قارئین کرام! جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے
تو امکانی طور پر وزیر اعظم توہین عدالت کیس کا محفوظ فیصلہ سنا یاجاچکا
ہوگا یا سنایا جانے والا ہوگااور میڈیا پر مزے مزے کے اور کہیں کہیں سنجیدہ
تبصرے کئے جارہے ہوں گے۔ کیا واقعی وزیر اعظم کو سزا ہوگی یا ان کے موجودہ
وکیل اور وکلاءکے سابقہ ہیرو اعتزاز احسن کے دلائل عدالت کو مطمئن کرچکے
ہوں گے اور صدر کے استثنیٰ کے بارے میں ان کا موقف درست مانتے ہوئے اس وقت
تک خط لکھنے پر اصرار نہیں کیا جائے گا جب تک کہ آصف زرداری پاکستان کے
صدرہیں۔کیس کا کیا فیصلہ سنایا جاتا ہے اس بارے میں مختلف آئینی ماہرین کی
مختلف آراءہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو آج ہی وزیر اعظم کو آہنی سلاخوں کے پیچھے
دیکھ رہے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں ایسی نوبت نہیں آنے والی۔ اگر
میڈیا کا جائزہ لیں تو کچھ گروپس ایسے ہیں جو وزیر اعظم کو نشان عبرت بنا
دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ہتھیلی پر سرسوں بھی جمارہے ہیں اور خوشی سے قلقاریاں
بھی مار رہے ہیں کہ اب وزیر اعظم کا دھڑن تختہ ہوا چاہتا ہے۔ فیصلہ کچھ بھی
ہو، مجھے نہیں لگتا کہ اس سے کوئی خاص فرق پڑنے والا ہے۔ وزیر اعظم اور ان
کی فیملی مبینہ طور پر کرپشن کی گنگا میں بھرپور اشنان کررہے ہیں، کہنے
والے کہتے ہیں کہ انہوں نے اتنا کچھ جمع کرلیا ہے کہ اب اگر انہیں اپنے
شریک چیئرپرسن پر قربان بھی ہونا پڑے تو ایسا کرگذریں گے، کچھ لوگ یہ بھی
کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے خاندان کی مبینہ کرپشن کہانیوں پر مقتدر قوتوں
نے آنکھیں ہی اس لئے بند کی ہوئی ہیں تاکہ مستقبل میں گیلانی کسی قسم کی
قربانی کے لئے انکار کرہی نہ سکیں، ظاہر ہے جب رحمان ملک جیسا شخص وزیر
داخلہ ہو، فائلیں بنانے کی ماہر ٹیم اپنے ساتھ رکھتا ہو تو ان فائلوں میں
کیسی کیسی ان کہی کہانیاں نہیں ہونگی، ان فائلوں اور ان کہانیوں کا صرف
”ڈراوا“ ہی کافی ہوگا اور ”یوسف بے کاررواں“ کو ایک بار پھر ”چاہ یوسف“ میں
گھسانے کے لئے کافی ہوگا۔
اگر سپریم کورٹ وزیر اعظم گیلانی کو مجرم اور سزا کا حقدار سمجھتی ہے تو
زیادہ سے زیادہ کتنی سزا ہے؟ چھ ماہ، جی ہاں! صرف چھ ماہ قید محض۔ ایک ایسے
”مجرم“کے لئے صرف چھ ماہ قید کی سزا جو اس ملک کی دولت کے ساتھ ”گینگ ریپ“
کرنے والوں کو مسلسل بچا رہا ہے اور اسی آڑ میں خود اور اس کے خاندان کے
لوگ بھی دن رات ”دیہاڑیاں“ لگا رہے ہیں۔ یہ صرف ”مبینہ“ کی حد تک نہیں بلکہ
اعلیٰ عدالتوں کے ریمارکس کے مطابق ”ہرجرم کا کھرا وزیر اعظم ہاﺅس جا رہا
ہے....“۔ اگر چھ ماہ یا اس سے کم کسی بھی عرصہ کے لئے وزیر اعظم کو عدالتی
حکم نہ ماننے کے جرم میں سزا ہوجاتی ہے تو وہ فوراً اور فٹافٹ وزیر اعظم کے
عہدے سے ہٹیں گے بھی نہیں بلکہ اس کے لئے آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت ایک
ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی کو الیکشن کمیشن بھیجنا پڑے گا، الیکشن کمیشن
بعدازاں دونوں فریقین کو سننے کے بعد وزیر اعظم کی اسمبلی رکنیت ختم کرنے
کا حکم جاری کرے گا جس کے بعد وزیر اعظم اپنی اسمبلی رکنیت اور ساتھ ہی
وزارت عظمیٰ سے فراغت حاصل کرلیں گے، لیکن اس سے پہلے وزیر اعظم کے
وکلاءیقینا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے جس کی تیاری انہوں نے فیصلہ
محفوظ ہوتے ہی شروع کردی ہوگی۔ اس اپیل میں کتنا عرصہ لگے گا، مجھے لگتا ہے
کہ اس کا فیصلہ اصغر خان کیس کے بعد سنایا جائےگا کیونکہ سپریم کورٹ کسی
بھی ”الزام“ سے بچنا چاہے گی کہ صرف پیپلز پارٹی کے قائدین کے کیس ہی اتنی
سرعت کے ساتھ کیوں سنے جاتے ہیں۔ ابھی سزا بھی چونکہ مفروضہ ہے، اس لئے اگر
سزا ہوجاتی ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی کی جاتی ہے تو حکومت کو اتنا وقت
ضرور مل جائے گا کہ وہ ”سیاسی“ فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نئے
الیکشن کا اعلان کردے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ وہی دھات کے دو پات، نہ گیلانی کے
خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی، نہ زرداری کے خلاف، رہی بات کرپشن میں مشغول
باقی لوگوں کی تو جس نے جتنی بڑی کرپشن میں ہاتھ رنگے، اس کواتناہی بڑا
عہدہ اور بڑی وزارت، ”راجہ رینٹل“ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
ابھی اپنی گزارشات کا اوپر والا حصہ مکمل کرپایا تھا کہ ایک بے تکلف دوست
آن دھمکا! اس نے آتے ہی باتیں شروع کردیں، میں نے کہا کہ یار تھوڑی دیر رک
جاﺅ، ابھی تمہاری طرف متوجہ ہوتا ہوں، کہنے لگا ایسا بھی کیا کام ہے جو مجھ
سے بھی ضروری ہے؟ میں نے عرض کیا یار ایک چھوٹا سا کالم لکھ رہا ہوں، اس نے
جھٹ فرمائش کردی کہ جو بھی لکھا ہے، پہلے اسے دکھاﺅں، مرتا کیا نہ کرتا،
اسے دکھا دیا، پڑھ کر اس نے لمبا سا ہنکارا بھرا اور کہنے لگا! میرے پیارے
بھائی! تم بھی احمقوں کی جنت میں رہتے ہو، ان بڑے بڑے کرپشن کنگز اور
مافیاﺅں کے خلاف کچھ نہیں ہونے والا، یہ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ جب سے
سپریم کورٹ بحال ہوئی ہے تب سے یہ کیسز چل رہے ہیں، جب سے عدلیہ بحال ہوئی
ہے تب سے ساری جماعتوں کے قائدین خود ساختہ جلاوطنیاں ختم کرکے وطن میں
واپس موجود ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، سڑکوں پر گھسیٹنے
کی باتیں کرتے ہیں، ایک دوسرے کے باپوں کے جنازوں کی باتیں کرتے ہیں، ساس
بہو اور نند بھاوج کی طرح ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں
لیکن اندر کھاتے سب ایک ہیں۔ ڈالروں کی چھایہ چھتر میں، ایک خاص حد تک جاتے
ہیں اور پھر پلٹ آتے ہیں، ہم عوام بھی انتہائی بدھو واقع ہوئے ہیں، ہم
مسلسل ان کی چالوں اور ظاہری باتوں سے دھوکے کھا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف
اور نون لیگ نے واقعی وہ کردکھایا جس کا وعدہ انہوں نے گیلانی سے کیا تھا
کہ اگر آپکی پارٹی بھی آپکا ساتھ نہیں دے گی تو ہم دیں گے، قاف لیگ اپنی
مجبوریوں اور کسی حد تک ”شوق“ سے حکومت کا حصہ ہے، کیا امیر مقام سے زیادہ
