سلگتا بلوچستان

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑاصوبہ ہے جس کا رقبہ 347190مربع کلومیٹرہے۔ جو کہ پاکستان کے کل رقبے کا 43.65فیصد حصہ بنتاہے۔ یہ صوبہ محل وقوع کے اعتبار سے بھی پاکستان کا اہم ترین صوبہ شمارہوتاہے۔ اسکے شمال میں افغانستان ، صوبہ خبیر پختونخواہ، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ اور پنجاب جبکہ مغرب میں ایران جیسا ملک واقع ہے۔ اسکا 832کلومیٹر رقبہ ایران کی سرحد کے ساتھ ملاہوا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی اور بلوچستان کی قدیم تاریخ کا اندازہ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے بھی لگایا جاسکتاہے۔کیونکہ سات ہزار سال قبل از مسیح کے زمانہ کی آبادی اور ثقافت کے نشانات ملے ہیں۔سکندر اعظم سے پہلے اس خطے پر مکمل طور پر ایران کے حکمران قابض تھے اور انکی سلطنت کے دوران بلوچستان کو ”ماکا“ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

تقریبا٬ 325سال قبل ازمسیح جب سکندر اعظم عراق کے علاقے ”بابل“ پر لشکر کشی کرنے جا رہا تھا تو وہ اس وقت مکران کے ریگستان سے ہی گزرا تھا۔ مکران میں اس وقت ہندوستان کے قدیم باشندے دراوڑ اور براہوی آباد تھے ۔ قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال ، سندھ ، پنجاب ، سرحد (خیبرپختونخواہ) کی طرح انگریزوں کی سلطنت میں نہیں تھا ۔ بلکہ 1947میں قلات ، بلوچستان ، مکران ، لسبیلہ او رخاران کی ریاستوں پر مشتمل تھا جس پر انگریزوں کے نمائندے نگران تھے۔ قلات کی ریاست جو کہ ان میں سب سے بڑی ریاست کا درجہ رکھتی تھی اور اسکے حکمران خان قلات میراحمد یار خان تھے انہوں نے پاکستان کے قیام سے دو دن قبل ہی اپنی ریاست کو مکمل طور پر آزاد کرنے کا اعلان کیا تھااور خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی۔ دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے مکمل حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علیحدہ حیثیت برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن پاکستان نے خان قلات کے ان اقدام کو بغاوت اور سیاسی چال سے تعبیر کیا اور اسکے خلاف ضروری کاروائی کا آغاز کردیا۔ بالآخر 1948میں خان قلات نے اپنی شکست قبول کر لی اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کرنے پر مجبور ہو گیا ۔لیکن خان قلات کے بھائی شہزاد عبدالکریم اور دیگر رہنماﺅں نے خان قلات کے اس فیصلے کی مذمت کی اور وہ سب اسکے خلاف پراپیگنڈہ کرنے لگے۔ لیکن مضبوط سیاسی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے اور فرار ہو کر افغانستان چلے گئے۔ 1953ءتک بلوچستان مکمل طور پر گورنر جنرل کے کنٹرول میں رہا۔ پھر 1956ءکے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا۔ جب 1970میں عام انتخاب ہوئے تو اس میں پہلی بار اسکو ایک علیحدہ صوبہ کی حیثیت حاصل ہوئی۔ اس وقت نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور 1972میں پہلی بار بلوچستان میں باقاعدہ طور پر منتخب حکومت جاری کی گئی۔اور انگریزوں کے دور سے بہرحال عوام کی حالت زار قدرے بہتر ہوئی مگر بہت سے معاملات میں وہ پسماندہ ہی رہے جن میں تعلیم ، معاشی خوشحالی اورعلاقائی تعمیر وترقی سہرفہرست ہیں۔ اگرچہ گوادر کے حوالے سے کئے گئے اقدامات تسلی بخش ہیں مگر جب تک عوام خوشحال نہیں ہونگے اس وقت تک انکے دلوں میں محرومی کی آگ جلتی رہے گی اور پورا بلوچستان سلگتا رہے گا۔

بلوچستان کے کل 30 اضلاع ہیں جن میں قلات ، ژوب ، گوادر، آوران ، لسبیلہ ، خاران ، بولان ،ڈیرہ بگٹی، کوہلو، سبی ، موسی خیل ، کوئٹہ اور چاغی سہرفہرست ہیں ۔بلوچستان زمانہ قدیم سے قدرتی وسائل وذخائر سے مالا مال خطہ ہے ۔جہاں تیل، گیس اور دیگر معدنیا ت فروانی ہے۔کوئٹہ بلوچستان کا صدر مقام اور سب سے بڑا اور تاریخ اہمیت کا حامل شہر ہے۔کوئٹہ پھلوں کی وجہ سے بھی شہرت رکھتا رہے۔ دیگر صوبے کی نسبت یہاں برف باری ہونے کی وجہ سے سخت سردی پڑتی ہے۔ اس وقت اس صوبے کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق 90لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے جبکہ بعض شہروں میں اردو بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔بلوچستان میں رہنا ہر پاکستانی کا حق ہے کہ اس خطہ ارض کو حاصل کرنے میں تمام مسلمانوں خواہ انکی ذات پات کچھ بھی تھی نے اپنی جان و مال کی قربانی دی ہے ۔ اس بات کو سب کو تسلیم کرنی چاہیے ۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کے وسائل کو استعمال کرنا بلوچستان کے عوام کا حق ہے لیکن پورے خطے کو اپنی جاگیر سمجھنا اچھا طرز عمل نہیں ہے۔ جو لوگ وہاں کے عوام کی بھلائی کےلئے کچھ نہیں کر سکے ہیں وہی آج بلند وبانگ دعوئے علیحدگی کے کر رہے ہیں۔جبکہ کہ اپنی عوام کو سیاسی ، معاشی طور پر اور تعلیمی لحاط سے بہتر سے بہتر کرنا انکا فرض ہے مگر وہ پہلے کچھ اور کر کے اپنی دھاک چمکانے کی فکروںمیں ہیں۔ اس کےلئے مختلف فرقوں اوردیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آپس میں دست وگریبان اور قتل وغارت کی فضا پیدا کے خوف عوام کے دلوں میں پیدا کر چکے ہیں ۔بلوچستان اور پاکستان سے محبت رکھنے والے تمام محبت وطن اگر اپنے حقوق کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں تو پیار ومحبت کی فضا میں حالات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں وگرنہ الگ ہوجانے کے بعد بھی انکے حالات کی بہتری ابھی سے کچھ حتمی حل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔پاکستان کے دشمن اسکے قیام سے ہی اسکے ٹکڑے کرنے کے درپیش ہیں ہمیں ان سے ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ بہت عرصہ سے حکومت پاکستان کےلئے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔مختلف ادوار میں اس مسئلے پر بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کی باتیں بھی کی جاتی رہیں ہیں۔لیکن کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ایسی افواہوں پر آنکھیں بند کر کے ذی عقل یقین نہیں کیاجا سکتا ہے۔یہ بات تو سب کے سامنے ہے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں ملوث گروہوں کے سربراہان تو گذشتہ کئی سالوں سے بیرون ملک پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن اپنے اصولی موقف کی وجہ سے اپنی علاقے کی عوام کو مشکلات کا شکار کئے ہوئے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ ، بھارت اور اسرائیل مل کر بلوچستان کے معاملات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ جو گروہ صوبائی تعصب کے پھیلانے میں ملوث پائے گئے ہیں ان میں سے کئی ایک ایران کے ساتھ مسائل پیدا کرنے میں بھی شریک ہیں۔اگرچہ چند مسائل ایسے ہیں جن کو بخوبی حل کیا جاسکتا ہے مگرفریقین کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے جوں کے توں باقی ہیں۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ بلوچستان کو علیحدہ مملکت بنانے والے کیا محب وطن شہری ہیں ؟ کیا اسی وجہ سے ہم نے انگریزوں اور ہندوﺅں کی غلامی سے نجات حاصل کی تھی کہ بعد ازں اس خطہ ارض کے مزید ٹکڑے کرسکیں؟لیکن یہ سب کون سوچے گا وہی جو مثبت طرزفکر کا شخص ہوگا مگر یہاں تو صاحب ہر کوئی اپنی من مانی پر تولا ہوا ہے ۔ اسی کی ایک مثال ذیل کے ایک واقعے سے لگائی جاسکتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماﺅں کی سوچ قیام پاکستان سے اب تک تقریبا ایک جیسی ہے کہ اپنے مطلب کےلئے سب کچھ قربان کر دیناہے۔

ایک روز وزیر خزانہ غلام محمد صاحب کے کمرے میں میٹنگ تھی ۔ کراچی میں دفتری اور رہائشی ضروریات کےلئے جونئی عمارتیں اور کوارٹر تعمیر ہو رہے تھے ، ان کےلئے سینیٹری سامان درآمدکرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ میٹنگ میں چار وزیر اور کچھ افسر شریک تھے۔ وزیروں میں مولوی فضل الرحمن بھی موجود تھے ، جن کے پاس امور داخلہ ، اطلاعات اور تعلیم کا چارج تھا۔ کچھ بحث وتمحیث کے بعد جب سینیٹری کے سامان کا کوٹا طے ہو گیا ، تو وزیر تعلیم مولوی فضل الرحمن نے دبے الفاظ میں تجویز پیش کی کہ اگر اس امپورٹ کا کچھ حصہ ڈھاکہ کےلئے بھی مخصوص کر دیا جائے ، تو مناسب ہو گا۔ اس تجویز پر بڑی ہنسی اڑی۔ کسی نے کہا کہ ڈھاکہ میں کوئی خاص تعمیری کام شروع نہیں ہوا، اس لئے وہاں پر سینٹر ی سامان بھیجنے کی کوئی تک نہیں۔ کسی نے کہا کہ جو سامان ڈھاکہ جائے گا ، وہ لازمی طور پر سمگل ہو کر کلکتہ پہنچے گا۔ اس صاحب نے مذاق ہی مذاق میں یہ پھبتی اڑائی کہ بنگالی لو گ تو کیلے کے گاچھ کی اوٹ میں بیٹھ کر رفع حاجت کرنے کے عادی ہیں۔ وہ ابھی سے کموڈ اور واش بیسن لے کر کیا کریں گے۔مولوی فضل الرحمن مسکرائے نہ بگڑے ۔ انتہائی متانت اور سنجید گی سے انہوں نے ایک بار پھر زور دے کر کہا کہ زیادہ نہیں تو اس سامان کا ایک قلیل علامتی حصہ ڈھاکہ کےلئے ضرور مخصوص کیا جائے، کیونکہ نفسیاتی طور پر یہ مناسب اقدام ہو گا۔کچھ مزید بحث ومباحثہ اور طزومزاح کے بعد مولوی فضل الرحمن صاحب کی بات مان لی گئی اور ڈھاکہ کےلئے سینیٹری سامان کو کچھ حصہ مخصوص ہوگیا، لیکن ایسی بد مزگی کے ساتھ جس طرح دودھ میں مینگنیاں ڈال کی پیش کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں لاشعوری طور پر بنگلہ دیش کی بنیادوں کی کھدائی کا کام اسی روز شروع ہو گیا تھا(بحوالہ : شہاب نامہ )۔اب یہی صورتحال ہم بلوچستان کے معاملے میں بھی دیکھ رہے ہیں مگر کسی طور سنجید گی سے نہیں لے رہے ہیں ؟ہم یہ نہ دیکھیں کہ معاملہ صرف سوئی گیس کی رائلٹی کا ہے یا اکبر بگٹی کے اندوہناک قتل کے انصاف سے سب اچھا ہو جائے گا۔سوال یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو کس طرح سے مطمئن کیا جاسکتا ہے ابھی تک بہت سے مسائل کی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں ایک لاﺅہ سا اگل رہاہے اور مختلف افراد کے قتل وغارت کی وجہ سے پورا بلوچستان سلگ رہا ہے ؟ مگر ہم ہیں کہ ابھی تک کچھ لو اور کچھ دو کے تحت ہی اپنے مفادات کی بندر بانٹ کے چکروں میں ہی ہیں پورے پاکستان کو داﺅ پر لگ دینا چاہتے ہیں۔بلوچی لیڈران کو پاکستان سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے علیحدگی کے نعرے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا چاہیے۔ایک گھرانے کے افراد آپس کی چپقلش سے اغیار کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ نہ ہی دیں تو اچھا ہے کہ بلوچستان کے معدنی وسائل پر قبضہ ہی دشمن کی چال ہے تاکہ پاکستان کو ختم کیا جا سکے۔

بلوچستان کے حالات و واقعات سے مشابہت رکھنے والے ایک مزید واقعے کی روداد بھی پڑھ لیجئے اور غور کیجئے کہ ایسا کہیں اب بھی تو نہیں ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے شاید اسی وجہ سے ہی کیا جاتا ہے۔جنوری 1968میں اس سازش( اگرتلہ شازش) کا سرکار ی طو ر پر اعلان کر دیا گیا۔ سازش میں شیخ مجیب الرحمن کے علاوہ 28 دیگر افراد ملوث تھے ۔ ان پر یہ الزام تھا کہ ڈھاکہ میں بھارتی سفارتی مشن کے فرسٹ سیکرٹری پی ۔این۔ اوجھا کے زیر اہتمام یہ لوگ ہندوستانی عناصر کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش میں مصروف عمل تھے ۔ اس مقصد کےلئے اگر تلہ (بھارت) میں ایک مرکز قائم کیا گیا تھا، جہاں سے علیحدگی کی تحریک کو اسلحہ اور دوسرا تحریبی مواد فراہم کیا جاتا تھا ۔ شیخ مجیب الرحمن تو پہلے ہی مئی 1966سے اپنے چھ نکاتی پروگرام کی پاداش میں ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت جیل میں تھے۔ لیکن اب انہیں اگر تلہ سازش کیس میں ملزم کے طور پر ازسر نو گرفتار گردانا گیا۔ اگر تلہ سازش کے مقدمہ کی سماعت کےلئے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا گیا ۔ جس کے سربراہ سابق چیف جسٹس مسٹر ایس ۔اے ۔رحمان تھے۔ سترہ برس قبل 1951 میں بھی روالپنڈی سازش کیس کےلئے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا گیا تھا ۔ لیکن اس مقدمہ کی سماعت کھلی عدالت میں نہیں بلکہ صغیہ راز ہوئی تھی۔ اسکے برعکس اگر تلہ سازش کیس کی سماعت کھلی عدالت میں رکھی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سماعت کے دوران مشرقی پاکستان کی علیحدگی اسکے الگ نام ، پرچم اور قومی ترانے کی تفصیلات کھل کر برسر عام آگئیں ۔ اور علیحدگی پسند عناصر کو اپنی جائز اور ناجائز شکایتوں کی تشہیر کا بھی ایک نادر موقعہ ہا تھ آگیا ۔ جس کروفر سے یہ سب تفصیلات اخبارات میں اچھالی جاتی تھیں ، اسکے دوپہلو تھے ۔ ایک پہلو یہ تھا کہ مغربی پاکستان کے خلاف نفرت بڑھتی تھی اور صدر ایوب کی مرکزی حکومت پر اعتماد کمزور پڑجاتا تھا ۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ علیحدگی کی جراثیم عوام کے ذہن میں جڑپکڑتے گئے اور شیخ مجیب الرحمن کی قیادت کو بیٹھے بٹھائے انتہائی فروغ حاصل ہو گیا ۔ بلاشہ اگر تلہ سازش کا مقدمہ حقائق و شواہد پر مبنی تھا ۔لیکن جس طور پر اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ سے اس مقدمے کی پبلسٹی اور تشہیر ہوئی اس نے اس کے حقائق کو سیاسی اور عوامی ہیجان کی دلد ل میں ملیا میٹ کر دیا ۔ یہ ہیجان اس قد ر شدید تھا کہ ایک روز ڈھاکہ کے ایک بے قابو ہجوم نے اس سٹیٹ گیسٹ ہاوس پر حملہ کر دیا جس میں اگر تلہ سازش کیس ٹربیونل کے سربراہ جسٹس ایس۔ اے ۔رحمان قیام پذیر تھے ۔ انہوں نے بمشکل تمام ایک وفادار بنگالی خدمتگار کی کوٹھری میں روپوش ہو کر اپنی جان بچائی۔ اور پھر چپکے چپکے پوشید ہ طور پر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر لاہور واپس چلے آئے۔(بحوالہ: شہاب نامہ)

مندرجہ بالا واقعے میں اہم ترین بات ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ہے آج کے دور میں اسکا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے مگر سچی بات تو یہ ہے کہ بہت سے صحافی حضرات سچ کی بجائے کسی اور چیز کو ترجیح دینے ژلگ گئے ہیں کہ گھر کی دال روٹی چلتی رہے، اور سچ کو کسی قدر جھوٹ کے پردے میں چھپا کر بیان کر دیا جاتا ہے کہ کچھ دل کو تسلی ہوتی رہے۔کہیں کوئی اینکر پارکوں میں جا کر چھا پہ مار کر لوگوں کو سدھار رہا ہے اور کوئی اپنے ہی معاملات کو درست کرنے میں لگا ہوا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ذرائع ابلاغ جہاں تک ہو سکے سچ کو بیان کرے اور اس راہ میں تمام تر مشکلات کو برداشت کر کے ملک وقوم کی خدمت کرے۔بصورت دیگر ملک کی عزت وقار کے ساتھ ساتھ اسکی ساکھ بھی متاثر ہو جائے گی۔مزید براں یہ کہ موجودہ جمہوری حکومت اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اور افواج پاکستان کی مدد سے بلوچ قوم کے سلگتے ہوئے جذبات کو ٹھنڈ ے کرنے اور حالات و خوشحالی میں بہتری لانے کی تگ ودو کر ے اور ایسے حالات کی نوبت نہ آنے دے جس سے مشرقی پاکستان جیسے حالات پھر سے پیدا ہو جائیں اور خدانخوستہ پاکستان کا مزید ٹوٹنا ممکن بن جائے۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 482058 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More