
کرسیوں پہ ہاتھ صاف کیا گیا ہے ۔ اب یہ سوچنا اکابرینِ تحریکِ انصاف کا کام
ہے کہ لوگ کپتان کی تقریر سننے آتے ہیں یا کرسیاں لوٹنے ؟۔ اگر یہی سونامی
ہے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ کہ اگر ”شیدایانِ عمران خاں “ کا آج یہ
حال ہے تو کل حکومت ملنے کے بعد یہ کیا گُل کھِلائیں گے؟۔
گیلانی صاحب تو شاید اپنی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی
فیصلہ کرہی بیٹھتے لیکن عبد القادر گیلانی اور علی موسیٰ گیلانی ان کے پاؤں
کی زنجیر بنے بیٹھے ہیں ۔عبد القادر کو دنیا کی مہنگی ترین بُلٹ پروف
گاڑیوں کا شوق ہے جب کہ علی موسیٰ کی خواہشات بھی حد سے بڑھی ہوئی ۔ان
گیلانی برادران کو سوچنا چاہیے تھا کہ جس شخص نے اپنا آدھا گھر بیچ کر ملک
و قوم کی خاطر الیکشن لڑا ہو وہ بھلا ان کی خواہشات کیسے پوری کر سکتا ہے
؟۔اس میں بھلا گیلانی صاحب کا کیا قصور جو عبد القادر نے ”حج سکینڈل“ میں
وزیرِ حج کو جیل کی ہوا کھلا کر اپنی خواہش پوری کر لی اور علی موسیٰ نے
”ریفیڈرین سکینڈل“ میں صرف ہنی مون ”جوگے“ پیسے کما لئے۔اگر ہنی مون کے لئے
بھی پیسے اکٹھے نہ ہوتے تو نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا کہ ”ساس“ تو کھڑے کھڑے
لندن کے مہنگے ترین سٹور سے لاکھوں پاؤنڈز کی خریداری کر لیتی ہے اور ”بہو“
کے لئے ہنی مون تک کے پیسے نہیں۔ہو سکتا ہے کہ اسی بات پر ساس بہو میں ”تُو
تُو میں میں“ شروع ہو جاتی اور بیچارے ”شاہ جی“ مزیدپریشان ہو جاتے ۔ اُدھر
اپنے چیف صاحب ہیں جو کسی پیاسے کو سمندر سے بقدرِ قطرہ شبنم بھی دینے کے
روا دار نہیں ۔انہیں کیا پتہ کہ گھرچلانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے
ہیں ۔اب کوئی یوں ہی بیٹھے بٹھائے اپنا گھر تو نہیں اجاڑ سکتا ۔ شاید اسی
لئے گیلانی صاحب نے یہ طے کر لیا کہ چیف صاحب اپنا کام کریں اور وہ اپنا
۔اور ہاں ! چیف صاحب لاکھ کہیں کہ ”ہمیں اپنے فیصلوں پر عمل در آمد کروانا
آتا ہے“ لیکن بادشاہو ! تھانیدار تو گیلانی صاحب نے ہی دینا ہے ۔ کہیں ایسا
نہ ہو کہ آپ کو اپنے فیصلوں پر عمل در آمد کے لئے تھانیدار ہی نہ ملیں اور
بد باطن دشمن گلی گلی یہ کہتے پھریں کہ
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر |