جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

پروفیسر مظہر

پورا پاکستان جل رہا ہے ۔گلگت بلتستان میں مذہبی تعصب کی آگ بھڑک رہی ہے ۔کراچی ، کوئٹہ ٹارگٹ کلنگ اور خیبر پختونخواہ بم دھماکوں کی زد میں ۔ جغرافیائی سرحدیں محفوظ ہیں نہ نظریاتی ۔ گیاری میں آج بارھویں دن بھی وطن کی آن پر مر مٹنے والے ٹنوں موٹی برف کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں ۔ لیکن ہماری مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کو بارہ روز کے بعد فرصت ملی البتہ کسی کو ابھی تک گلگت بلتستان جانے کی ضرورت محسوس ہوئی نہ وزیرستان میں عزم و ہمت کی لا زوال داستانیں رقم کرنے والے جوانوں کی پیٹھ تھپتھپانے کی ۔یہ مگر ضرور ہوا کہ ملتان میں بیٹھ کر زرداری صاحب نے اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے الیکشن سے پہلے سرائیکی صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا ۔ حالانکہ انہیں اس کی آئین اجازت دیتا ہے نہ ان کے پاس مینڈیٹ ۔ آئین کو تو خیر حکمرانوں نے پہلے ہی اپنے گھر کی لونڈی اور در کی باندی بنا رکھا ہے ۔۔ لیکن مینڈیٹ ؟۔ کیا وزیرِ اعظم صاحب کسی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے سرائیکی صوبہ تشکیل دیں گے یا پھر آئین کے آرٹیکل 239 کی کلاز 4 کے تحت متعلقہ صوبائی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے نئے صوبے کا بل پاس کرکے قومی اسمبلی میں بھیجے گی ؟۔ کیا پنجاب اسمبلی میں حکمرانوں کے پاس دو تہائی اکثریت ہے ؟۔اگر نہیں تو پھر کس کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے ؟۔

نئے صوبوں کی تشکیل سے کسی بھی سیاسی پارٹی کو اختلاف نہیں اور بہاولپور صوبہ تو ون یونٹ سے پہلے بھی موجود تھا ۔ سوال مگر یہ ہے کہ صوبے انتظامی بنیادوں پر بنائے جائیں یا لسانی ؟۔ اگر لسانی بنیادوں پر ہی تشکیل مقصود ہے تو پھر بسم اللہ سب سے پہلے سندھ میں مہاجر صوبہ تشکیل دیں ، بلوچستان میں پختون صوبے کی بنیاد رکھیں ، خیبر پختونخواہ میں ہزارہ صوبہ کے علاوہ ایک اور صوبہ بھی تشکیل دیں کیونکہ خیبر پختون خواہ میں سبھی ”پشتو سپیکنگ “ تو نہیں۔ پھر پنجاب میں سرائیکی ہی نہیں پوٹھوہاری صوبہ بھی بنا دیجیے ، کسی کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ اگر انتظامی بنیادوں پر تشکیل مقصود ہے تو پھر بھی تمام صوبوں کے نئے انتظامی یونٹ بنانے ہونگے ۔ البتہ اگر مقصدصرف پنجاب کے حصے بخرے کرنا ہے تو پنجاب کسی کے باپ کی جاگیر نہیں اور نہ ہی اتنا کمزور کہ جس کا جب جی چاہے ٹکڑے ٹکڑے کر دے ۔

پیپلز پارٹی نے اپنے انہی عزائم کی تکمیل کی خاطر پندرہ نئے وزراءکو کیبنٹ میں شامل کر لیا گیا حالانکہ اٹھارھویں ترمیم کے مطا بق اراکین اسمبلی کی کل تعداد کے گیارہ فیصد سے زیادہ وزیر نہیں ہو سکتے لیکن اب ما شااللہ 370 کی اسمبلی میں 91 وزیر مشیر ہیں ۔ اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے پندرہ میں سے تیرہ وزراء صرف پنجاب سے لئے گئے ہیں ۔ سرائیکی صوبے کی تحریک عوام کے اندر نہیں ، وڈیروں اور جاگیر داروں کے اندر جنم لے رہی ہے ۔ شور اٹھتا ہے کہ سرائیکی پٹی کو پسماندہ کر دیا گیا ہے ۔ بجا لیکن پسماندہ کرنے والے بھی تو وہی ہاتھ ہیں جو سرائیکی صوبے کا شور مچا رہے ہیں ۔ تاریخ اٹھا کے دیکھ لیجئے ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت حکمرانوں کی غالب اکثریت کا تعلق ہمیشہ جنوبی پنجاب ہی سے رہا ہے ۔یہ نواب ،وڈیرے اور جاگیردار کبھی بھی جنوبی پنجاب کے عوام کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔ سرائیکی صوبے کے حق میں جذباتی تقریریں کرے والے گیلانی صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کے لئے مختص اڑتیس ارب روپوں میں سے چھتیس ارب روپئے صرف ملتان پر کیوں خرچ کر دیئے؟۔ مانا کہ گیلانی صاحب نے عبد ا لقادر گیلانی کو صوبے کا وزیرِ اعلیٰ بنانے کا خواب دیکھا ہو گا اور علی موسیٰ گیلانی کو ”کھُل کھیلنے“ کا موقع دینے کا بھی لیکن کیا گیلانی صاحب کے خوابوں کو حقیقت کا روپ بخشنے کے لئے ملکی سا لمیت داؤ پہ لگا دی جائے ؟۔ پتہ نہیں پیپلز پارٹی علاقائی ، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ہوا دے کر اپنے کون سے مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے ؟۔

حیرت ہوتی ہے کہ اگر سندھ کی تقسیم کی بات کی جائے تو سندھی چاقو چھریاں تیز کرنا شروع کر دیتے ہیں ، خیبر پختونخواہ والے ہزارہ صوبہ کا نام سنتے ہی تیر و تفنگ لے کر باہر نکل آتے ہیں لیکن ۔۔لیکن پنجاب ؟۔ پنجاب چونکہ بڑا بھائی ہے اس لئے ”بڑے بھائی صاحب“ کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ اور بلا وجہ معذرت خواہانہ ہوتا ہے ۔ عشروں سے ”بڑے بھائی صاحب“ گالیاں کھا رہے ہیں لیکن کبھی بد مزہ نہیں ہوئے ۔ کوئی علیحدگی کی بات کرے تو تڑپ اٹھتے ہیں ، پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والوں کے دیوانے ہو جاتے ہیں ، سندھی وزیرِ اعظم اور پنجابی وزیرِ اعظم کا موازنہ ہو تو لب سی لیتے ہیں ،کوئی سندھی ٹوپی اور اجرک کی بات کرے تو پریشان ہو جاتے ہیں اور دوسرے صوبوں سے آنے والی پنجابیوں کی لاشوں پہ چپکے چپکے رو لیتے ہیں ۔ حالانکہ کہنے کو پنجابیوں کے پاس بھی بہت کچھ ہے ۔ بھٹو دور کے مظالم اور میر مرتضےٰ بھٹو کی تنظیم ”الذوالفقار“ کے ہاتھوں بہت سے پنجابیوں کا قتل کسی کو بھولا نہیں لیکن پھر بھی پنجاب نے کبھی کسی سندھی ، سرحدی یا بلوچی کی تفریق نہیں کی نہ کسی نے سنا کہ پنجاب سے کبھی لسانی یا علاقائی تعصب کی بنا پر کوئی ایک قتل بھی ہوا ہو وجہ صرف یہ کہ ”بڑے بھائی صاحب“ دل سے سبھی کو پاکستانی سمجھتے ہوئے ہمیشہ اپنا دامانِ الفت وا رکھتے ہیں ۔ بھٹو نے پکارا تو لبیک ، بینظیر نے آواز دی توصدقے واری ، زرداری صاحب نے بلایاتو دیدہ و دل فرشِ راہ ۔ چونسٹھ سالوں میں صرف چار ساڑھے چار سال (میاں نواز شریف کا دورِ حکومت) حقِ حکمرانی ملا تو اسی پر خوش ۔ اس کے باوجود بھی گالی پڑتی ہے تو صرف پنجاب کو۔ اور اب گالی کے ساتھ سینے میں گولی اتارنے کے بھی منصوبے؟۔

انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے لیکن تدبر و تدبیر اور فہم و فراست کے ساتھ ، تیزی و طراری اور موقع پرستی کے ساتھ نہیں ۔ نواز لیگ اور دیگر جماعتیں یہی موقف رکھتی ہیں اور ق لیگ بھی ۔ دو دن پہلے چوہدری پرویز الٰہی نے ایک ٹی۔وی ٹاک شو میں وا شگاف الفاظ میں کہا کہ وہ صرف انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کے حق میں ہیں ۔ لیکن پیپلز پارٹی اور ایم۔کیو۔ایم نہیں ۔ پیپلز پارٹی اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے اور ایم۔ کیو۔ایم ”مہاجر صوبے “ کی صورت میں اپنے ادھورے خوابوں کی تکمیل چاہتی ہے ۔ آج تو مہاجر صوبہ صرف ”وال چاکنگ“ کی شکل میں نظر آتا ہے لیکن سرائیکی صوبے کے بعد مہاجر صوبہ نہ بنائے جانے کا کوئی آئین ، قانونی اور اخلاقی جواز ہی باقی نہیں بچے گا ۔ تب یہی ایم۔کیو۔ایم مہاجر صوبہ تحریک کا ہراول دستہ ہو گی ۔ اے۔این۔پی بیچ منجدھار میں ہے ۔ ایک طرف وہ شاہ زرداری کی وفاداری میں سرائیکی صوبے کی حمایت کرتی ہے تو دوسری طرف صوبہ ہزارہ کی مخالفت جہاں دو سال سے الگ صوبے کی تحریک جاری ہے۔ تحریک کے بانی بابا حیدر زماں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جس دن سرائیکی صوبہ بنا اسی دن سے ہزارہ میں سول نا فرمانی شروع کر دی جائے گی ۔

نئے صوبوں کی تشکیل سے پہلے کیا کسی نے اخراجات کا تخمینہ بھی لگایا؟۔ہمہ وقت کشکولِ گدائی تھامے در در کے یہ بھکاری نئے صوبوں کے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے ؟۔ کیا کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا یا لوٹے ہوئے اربوں ڈالر واپس ٓ جائیں گے؟۔ زرعی ٹیکس کا نفاذ ہو گا یا نام نہاد اشرافیہ پورا ٹیکس ادا کرنے لگے گی ؟۔ ایوانِ صدر و وزیرِ اعظم کے اربوں روپئے سالانہ اخراجات میں کٹوتی ہو گی یا وزیروں شزیروں کے اللے تللے بند ہو جائیں گے ۔ پچپن ہزار روپئے فی منٹ صرف کرنے والی پارلیمنٹ ”بوریا نشیں“ ہو جائے گی یا اراکینِ اسمبلی تنخواہیں اور مراعات لینا بند کر دیں گے ؟ ۔اگر ایسا کچھ نہیں ہو گا تو پھر کیا غریبوں کی رگوں کے لہو پہ نظر ہے؟ ۔لیکن یہ لہو تو پہلے ہی نچوڑا جا چکا ہے۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642269 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More