کوئی مشرف کا چہیتا اور نزدیکی ساتھی تھا، اگر اسے نون لیگ قبول کرسکتی ہے
، اگر لیاقت جتوئی اور ماروی میمن نون لیگ میں شامل ہوسکتے ہیں تو
کیاباقیوں میں کیڑے پڑے ہوئے ہیں؟ مولانا فضل الرحمان آج بھی اندرونی طورپر
حکومت کو سہارا دئے ہوئے ہیں، رہی بات ایم کیو ایم کی تو وہ تو سدا بہار
حکومتی مزے لوٹنے والی ”اپوزیشن پارٹی “ ہے ”اتوں رولا پائی جا، وچوں وچوں
کھائی جا“ کے مصداق ایم کیو ایم ہمیشہ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں ہوتی
ہے، اے این پی کا بھی کم و بیش یہی حال ہے، کراچی میں قبضوں کے لئے لڑائی
اور مرکز میں بھائی بھائی۔ باقی سب باتوں کو چھوڑو، یہ بتاﺅ کہ کتنے اہم
کیسز ہیں جو اس وقت عرصہ دراز سے سپریم کورٹ میں زیر التواءہیں۔ جس کیس میں
آج توہین عدالت لگ رہی ہے، اس میں کم از کم دو تین سال پہلے نہیں لگنی
چاہئے تھی؟ اگر ”سزا“ دینے کی بات ہوبھی رہی ہے تو ذرا اس کی ”ٹائمنگ“ تو
ملاحظہ فرمائیں....! جب وزیر اعظم خود اس عہدے سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں،
جب وہ خود سینہ ٹھونک کر ، آگے بڑھ بڑھ کر نعرے لگا رہے ہیں اور عدلیہ کو
چیلنج کررہے ہیں کہ آﺅ مجھے گھر بھیج دو، آﺅ مجھے نااہل قرار دیدو، آﺅ مجھے
پھانسی دیدو....! اسی وقت کا تو زرداری صاحب بھی انتظار کررہے تھے کہ جب
الیکشن آنے والا ہو تب ”شہادت“ حاصل کرنی ہے اور ایسے ہی وقت میں ”فیصلہ“
آنے والا ہے۔ پھر سانس لے کر کہنے لگا ”یار ہونا کچھ بھی نہیں، یہ سب ملے
ہوئے ہیں، چور سپاہی کا کھیل کھیلا جارہا ہے، عوام دیکھ دیکھ کر تالیاں بجا
رہی ہے ، عوام کو تالیوں کے سوا کوئی کام نہیں آتا، بس تالیاں بجاتے جاﺅ،
نعرے لگاتے جاﺅ، ”آوے ای آوے، جاوے ای جاوے، ملک پاویں خصماں نوں
کھاوے“....! یہ خون آشام سیاسی بلائیں اس ملک اور یہاں کے عوام کے پیچھے
اپنے لمبے لمبے اور نوکیلے دانت باہر نکالے بھاگ رہی ہیں، شکار کررہی ہیں،
ملکی ادارے دھڑا دھڑ لوٹے جارہے ہیں اور ہم عوام مزے سے ”تاریخ تاریخ“ کا
کھیل دیکھتے جارہے ہیں۔ جنگلوں کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے، وہاں بھی کوئی
نہ کوئی ضابطہ ہوتا ہے، یہاں اس ملک میں تو ہر حد پار کرلی گئی ہے۔ ارے
بھائی یہاں تو طیارہ گرنے پر بھی صرف اور صرف سیاسی دکانداری کی جاتی ہے،
نمبر گیم کھیلی جاتی ہے....!آخر پر محترمہ ذہرہ نگارکے چند اشعار، جو حسب
حال بھی ہیں اور قابل توجہ بھی!
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو
پڑوسی مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنے گھر کو بھول کر
کوے کے انڈوں کو پروں میں تھام لیتی ہے
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے
کوئی پل ٹوٹ جائے
تو کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری سانپ چیتا اور بکری
ساتھ ہوتے ہیں
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہے
خداوندا جلیل و معتبر، دانا و بینا منصف اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر |